قومی کھیل کے ساتھ حکام کی بے رُخیآخر کب تک۔۔۔

میچ کے دوران پلیئرز نے اس شاندار کھیل کا مظاہرہ کیا کہ ماضی کے سنہری دور کی یادیں تازہ ہو گئیں


Mian Asghar Saleemi May 10, 2015
دنیا میں متعدد ممالک میں تو پاکستان کی پہچان ہی ہاکی کے کھیل کے ذریعے ہوئی ہے,فوٹو : فائل

پاکستان اور جنوبی کوریا کی ٹیمیں چین میں شیڈول ایشین گیمز2010 ء کے سیمی فائنل مقابلے میں آمنے سامنے ہیں، فیصلہ کن میچ شروع ہونے سے چند منٹ قبل پی ایچ ایف کا ایک اعلی عہدیدار ٹیم کے پاس آتا ہے اور کھلاڑیوں کی رگوں میں بہنے والے خون کو گرمانے کے لئے ایک مختصر مگر معنی خیز خطاب کرتا ہے، وہ کہتا ہے کہ قومی ہاکی جس تباہی وبربادی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔

اس کو اس بھنور سے نکالنے کے لئے آج کے اس میچ میں فتح بہت ضروری ہے،یاد رکھو کہ اگر ہم اپنی جدوجہد میں کامیاب رہے تو نہ صرف ملک بھر میں تمھارا قومی ہیروز کی طرح استقبال ہوگا بلکہ قومی کھیل کو ایک بار پھر زندہ کرنے میں مدد بھی ملے گی، اس تقریر کے بعد پاکستان ٹیم نے یکجان ہو کر کھیلنے کا عہد کرتے ہوئے اس زور سے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا کہ گوانگزو سٹیڈیم کے درو دیوارہل کررہ گئے۔

بعد ازاں میچ کے دوران پلیئرز نے اس شاندار کھیل کا مظاہرہ کیا کہ ماضی کے سنہری دور کی یادیں تازہ ہو گئیں، مقررہ وقت پر مقابلہ 1-1سے برابر رہا تو میچ کو فیصلہ کن بنانے کے لئے پنالٹی سٹروکس کا سہارا لینا پڑا جس میں دوسرے کھلاڑیوں بالخصوص گول کیپر سلمان اکبر نے اپنے کیریئر کا غیر معمولی کھیل پیش کرتے ہوئے 4-3 سے فتح پاکستانی ٹیم کی جھولی میں ڈال دی، 25 نومبر کو فائنل مقابلے میں گرین شرٹس نے ملائشیا کو یکطرفہ مقابلے میں 2-0 سے زیر کر کے 22 سال کے طویل عرصہ کے بعد ایشین گیمز کا ٹائٹل اپنے نام کیا۔



اس بڑی کامیابی کے بعد قومی کھلاڑی جب پاکستان پہنچے تو شائقین کا تاریخی استقبال ہوا بعد میں حکومتی ایوانوں میں بھی ٹیم کی کارکردگی کو خوب سراہا گیا اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے انعام و کرام سے نوازا گیا۔ مگر افسوس صد افسوس اقتدار بدلنے کے ساتھ ہی نئی حکومت کی ترجیحات بھی بدل گئیں، قومی کھیل کو بوجھ سمجھ کرنظر انداز کر دیا گیا اور ملکی ہاکی واپس اسی مقام پر آگئی جہاں سے اس نے اپنے سفر کا آغاز تھا۔اب 2 سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔

پی ایچ ایف انتظامیہ ہاتھ میں کشکول تھامے حکومت سے فنڈز کا تقاضا کر رہی ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ عہدیداروں کے لاہور سے اسلام آباد کا سفر کرتے کرتے جوتے تک گھس چکے ہیں لیکن حکومت کی طرف سے ابھی تک کوئی خوشخبری نہیں مل سکی ہے۔فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے پاکستان ہاکی ٹیم نہ صرف مسلسل دوسری بار سلطان اذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ میں شرکت سے محروم رہی ہے بلکہ فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہی اولمپک کوالیفائنگ رائونڈ کی تیاریوں کے لئے اسلام آباد میں لگایا جانے والا کیمپ بھی منسوخ کرنا پڑا۔27 ماہ سے سنٹرل کنٹریکٹ نہ ملنے کی وجہ سے قومی ہاکی ٹیم کے کھلاڑی الگ سے پریشان ہیں۔

کپتان سمیت متعدد سینئر اور جونیئر کھلاڑی راقم سے اکثر کہتے آئے ہیں کہ آپ تو صحافی ہیں ، آپ لوگوں کی حکومتی ایوانوں میں بڑی جلد سنی جاتی ہے، ہمارے حق میں بھی آواز اٹھائیں اور ہمارے خاندانوں کو مزید فاقہ کشی سے بچائیں، اب میں ان بھولے بھالے کھلاڑیوں کو کیسے سمجھائوں کہ جس ملک میں ہر کسی کو اپنی پڑی ہو، وہاں ہماری کون سنتا ہے۔

بلاشبہ وزیر اعظم نواز شریف کا موجودہ دورسنہری کارناموں سے بھرا پڑا ہے، پرائم منسٹر صاحب جو پی ایچ ایف کے پیٹرن انچیف بھی ہیں سے بس ایک سوال ہے کہ اگر آپ چین کے ساتھ اربوں ڈالر کے میگا پروجیکٹس شروع کر سکتے ہیں، شمسی توانائی سے بجلی بنانے کا پہلا منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچا سکتے ہیں، لاہور سے کراچی تک موٹروے بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں، دہشت گردی کے جن کے خاتمے کے لئے ٹھوس بنیادوں پر اقدامات کر سکتے ہیں، بے روزگار نوجوانوں کے لئے اپنا روزگار سکیم اور کم شرح سود پر قرضے دلا سکتے ہیں۔

غریب اور بے گھر لوگوں کے لئے آشیانہ سکیم شروع کر سکتے ہیں اورکالجوں اور یونیورسٹی کے طالبعلموں کو مفت لیپ ٹاپ دے سکتے ہیں تو قومی کھیل کی بہتری کے لئے چند کروڑ روپے کی گرانٹ جاری کیوں نہیں کر سکتے اور ملکی ہاکی کی ڈوبتی اور ڈگمگاتی ہوئی کشتی کو کنارے پر لانے میں اپنا کردار کیوں نہیں کرتے؟ ہاکی سے وابستہ کھلاڑیوں اور کوچز نے بہت فاقے کاٹ لئے، اپنوں کے طعنے بہت سن لئے، ان کھلاڑیوں کو اتنا نہ ستایا جائے کہ ہاکی کھیلنا ان کے لئے جرم بن جائے اور وہ اپنی آنے والی سات نسلوں کو بھی ہاکی نہ کھیلنے کی وصیت کر کے مریں،وزیراعظم خود سپورٹس مین ہیں اوراُن سے بہتر اور کون جان سکتا ہے کہ ہاکی ہی وہ واحد کھیل ہے جس نے قیام پاکستان سے لے کر اب تک ملک کو سب سے زیادہ ٹائیٹلزجتوائے ہیں۔



بلکہ دنیا میں متعدد ممالک میں تو پاکستان کی پہچان ہی ہاکی کے کھیل کے ذریعے ہوئی ہے، اگر آپ کو پاکستان ہاکی فیڈریشن کے منتخب عہدیداروں پر اعتبار نہیں تو بے شک اپنے ہی وزراء یا حکومتی محکموں کے اعلی افسروں پر مشتمل ایک اکائونٹس کمیٹی بنا دیں جس کے ذریعے ہاکی پر خرچ ہونے والے فنڈز کی پائی پائی کا حساب کتاب رکھا جائے، اگر آپ ایسا بھی نہیں کر سکتے ہیں تو قومی کھیل پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پابندی عائد کر دیں ۔

جاتے جاتے ایک بات اور ضرور کہوں گا کہ ملکی ہاکی کو اس حال تک پہنچانے میں حکومت سے بھی زیادہ پی ایچ ایف کے ذمہ داروں کا ہاتھ رہا ہے جن کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ فنڈز کے حصول کے لئے خودکچھ نہ کرو بلکہ ضرورت پڑنے پر اخبارات اور ٹی ویژن چینلز میں اس طرح کے تندو تیز بیان جاری کرو کہ حکومت کے ہاتھ پائوں پھول جائیں اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی فنڈز جاری کر کے اپنی جان چھڑا لے۔ شائقین کے لئے یہ کتنی مضحکہ بات ہوگی کہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کا مارکیٹنگ کا اپنا کوئی شعبہ ہی نہیں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دوستیاں، یاریاں اور رشتہ داریاں نبھانے کی بجائے صرف اور صرف میرٹ کی بنیاد پر مارکیٹنگ ڈیپارٹمنٹ تشکیل دے کر خود سے بھی فنڈز جمع کرنے کی پریکٹس کا آغاز کیا جائے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں