اُردو اب بھی زندہ ہے

صبح دس بجے سے شام چھ بجے کا دورانیہ بہت زیادہ ہوتا ہےلیکن اس طویل دورانیے کے باوجود بھی شرکاء بوریت کا شکار نہیں ہوئے۔


محمد نعیم May 09, 2015
وہ چہرے جو صرف فیس بک اور انٹرنیٹ پر ایک دوسرے سے شناسائی رکھتے تھے آج ایک ہی چھت کے نیچے جمع تھے۔ فوٹو: فیس بک

اگر مجھ سے ایک دن پہلے کوئی یہ بات کہتا کہ اردو کا جنازہ تیار ہے اور معاملہ بس تدفین کا رہ گیا ہے تو شاید یہ بات میں مان لیتا مگر اب نہیں ۔۔۔۔۔ وجہ جاننا چاہتے ہیں؟ تو وجہ کچھ یہ ہے۔

ایسا بہت کم ہی ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا کے دوست عملی زندگی میں بھی ایک دوسرے کو جانتے ہوں۔ مگر کراچی کے چند باہمت نوجوانوں نے اپنی شب و روز کی محنت سے ایسا کر دکھایا اور یہ سب کچھ دیکھنے کو ملا جامعہ کراچی میں منعقد ہونے والی اردو سوشل میڈیا سمٹ میں۔کئی سالوں سے وہ چہرے جو صرف فیس بک اور انٹرنیٹ پر ایک دوسرے سے شناسائی رکھتے تھے آج ایک ہی چھت کے نیچے جمع تھے۔ ناصرف جمع تھے بلکہ اپنی پیاری زبان اردو کی بہتری، ترقی اور اسے عالمی طور پر روشناس کروانے کے لیے کی جانے والی باتوں کو بڑے انہماک سے سن رہے تھے۔



سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر کام کرنے والے یہ بلاگرز پاکستان بھر سے کراچی شعبہ ابلاغ عامہ جامعہ کراچی اور اردو سورس کی جانب سے پاکستان کے پہلے بین الاقوامی اردو سوشل میڈیا سمٹ میں شرکت کے لیے آئے ہوئے تھے۔ صبح دس بجے سے شام چھ بجے کا دورانیہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن مجھے حیرت ہوئی کہ آڈیٹوریم میں موجود سینکڑوں نوجوان بڑی دلچسپی کے ساتھ معزز مہمانوں کی باتیں سنتے رہے۔ حیرت اس لیے ہوئی کہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلباء پروفیسرز کے ایک گھنٹے کے لیکچر بھی سننے کے لیے تیار نہیں ہوتے لیکن اور ایسی مجلس میں بہت جلد بیزاری محسوس کرنے لگتے ہیں۔ لیکن یہاں بات ہو رہی تھی سوشل میڈیا کی جو نئی نسل کے لیے نا صرف انتہائی اہمیت کا حامل ہے بلکہ مقتاطیس کا کام کرتا ہے، بس شاید یہی وجہ تھی کہ دلجمعی سے بیٹھے تھے۔



اردو سوشل میڈیا سمٹ کے حوالے سے شاندار تیاری کی گئی تھی۔ بطور مہمان جن افراد کو مدعو کیا گیا تھا۔ ان کی گفتگو انتہائی شاندار رہی۔ بالخصوص پروفیسر محمود غزنوی اور کاشف حفیظ کی شاعری و گفتگو جبکہ عامر احمد خان کے لیکچر کو شرکا نے بہت پسند کیا۔ سمٹ کا سب سے دلچسپ اور اہم سیشن روایتی میڈیا بمقابلہ سماجی ابلاغ کے عنوان پر ایک مذاکرہ تھا۔ جس کے شرکاء پروفیسر ڈاکٹر محمود غزنوی، وسعت اللہ خان، رعایت اللہ فاروقی، سید فیصل کریم اور فیض اللہ تھے۔

اس مذاکرے میں دوران میڈیا میں اردو کے غلط استعمال، سوشل میڈیا کی طاقت اور اہمیت اور نوجوانوں اور میڈیا سے وابستہ افراد کے طرز تکلم کے حوالے سے اہم گفتگو ہوئی۔ مگر پوری گفتگو میں جو دلچست نکات اُٹھائے گئے وہ کچھ یوں تھے،

وسعت اللہ خان نے روائتی میڈیا کے حوالے سے کہا کہ میڈیا ایک انڈسٹری کی شکل اختیار کرچکا ہے اور اِس حوالے سے جو سب اہم بات کی گئی وہ یہ تھی کہ صابن بیچو یا چینل کھلو بات ایک ہی ہے۔ سینئر صحافی وسعت الله خان کی اردو سوشل میڈیاسمٹ میں گفتگو

https://twitter.com/asra_ghauri/status/596647473394819073

رعایت اللہ فاروقی نے کہا کہ وہ 25 برس سے اخبارات میں لکھ رہے ہیں لیکن جو سکون پچھلے ایک سال سے سوشل میڈیا میں لکھنے میں ملا وہ 25 سالوں میں نہیں ملا کیوں کہ اخبارات میں پالیسی کے تحت لکھنا پڑتا تھا مگر سوشل میڈیا میں اپنی مرضی سے لکھتا ہوں اس لیے ضمیر بھی مطمئن ہے۔

فیض اللہ خان نے کہا کہ میڈیا سیکٹر میں صحافت سے زیاده اداروں کی لگی بندھی پالیسی کو فالو کیا جاتا هے۔

ٹی وی اینکر فیصل کریم نے کہا کہ ٹی وی چینلز پر اب علم اور تجربے کے بجائے خوبصورتی کی بنیاد پر اینکرز چنے جاتے هیں، یہ نہیں دیکھا جاتا ہے کہ اینکر کی زبان کیسی ہے مگر یہ ضرور دیکھا جاتا ہے کہ لڑکی لمبی ہونی چاہیے، دبلی ہونی چاہیے اور گوری ہونا تو لازمی ہے ساتھ ہی ساتھ ٹی شرٹ اور پینٹ میں پُرسکون محسوس کریں۔



یہ وہ چیدہ چیدہ نکات تھے ورنہ باتیں تو اور بھی ہیں جن کا یہاں ذکر کرنے کو دل ہے مگر ممکن نہیں۔ لیکن ان باتوں سے ہٹ کر تمام ماہرین نے اس بات پر زور دیا کہ فروغ اردو کے لیے سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ اس موقع پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس فیس بک، ٹوئٹر پر سمٹ میں موجود شرکاء اپنے خیالات کا اظہار بھی کرتے رہے۔ بعض نے اس سمٹ کے بعد مزید اس نوعیت کے پروگرام کروانے کی تجویز دی، جبکہ بعض کا کہنا تھا کہ اس جیسے پروگرام کراچی کے علاوہ دیگر شہروں میں بھی منعقد ہونے چاہیں۔ سمٹ میں آئے مہمانوں نے بھی نوجوانوں میں اردو کے حوالے سے دلچسپی پر اظہار اطمینان کیا اور اسے ایک نئے دور کی جانب ایک سنگ میل قرار دیا۔

[poll id="409"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں