پھر یوں ہوا کہ ہم ہی ختم کر دیے گئےڈاکٹر یاسر رضوی

کسی لگی لپٹی کے بغیردبنگ انداز میں سب کچھ کہہ دینے والا یہ بزلہ سنج استاد کوئی اور نہیں ڈاکٹر یاسر رضوی تھا


Rizwan Tahir Mubeen May 10, 2015
یہ کیسا سماج ہے۔۔۔ جو تیزی سے اچھے اساتذہ کے وجود سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔ فوٹو : فائل

جامعہ اردو کا شعبۂ اِبلاغ عامہ۔۔۔ 2009ء کے ابتدائی سرما کی ایک صبح۔۔۔ جامعہ اردو میں نووارد طلبا کی بھری ہوئی کلاس۔۔۔ سب باتوں میں مشغول۔۔۔'اب اگلی کلاس کون سی ہے۔۔۔ کون سے ٹیچر ہیں۔۔۔ سلیبس کیا ہے اور کتابیں کون، کون سی لینی ہیں؟' جیسے سوالات کے جواب حاصل کر رہے ہیں۔۔۔ اسی دوران ایک دراز قد کی وجیہہ شخصیت کمرے میں داخل ہوتی ہے اور سب مؤدب ہوجاتے ہیں۔۔۔ سلام کے بعد روسٹروم کو دونوں جانب سے کھسکا کر اس کا رخ درست کرتے ہیں۔۔۔ اپنے ہونٹوں کو دباتے ہوئے کلاس پر اُچٹتی نگاہ ڈالتے ہیں۔۔۔ دونوں آنکھوں کے درمیان سے اپنی عینک کو ٹھیک کرتے ہیں اور گفتگو کا آغاز ہوتا ہے۔۔۔ اور ایسا، کہ تمام طلبا اس گفتار کے سَحر میں جکڑے جاتے ہیں۔ نئے طلبا اور استاد باہم متعارف ہوتے ہیں۔۔۔ کسی لگی لپٹی کے بغیر دبنگ انداز میں سب کچھ کہہ دینے والا یہ بزلہ سنج استاد کوئی اور نہیں ڈاکٹر یاسر رضوی تھا۔

نام تو ان کا سید وحیدالرحمٰن تھا۔۔۔ لیکن معروف وہ یاسررضوی کے نام سے تھے۔۔۔ ایسے ہی کسی فرصت کے لمحے میں ہم نے سر کو کریدا کہ یہ دوسرے نام کا قصہ کیا ہے۔۔۔ تو بتایا کہ 1990ء کی دہائی میں جب قلم سنبھالا تو مجھے یہ قلمی نام پسند آیا اور میں پھر یاسر رضوی ہو گیا۔ ایم اے کے پہلے سیمسٹر میں وہ پڑھاتے تو رپورٹنگ تھے، مگر اساتذہ اورتعلیم کے معاملات اور مسائل سے لے کر دنیا جہاں کے حالات تک۔۔۔ کون سا موضوع تھا، جو زیر بحث نہ آتا ہو۔

''یہاں تک کلیئر ہے۔۔۔؟ اب آگے بڑھیں؟ آپ کے ذہنوں میں کوئی سوال تو نہیں؟'' وہ اپنے لیکچر میں بار بار یہ دُہراتے اور ہر طالب علم کو کھل کر بولنے کا موقع ملتا۔۔۔ جواب کے بعد بھی دوبارہ ضرور پوچھتے کہ اب سمجھ آگیا۔۔۔ کبھی بہت دیر تک کوئی طالب علم مطمئن نہ ہوتا، تو اسے کلاس کے بعد بیٹھ کر سمجھاتے رہتے۔ یہ بھی کہتے کہ یہ میری رائے ہے، آپ کو اس سے اختلاف بھی ہوسکتا ہے۔

وقت کا پہیا چلتا رہا۔۔۔ ہمارا ماسٹرز مکمل ہو گیا۔۔۔ اور ہم روزی روٹی کی دوڑ میں مصروف ہو گئے، مگر یاسر رضوی کوئی چار، چھے گھنٹے کے نہیں زندگی بھر کے لیے تعلق بنانے والے استاد تھے۔۔۔ ان کے کئی شاگردوں کی طرح اس کے بعد بھی ان سے برابر رابطہ رہا۔۔۔ 2012ء میں وہ جامعہ اردو چھوڑ کر جامعہ کراچی سے منسلک ہوگئے اور ہمارے ایم فل کرنے کی خواہش نے ہمیں دوبارہ ڈاکٹر یاسر رضوی کے قدموں میں بیٹھنے کا موقع دیا۔۔۔ ایم فل کے کورس ورک میں ہم دوسرے سیمسٹر میں بھی ان کے شاگرد تھے۔۔۔ کہ 29 اپریل کی صبح آگئی۔۔۔ اور گھات لگائے دہشت گردوں نے انہیں گولیاں مار کر شہید کردیا۔۔۔!

اس بھیانک خبر سے طلبا پر گویا آسمان ٹوٹ پڑا۔۔۔ ایک کُہرام برپا تھا، طلبا دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔۔۔ فون کرکے کہتے ''رضوان، یہ نہیں ہو سکتا، ابھی تو میری ان سے بات ہوئی ہے، تم معلوم کرو، کیا پتا وہ زخمی ہوں۔۔۔'' مجھے بھی یوں لگتا کہ ابھی میں انہیں فون کروں گا، تو دوسری طرف سے وہ روایتی خوش مزاجی سے کہیں گے ''چھوڑیے رضوان صاحب! دہشت گرد بھی کسی کام کے آدمی کو ماریں گے۔۔۔ ہم جیسوں کو مار کر کیا ملے گا انہیں۔۔۔'' مگر افسوس یہ خیال محض خیال رہ گیا اور آنسوؤں کا سیل رواں بن کر آنکھوں سے بہنے لگا۔۔۔

ڈاکٹر یاسر رضوی (وحیدالرحمٰن) کی شہادت کی خبر پر ہر ایک یہ کہتا نظر آیا ''کاش، یہ خبر غلط ہو۔۔۔ کاش، یہ سب کوئی بھیانک خواب ہوتا۔'' اُن کا مقام جاننے کے لیے ان کی طالبہ کا یہ جملہ کافی ہے کہ ''ایسا لگ رہا ہے کہ میرے ماں، باپ میں سے کوئی چھن گیا ہے!''

سر یاسر کتنے ہی ناگفتنی پر کلاس میں بڑے سلیقے اور طریقے سے بات کر جاتے۔۔۔ موقع محل کے لحاظ سے اشعار کا استعمال ان کے لیکچر کا خاصہ تھا۔ تنبیہ اور نصیحت کرنے کا ڈھنگ بھی انہیں خوب آتا تھا۔ وہ تلخ باتوں پر بھی کلاس میں قہقہے بکھیر دیتے تھے۔۔۔ مگر شاید ہی کسی نے انہیں کھلکھلا کر بھی ہنستے دیکھا ہو۔۔۔ بہت زیادہ پُرمزاح بات پر بھی ان کے چہرے پر ایک دبا دبا سا تبسم ہی آتا، بہت زیادہ ہوتا، تو ایک بھرپور مسکان ان کے چہرے پر بکھر جاتی۔ اسٹاف روم میں وہ ہمیشہ طلبا کے جھُرمٹ میں رہتے۔۔۔ اور جامعہ کراچی کے شعبہ اِبلاغ عامہ کی پہلی منزل کا وہ آخری کمرہ ان کا تھا۔۔۔ وہاں بھی طلبا کا جمگھٹا لگا رہتا۔۔۔ ''سر، میرا اسائمنٹ۔۔۔ سر، مجھے انٹرن شپ کرنی ہے۔۔۔ سر، میرا یہ مسئلہ ہو گیا۔۔۔ سر، بتائیں ناں فلاں کام کیسے ہوگا، فلاں کام کے لیے کہاں جائیں۔۔۔'' یہ وہ باتیں تھیں، جن کے لیے اب وہ سائیں سائیں کرتا کمرہ ترسا کرے گا۔۔۔

خود ہر قسم کی بات کر لیتے تھے، مگر اپنے طلبا کے لیے سراپا متفکر۔۔۔ ''دیکھو! ایسا نہ کرو، یہ کام اس طرح نہیں ہو سکے گا۔''۔۔۔ ایک جملہ جو اکثر ان کی زبان پر ہوتا اور جب ہم کوئی کم فہم یا ناقابل عمل بات کہتے تو گویا ہوتے، ''ایسا نہ کریں، ایسے تو آپ مارے جائیں گے!'' جیسے کوئی اسائمنٹ یا ایم فل کے لیے تحقیقی خاکہ ہو، اب کوئی موضوع جان دار ہے، صحت مند ہے، قابل تحقیق ہے یا نہیں۔۔۔ یہ سب سوچنے کا ذمہ سب نے انہیں پر تو رکھ چھوڑا تھا۔ وہ مصروف بھی ہوتے تب بھی اپنے طلبا کو کچھ نہ کچھ وقت ضرور دے دیتے تھے۔

اپنی شہادت سے پورے 20 دن پہلے 9 اپریل کی ایک تپتی دوپہر جب ہم جامعہ سے نکل رہے تھے، تو انہوں نے کہا میں بھی نکل رہا ہوں، آؤ تم لوگوں کو مسکن (جامعہ کے ایک دروازے کا نام) تک چھوڑ دوں۔۔۔ یوں ہم پہلی اور آخری بار ان کی گاڑی میں بیٹھے۔۔۔

دھوپ میں ان کی گاڑی تپ رہی تھی۔ طالبات نے جھلستی ہوئی گاڑی پر شکوہ کیا، ''سر! اپنی گاڑی میں اے سی تو لگوا لیں۔۔۔''

''بھئی، میں نے آپ لوگوں کو صرف گاڑی آفر کی ہے، اے سی نہیں۔۔۔'' وہ ہمیشہ کی طرح خوب صورتی سے بات کو ٹال گئے۔

موٹر سائیکل چلانے کے وہ عادی نہ تھے۔ یہ گاڑی بھی انہوں نے ابھی ہی لی تھی۔۔۔ وہی گاڑی جس میں انہیں درندہ صفت دہشت گردوں نے شہید کر دیا۔۔۔ متاثرہ گاڑی دیکھی تو ڈرائیونگ سیٹ کے پہلو میں جہاں میں بیٹھا تھا، اب وہ ان کے خوں سے رنگی ہوئی تھی۔۔۔ ایک دوسری تصویر میں ان کی متاثرہ گاڑی کا وہ پچھلا کواڑ بھی کھلا تھا، بالکل اُس دن کی طرح جب میں نے اترتے ہوئے اپنی ہم جماعت کے لیے کھولا تھا۔۔۔ کیوں کہ سر نے ہدایت کی تھی کہ رضوان، یہ دروازہ کھولو، یہ باہر سے کھلے گا!'' دوران سفر حسب عادت گفتگو کا سلسلہ رہا۔۔۔ جب اترنے لگا، تو انہوں نے کہا ''اس پر بعد میں بات کریں گے، تفصیل سے۔۔۔!'' میری بد نصیبی کہ یہ تشنگی عمربھرکے لیے باقی رہ گئی۔۔۔ وہ موقع پھر کبھی نہ آسکا۔

ڈاکٹر یاسر رضوی نے اپنے کمرے میں ایک عرب شاعر نزار توفیق قبانی کی ایک نظم کا اردو ترجمہ آویزاں کیا ہوا تھا، جو حارث خلیق نے کیا تھا۔ اس طویل کاٹ دار نظم کے پہلا بند ہی کچھ یوں ہے؎

''جہاں سب سوچنے اور لکھنے والوں کا مقدر
ارضِ مقتل ہے
جہاں لب قید ہیں
اور جْبّہ و خرقہ نے تازہ لفظ پہ پہرے بٹھائے ہیں
جہاں کچھ پوچھ لینا لائق تعزیر ٹھیرا ہے
وہاں مجھ کو
اجازت مل سکے گی کیا''
سر۔۔۔!

آپ ایک اندھیرے معاشرے سے آزادی سے سانس لینے کی اجازت کے طالب تھے ناں۔۔۔ آپ کو اس کی اجازت نہیں مل سکی۔۔۔ اور ساتھ ہی آئندہ ایسی جرأت کرنے والوں کو بھی پیغام دے دیا گیا کہ ''اب سوچے گا ایسا؟''

یہ کیسا سماج ہے۔۔۔ جو تیزی سے اچھے اساتذہ کے وجود سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔۔۔ ہر ایک کی طرح میرا بھی یہ سوال تھا۔۔۔ میں ان کے آخری دیدار کے وقت یہی سوچ رہا تھا کہ ہمیں اندھیروں سے بچانے والی ایک اور مشعل بجھا دی گئی۔۔۔ طالب علموں کا وہ راہ نما کوچ کر گیا، جو انہیں کام یابی کی راہ پر گام زن کرتا تھا۔۔۔ خود پُرخار گھاٹیوں پر ٹھیر کر اپنے طلبا کی ترقی کا سہارا بنتا تھا۔۔۔ اچانک وہاں موجود ایک اور استاد گویا ہوئے کہ ان کی مادر علمی سے بلاوا آیا ہے،''طلبا کلاس کے لیے آپ کی آمد کے منتظر ہیں!'' مجھے جواب مل گیا، واقعی اب ہم اچھے اساتذہ کے قابل نہیں۔۔۔ جب ایک استاد ہی اپنے جیسے ایک استاد کی اندوہ ناک موت پر ایسی بے حسی کا مظاہرہ کرے، حتیٰ کہ جنازے کے وقت بھی اپنے ماتحت استاد کو رخصت دینے کے لیے تیار نہ ہو، تو باقی لوگوں سے کیا توقع کی جائے۔

ڈاکٹر یاسر رضوی سے عقیدت رکھنے والی ہر آنکھ ابھی تک چھلکی ہوئی ہے۔۔۔ ان کے طلبا کو کسی طور صبر نہیں آرہا۔۔۔ انہیں زندگی اندھیر محسوس ہوتی ہے اور کیوں نہ ہو۔۔۔ وہ فقط دستِ شفقت تو نہ تھا۔۔۔ ان کا اعتبار اور اعتماد تھا۔۔۔ مجھے یاد ہے، ماسٹرز کے زمانے میں انہوں نے لیکچر کے دوران ایک بار کسی مشہور شاعر کے یہ اشعار پڑھے تھے۔۔۔ پتا نہیں کیوں اب ایسا لگتا ہے کہ یہ اشعار ان کی ہی وجۂ قتل بیان کر رہے ہیں؎

گنتی میں بے شمار تھے کم کر دیے گئے
ہم ساتھ کے قبیلوں میں ضم کر دیے گئے
پہلے نظام عدل ہوا ہم سے انتساب
پھر یوں ہوا کہ ہم ہی ختم کردیے گئے
ہر دور میں رہا یہ آئینِ منصفی
جو سر نہ جھک سکے وہ قلم کر دیے گئے!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں