مدرز ڈے ایک اعتراف اور ایک غلط فہمی کا ازالہ

مدرزڈے مئی کی دوسری اتوار کو نہیں بلکہ ہر اس دن منایا جاتا ہے جس دن سورج مشرق سے نکل کر مغرب میں غروب ہو۔


اویس حفیظ May 10, 2015
اگر آپ ماں کی یاد، ماں کی عظمت، ماں کی محبت کا اظہار لفظوں کی بجائے عمل سے کرتے ہیں تو سمجھ لیجئے کہ آپ نے آج مدرز ڈے کا حق ادا کر دیا ۔فائل :فوٹو

خدارا! کوئی تو ان کی زبانوں کو لگام دے، ان کی گویائی کو بے اثر کرے، کوئی ان کی فکروں پر تالے لگائے، کوئی تو ان کا قلم روکے، کوئی تو بڑھ کر ان سب کے ہاتھ پکڑے، کوئی تو ان سے قرطاس و خامہ کی حرمت پامال کرنے کا حساب لے۔

مئی کا سورج چڑھتے ہی سب قلم گھڑ کر، دوات تیار کرکے اور صفحے آگے دھر کر تیار ہو کر بیٹھ جاتے ہیں کہ ماں کا حق ادا کرنے کا وقت آگیا۔ مدرز ڈے کے حوالے سے ہمارے ہاں ایک بہت بڑی غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ مدرز ڈے مئی کی دوسری اتوار کو منایا جاتا ہے جو کہ سراسر غلط ہے۔ پھر ہر وہ شخص جو کچھ لکھنا جانتا ہے وہ ضرور یہ کوشش کرتا ہے کہ اس موقع پر کچھ نہ کچھ ضرور دمِ تحریر لایا جائے۔

اگر آپ بھی کچھ لکھنا چاہتے ہیں تو ماں کے حوالے سے پانچ، چھ مضامین، چند ایک نامور لوگوں کے ماں سے انسیت کے واقعات، کچھ حکایتیں، کچھ اقوالِ زیریں پکڑئیے، ان سب کو گرائینڈر میں ڈال کر چند سیکنڈ تک گرائینڈ کیجیے۔ ماں کی شان میں آپ کا ''ذاتی آرٹیکل'' تیار ہے۔ لیجئے آپ کی جانب سے ماں کا حق ادا ہو گیا۔ ہاں! حسب ضرورت ماں کی شان کے حوالے سے آیاتِ قرانی اور احادیث شریف بھی شامل کی جا سکتی ہیں تا کہ جذباتیت بھی برقرار رہے اور ثوابِ پیہم کا سلسلہ بھی جاری رہے۔ (واضح رہے کہ ماں کے حوالے سے کچھ لکھنے کیلئے آپ کو قطعاً ماں کا فرمان بردار،تابع حکم ہوناضروری نہیں) بس قلم میں روانی ہونی چاہئے اس کے بعد آپ ثابت کرسکتے ہیں کہ آپ سے زیادہ اپنی ماں سے محبت کسی کو نہیں ہے۔



ہمیں آج یہ اعتراف کرنے میں کوئی باک نہیں کہ کسی دور میں ہماری بھی یہ شدت سے خواہش تھی کہ ماں کے حوالے سے کچھ نہ کچھ ضرور لکھا جائے، میں نے ماں کے حوالے سے غزل، مضمون، افسانہ کیا کچھ نہیں لکھا؟ لکھ بھی دیا، چھپ بھی گیا اور تو اور اپنی ماں کو بھی پڑھا دیا مگر کیا ملا؟ جب گریبان میں جھانکا تو ایک خلشِ مسلسل رہی کہ محض حرمتِ قلم پامال کی۔ میں ہرگز ویسا نہیں ہوں جیسا میں نے تحاریر میں لکھا اگرچہ آج بھی میں اس بات پر قائم ہوں کہ اس میں ایک حرف بھی جھوٹ کا شامل نہیں تھا مگر عمل لفظوں سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ آج جب میں ماں کے سامنے جاتا ہوں یا ماں سے کسی چیز پر لڑتا ہوں یا کسی چیز پر ضد کرتا ہوں تو اپنی ہی تحریریں مجھے عدالت میں کھڑا کر لیتی ہیں۔ میرے اپنے حرف، جن کے موتی میں نے چن چن کر ایک ہار بنایا تھا اور پھر وہ ہار ماںکے گلے میں سجایا تھا وہی حرف میرے لئے خار بن جاتے ہیں۔



میری کوشش خود کو ماں کا فرمانبردار بنانے سے زیادہ ماں کے حوالے سے قلم فرسائی میں، ان تحاریر کی نوک پلک سنوارنے میں صرف ہوئی، جس کا آج مجھے کچھ حد تک ملال بھی ہے کہ کاش کہ میری توجہ ماں کے حوالے سے مضامین لکھنے کی بجائے ماں کی خدمت پر مبذول رہی ہوتی۔ ماں کی محبت لفظوں سے نہیں عمل سے عیاں ہوتی ہے۔ اس مدرز ڈے پر بھی اگر آپ ٹوئیٹر اور فیس بک ٹائم لائن کو ماں کی محبت سے بھرپور اشعار سے سجا دیتے ہیں تو اس سے قطعی یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ آپ کو اپنی ماں سے بہت محبت ہے۔ خدا کے بعد اس کل کائنات میں ماں ہی وہ واحد ہستی ہے جسے لفظوں کی حاجت نہیں ہوتی وہ تو شکل دیکھ کر، آنکھیں پڑھ کر حتیٰ کہ دل میں جھانک کر دیکھ لیتی ہے۔ آپ اس سے اپنی محبت ان بے وقعت لفظوں سے ظاہر کرنا چاہتے ہیں۔

خدارا! ذرا سوچیئے۔ آپ کسے دھوکا دے رہے ہیں؟ اپنی ماں کو، کیا وہ نہیں جانتی کہ آپ کا عمل کیا کہتا ہے؟ اس سے آپ کی زندگی کا کون سا گوشہ ڈھکا چھپا ہے؟ جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی کے کچھ معاملات کو اپنی ماں سے چھپا لیتے ہیں، وہ خود کو فریب میں رکھ رہے ہیں کہ ماں تو نام ہی اس ہستی کا ہے جس کے سینے میں محض اولاد کے عیوب ہی مخفی ہوتے ہیں جنہیں وہ آخری دم تک کسی کے سامنے نہیں آنے دیتی۔ اگر کوئی پوچھے کہ دنیا میں سب سے گہری اور پراسرار شے کیا ہے تو بلا تامل کہنا کہ ماں کا دل کہ جتنا بھی ٹٹول لو، کبھی ماں کے لبوں پر اولاد کیلئے شکوہ نہیں ابھرتا۔

https://twitter.com/GhazalaPhool/status/591787355888947200

مجھے آج بھی اولڈ ہاوس کی وہ ماں یاد ہے جو آخری عمر میں وہاں ٹھوکریں کھا رہی تھی اور جب اس سے پوچھا کہ یہاں کون چھوڑ کرگیا تو کہنے لگی کہ ''میں تو خود ہی آگئی''۔ میں نے اسے اکسانے کے لئے اسکی اولاد کا ذکر کیا تو بھی اس کی تان صرف اپنی بہو پر ہی ٹوٹی کہ ''میرا بیٹا تو بہت اچھا تھا بس میری اپنی بہو سے نہیں بن پائی اور روز روز کے جھگڑوں سے تنگ آ کر میں نے گھر چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا''۔ بے سرو سامانی کے عالم میں نکلتے ہوئے اس عورت نے یہ بھی نہ سوچا تھا کہ وہ کہاں جائے گی، کس کے پاس جا کر رہے گی کیونکہ وہ عورت ایک ''ماں'' تھی اور ماں اولاد کے حوالے سے کوئی فیصلہ عقل کی نہیں دل کی کسوٹی پر کرتی ہے۔

آج بھی جو یہ سوچ رہے ہیں کہ ماں کے حوالے سے وہ ماں کو ایک میسج بھیج کر، ماں کو مدرز ڈے کا گفٹ دے کر، ماں سے دو بول پیار کے بول کر اپنا حق ادا کر چکے ہیں انہیں اپنے گریبان میں جھانکنا چاہئے کہ جتنا وقت وہ اپنے دوستوں، سوشل میڈیا، ٹی وی اورموبائل گیمز وغیرہ پر صرف کرتے ہیں کیا اسی قدر وقت وہ اپنی ماں کو دے پاتے ہیں؟ کیا دنیا سے کٹ کر چند گھڑیاں وہ اپنی ماں کی نذر کرتے ہیں؟ کیا کبھی سوشل میڈیا اور دوستوں سے ہٹ کر اپنے معاملات اپنی ماں سے ساتھ بھی شیئر کرتے ہیں؟ کیا ان کا لہجہ ماں کے ساتھ تلخ تو نہیں ہو جاتا؟ کیا وہ اپنی مصروفیت میں سے اپنی ماں کیلئے اسی طرح وقت نکالیں گے جس طرح باقیوں کیلئے نکالتے ہیں؟ اگر تو ان سب کا جواب مثبت ہے تو پھر میری دانست میں وہ درست راہ اختیار کیے ہوئے ہیں، پھر انہیں محض ایک دن کیلئے اپنی ماں کو ''ہیپی مدرز ڈے'' کہنے، پھول یا چاکلیٹ دینے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں کیونکہ ان کی ماں جانتی ہے کہ اس کے بچوں کو اس سے کتنی محبت ہے لیکن اگر کسی ایک سوال کا جواب بھی کھٹک رہا ہے تو ان بے مقصد و لایعنی کاموں کو چھوڑئیے اور حقیقی مقصد کی طرف توجہ مبذول کیجئے۔

 



شاعری میں عباس تابشؔ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں مگر ان کا یہ ایک زندہ و لافانی شعر ہی انہیں ادب وسخن میں زندہ رکھنے کو کافی ہے کہ ؎
ایک مدت سے میری ماں نہیں سوئی تابشؔ
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے

یہ شعر عباس تابش کی فکر کا نہیں، ان کی ماں سے محبت کا ثمر ہے۔ ماں کے حوالے سے اگر کسی کا بھی کوئی کام زندہ ہے تو وہ اس کی ماں سے محبت کے باعث زندہ ہے نہ کہ، فکری بادشاہی، قلمی روانی یا تخلیق و تخیل کی حکمرانی کے باعث اردو میں غالب اور انگریزی میں شیکسپیئر کو ہی سب سے بڑا نام جانا جاتا ہے مگر کیا ان کی اپنی اپنی ماں کے حوالے سے کسی شعر، کسی تحریر کو وہ مقبولیت مل پائی جو باقیوں کو حاصل ہوئی؟ قدرت اللہ شہاب نے اپنی والدہ کی وفات پر جب ایک افسانہ ''ماں جی'' لکھا تو اکثر ادیبوں نے کہا کہ اگر قدرت اللہ شہاب یہاں پر ہی اپنا قلم توڑ دے تو بھی اس کا یہ افسانہ اسے ادب میں امر کرنے کیلئے کافی ہے۔ وہ پورا افسانہ پڑھ کر دیکھئے، کہیں پر یہ نہیں لگے گا کہ شہاب یہ ثابت کر رہا ہو کہ اسے اپنی ماں سے ازحد محبت تھی وہ تو بس ماں جی کا ایک کرداری خاکہ تھا۔ جنہیں ماں سے محبت ہو انہیں یہ ثابت کرنے کی بالکل کوئی ضرورت پیش نہیں آتی کہ انہیں اپنی ماں سے بہت محبت ہے۔



مرزا ادیب نے ماں کے حوالے سے جو کچھ ''مٹی کا دیا'' میں لکھا یا اپنی ماں کے جو قصے بانو قدسیہ سناتی ہیں، یا جو ممتاز مفتی نے جو کچھ اپنی والدہ کے حوالے سے لکھا، یا اس کے علاوہ بھی کسی بھی زبان کا، کسی بھی ادب کا کوئی بھی قصہ، کوئی بھی حوالہ ماں کے حوالے سے نکال لیں، آپ کو یہی محسوس ہوگا کہ یہ آپکی داستان ہے۔ یہ آپ کی ماں کی بات ہو رہی ہے، میری ماں تو بالکل ایسی ہی ہے۔ماں کی تو خوبی یہی ہے کہ ماں کسی بھی خطے، کسی بھی رنگ، کسی بھی ثقافت سے تعلق رکھتی ہو اس میں یہ قدریں مشترک ہی نظر آتی ہیں کہ؎
وہ میرے درد کو چنتی تھی اپنی پوروں سے
وہ میرے واسطے خود کو نڈھال رکھتی تھی
دعائیں اس کی وبائوں کو روک لیتی تھیں
وہ چارسو میرے ہاتھوں کی ڈھال رکھتی تھی
وہ ڈوبنے نہیں دیتی تھی دکھ کے دریا میں
میرے وجود کی ناو سنبھال رکھتی تھی
وہ منتظر میری رہتی تھی دھوپ میں شاید
میں لوٹتا تھا تو چھاوں نکال رکھتی تھی

لہٰذا اگر آپ ماں، ماں کی یاد، ماں کی عظمت، ماں کی محبت کے حوالے سے قلم نہیں گھساتے اور ماں کو لفظوں کے بجائے عمل سے یقین دلاتے ہیں تو سمجھ لیجئے کہ آپ نے آج مدرز ڈے کا حق ادا کردیا اور جہاں تک مدرز ڈے کے حوالے سے غلط فہمی کی بات ہے کہ تو یہ غلط فہمی دور کر لیجیے کہ مدرزڈے مئی کی دوسری اتوار کو نہیں بلکہ ہر اس دن منایا جاتا ہے جس دن سورج مشرق سے نکل کر مغرب میں غروب ہو۔

[poll id="407"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں