بریڈفورڈکی نازشاہ
بے بسی کے سفرمیں نازشاہ کی والدہ زہرہ کی ملاقات اعظم نامی ایک پاکستانی سے ہوگئی۔
ملک اورقومیں اپنی صلاحیتوں اورخوبیوں کی بنیادپرترقی کرتی ہیں۔دوسروں کی کمزوریاں اجاگرکرنے سے نہیں!یہی قدرت کااٹل اصول ہے۔اس سے کوئی مفرنہیں۔ہم بھی نہیں۔
نازشاہ چنددن قبل برطانوی ہاؤس آف کامنز (House of Commons)کی ممبرمنتخب ہوئی ہیں۔وہ پہلی مرتبہ ملکی سطح کی اس طاقتورپارلیمنٹ میں بھرپورووٹ لے کر شامل ہوئیں ہیں۔دودن پہلے جب الیکشن کانتیجہ دیکھا، تو میرے لیے یہ تمام نام بے جان سے تھے۔مجھے ان کی کامیابی میں کوئی دلچسپی محسوس نہیں ہوئی۔ہماری قوم کے اپنے مسائل اس قدر گمبھیر ہیں،ہاؤس آف کامنزسے!ہمار کیا تعلق۔ مگر جب اتفاقیہ طورپران پاکستانیوں کے متعلق پڑھنا شروع کیا، جو دیارِغیر میں طاقت کے منصب پر منتخب ہوکر فائز ہوئے ہیں تویقین فرمائیے،اپنی کم علمی پربرف کی مانندپگھلناشروع ہوگیا۔ نازشاہ کی زندگی کوپڑھنے کے لیے بہت حوصلہ چاہیے۔
نازصرف چھ برس کی تھی،جب اس کے والدنے پورے خاندان کوچھوڑدیا۔اس کی والدہ زہرہ، دوبچیاںاور ایک پیدا ہونے کے قریب بچہ،چارلوگوں کایہ خاندان اپنے والدکے رویہ کی بدولت مکمل طورپربربادہوگیا۔وجہ یہ والدنے ایک نوجوان لڑکی سے تعلق قائم کرلیاتھا۔اس کی بنیادی شرط اپنے پہلے خاندان کوگھرسے نکالناتھا۔6برس کی عمرکی بچی اس کے بعداپنے والدکوزندگی بھرنہیں دیکھ پائی۔جب پورے خاندان کو گھرسے نکالاگیاتوانکے پاس ٹیکسی کے کرایہ کے پیسے تک نہیں تھے۔ناز،اس کی چھوٹی بہن اورحاملہ ماں انتہائی بے چارگی کے عالم میں اپنے ایک رشتہ دارکے گھرمنتقل ہوگئے۔
آپ خود اندازہ کیجیے،بریڈفورڈ(Bredford)میں ان لوگوں پرکیاکیابلائیں نازل نہیں ہوئی ہونگی۔ایک اَن پڑھ ماں جسکے پاس کوئی ہنرنہ ہو،تین چھوٹے چھوٹے بچے اورکسی قسم کے مالی وسائل کی غیرموجودگی۔اگلے دوسال یہ لوگ زمانے کی ٹھوکروں میں رہے۔کبھی ایک گھرسے دوسرے گھرتک،کبھی ایسے کمروں میں جہاں چوہے ہی چوہے ہوں اورکبھی ایک ٹھنڈا فرش،جس پرتمام لوگ سونے پرمجبورہوں۔دوسال میں ان لوگوں کوچودہ مرتبہ گھریاکمرہ تبدیل کرناپڑا۔کسی رشتہ دارنے ان کی مددنہ کی۔انکاہاتھ پکڑنے کے لیے کوئی بھی تیارنہیں تھا۔
بے بسی کے سفرمیں نازشاہ کی والدہ زہرہ کی ملاقات اعظم نامی ایک پاکستانی سے ہوگئی۔وہ بریڈفورڈکے علاقے میں منشیات کاکام کرتاتھا۔اس کی شہرت ایک جرائم پیشہ انسان کی تھی۔اعظم نے وعدہ کیاکہ وہ ان لوگوں کی حفاظت کریگا۔وہ تمام ایک ہی گھرمیں رہنے لگ گئے۔نازکی عمراس وقت گیارہ برس کی تھی۔اس کی والدہ کے پاس کچھ زیوارات تھے۔وہ بیچ کر زہرہ نے اعظم پراعتمادکرتے ہوئے اسی کے نام پرایک چھوٹا ساگھرلے لیا۔
والدہ کاخیال تھاکہ تین بچوں کے سرپراپنی چھت ہوگی اوروہ دربدرکی ٹھوکروں سے بچ جائینگے۔مگرابھی حالات نے مزیدبگڑناتھا۔اعظم کارویہ اس خاندان سے انتہائی سفاکانہ ہوگیا۔وہ زہرہ پربے انتہاتشددکرتاتھا۔اسے چھڑی، بیداورچمڑے کی بیلٹ سے زد و کوب کرتاتھا۔تشددسے اس مجبورعورت کاجسم چھلنی چھلنی ہوجاتاتھامگروہ خاموش رہتی تھی کہ اس کے بچے اپنی آخری چھت سے بھی محروم نہ ہوجائیں۔ جب اس مجبورعورت نے یہ محسوس کیاکہ اعظم کی نظرمیں اس کی بچیوں کے لیے بھی عزت ختم ہورہی ہے،تواس نے قرضہ لے کراپنی بچیوں کوپاکستان بھجوادیا۔یہ قرضہ اس نے کس تکلیف اور جبر سے واپس کیاہوگا،اسکووہ خودجانتی تھی یااسکاخدا۔مگراعظم نے اب مزیدغصہ میں آکراس پرتشددکی انتہاکردی تھی۔
نازپاکستان میں صرف پندرہ برس کی تھی کہ بتایاگیاکہ دودن میں اس کی شادی ہورہی ہے۔اسلامی خواتین کے مطابق مرضی یارضانہ پوچھی گئی۔یہ زبردستی کی شادی تھی۔وہ اس قدرضعف میں تھی کہ وہ کچھ نہ کرسکی۔پاکستانی شوہرعمرمیں اس سے بہت بڑاتھا۔یہ شادی دراصل بذات خودایک ظلم تھا۔لیکن ہمارے معاشرے میں ایسے مظالم روزہوتے ہیں۔کسی شکوہ یا شکایت کے بغیر!اس شادی سے دوبچے پیداہوگئے۔
نازشاہ واپس پاکستان سے بریڈفورڈآچکی تھی۔اس نے اسکول توعرصہ پہلے چھوڑدیاتھا۔برطانوی لحاظ سے وہ مکمل اَن پڑھ تھی۔اس نے اپنے شوہرکوچھوڑکرزندگی کے تمام فیصلے خودکرنے کاحوصلہ کیا۔بنیادی طورپر مزدوری شروع کردی۔ اسکو اوشر اسٹریٹ (Usher Street)پراسپتال کی چادریں دھونے کاکام مل گیا۔یہ دراصل ایک کپڑے دھونے کی لانڈری تھی جسکانام سوسائٹی لائنن(Society Linen)تھا۔ اس مزدوری کے پیسوں سے اپنے بچوں اوربہنوں کاپیٹ پالنے کی جدوجہد کر رہی تھی۔
حالات کاایک اورجبرابھی باقی تھا۔جس نے ہرچیز مزید بربادکرکے رکھ ڈالی۔نازشاہ کی والدہ نے سالہاسال کے جسمانی اورروحانی تشددکابدلہ ایسے لیاکہ اعظم کوزہردیکر مار ڈالا۔ قتل کامقدمہ ہوگیا۔عدالت نے بیس سال قیدکی سزاکا حکم سنا دیا۔اب والدہ سزایافتہ تھی۔عدالت نے اس کی دلیل کو تسلیم ہی نہیں کیاکہ اعظم اس پرجانوروں سے بھی زیادہ تشدد کرتا تھا۔ سزاکے بعدزہرہ کونیوہال(New hall) جیل میں منتقل کردیا گیا۔جب پہلی بارناز جیل میں اپنی والدہ کوملنے گئی تواس کے ضبط اورصبرکے تمام بندٹوٹ گئے۔ماں اوربیٹی پھوٹ پھوٹ کرروئے۔واپسی پرنازشاہ نے اپنی زندگی کا سب سے مضبوط فیصلہ کیا۔اس نے اپنی بہنوں،بچوں اورماں کی کفالت کرنے کا عزم کیا۔دراصل اب وہ سب کی ماں تھی۔
اپنی والدہ کی بھی۔ سوسائٹی لائنن سے جوپیسے ملتے تھے،اس میں بہت تنگی سے گزارہ ہوتاتھا۔ایک نوکری سے دوسری نوکری! اس کا معاوضہ اس کی محنت کی بدولت بڑھتاگیا۔اب اس نے دوسرا فیصلہ کیا کہ اپنی تعلیم مکمل کریگی۔ آپ خوداندازہ لگائیے۔ ایک پورا خاندان،ماں جیل میں، مزدوری اور پھر تعلیم،یہ کتنا مشکل کام ہوگا۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ اب وہ ہر ہفتہ اپنی ماں کوملنے جیل جاتی تھی۔اس کی ضروریات کو پورا کرتی تھی۔حوصلہ دیتی تھی کہ وہ اس ظلم کے خلاف لڑے گی۔ اس نے درحقیقت مظلوم خواتین کے حق میں آواز بلندکرنی شروع کردی اور خواتین کاایک گروپ تشکیل کر دیا۔وہ عورتوں کے حقوق کے لیے عملی جدوجہدکرتی تھی۔جوبھی وقت بچتا تھا، اس نے اپنے جیسی بدقسمت عورتوں کی بہتری کے لیے وقف کرڈالا۔نتیجہ یہ نکلاکہ زہرہ یعنی اس کی والدہ نے جو قتل حالات کی مجبوری کی وجہ سے کیا تھا، اس کی سزا کوچودہ سال کردیا گیا۔
پیروول آفس (Parole Office) نے یہ چھ سال کی تحفیف صرف اورصرف نازشاہ کی عملی جدوجہد کی بدولت کی۔ماں جیل سے باہرآگئی۔ نازشاہ نے اب اپنی زندگی میں ہراس ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے کافیصلہ کرلیا، جسکی بدولت اس جیسے ہزاروں خاندان تباہ ہورہے تھے۔ان کی بہتری کے لیے وہ دیوانہ وارلڑتی تھی۔ اسی دوران اس کے جذبہ کو دیکھتے ہوئے اس کو N.H.S میں نوکری مل گئی۔ اب گھرگھرجاتی تھی اور مظلوم عورتوں کی مدد کرتی تھی۔ ایک دن اس کے انگریزانچارج نے پوچھا کہ ظلم کودیکھ کر غصہ میں کیوں آجاتی ہے۔ ناز کا جواب تھا، جو کچھ میرے اورمیرے خاندان کے ساتھ ہوا، میں یہ ظلم کسی اور کے ساتھ نہیں ہونے دونگی۔
N.H.Sکے اعلیٰ اہلکاروں کواب یقین ہو چکا تھاکہ نازشاہ میں ایک لیڈربننے کی قدرتی صلاحیت موجود ہے۔ انھوں نے برطانوی حکومت سے اجازت لے کراس کی قائدانہ صلاحیتوں کو اجاگرکرنے کے لیے تربیت شروع کردی۔ مگر کچھ عرصے کے بعد اسکوبجٹ نہ ہونے کی وجہ سے N.H.S سے بھی فارغ کر دیا گیا۔اب نازشاہ کواپنے اوپراتنااعتمادتھاکہ وہ ہرمشکل کوحل کرسکتی تھی۔اس نے اپنی زندگی کارخ تبدیل کردیا۔لوکل سیاست میں آنے کا مشکل فیصلہ کیا۔اس کے مالی وسائل بہت کم تھے مگر زندگی کی کہانی اتنی بھرپورتھی کہ لوگ اس کی جانب کھینچے چلے آتے تھے۔
چندہفتے پہلے نازشاہ کولندن بلایاگیا۔لیبرپارٹی کی اعلیٰ قیادت نے بریڈفورڈسےM.Pکاالیکشن لڑنے کے متعلق اس کا ارادہ پوچھا۔نازکویقین نہ آیاکہ اسے ممبرپارلیمنٹ کاٹکٹ دیا جا رہاہے۔اس نے الیکشن لڑنے کے لیے رضامندی کااظہار کردیا۔ جب وہ واپس بریڈفورڈپہنچی اوراپنی تریسٹھ سالہ ضعیف ماں کویہ خبرسنائی،تودونوں ماں بیٹی بالکل اس طرح پھوٹ کرروئیں جس طرح جیل میں پہلی ملاقات کے دوران زارو قطار روئی تھیں۔پچھلے ہفتے کے الیکشن میں نازشاہ نے اپنے مخالف M.Pجارج گیلووے کوزبردست شکست دی۔اب وہ ہاؤس آف کامنزکی ممبرہے۔
الیکشن جیتنے کے بعد اس نے بارک اوباما کی کتاب"میرے والدکے خواب" (Dreams of my father)کے حوالے سے بات کی اورکہاکہ اس نے اپنی والدہ کا خواب پوراکرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔اس خاندان نے جن مصائب کامقابلہ کیاہے اس کے عشرعشیرسے بھی لوگ پتوں کی مانند بکھرجاتے ہیں۔ نازشاہ اپنے دوبیٹوں عادن اوررئیس کے متعلق بتاتی ہے کہ انھیں وہ بہترمستقبل فراہم کریگی۔اپنے سے بہتر!بچوں کی عمرتین اورسات سال ہے۔اس کی بیٹی کی عمرصرف دس برس ہے۔
بچی نے اپنی ماں کوظلم کی دھوپ میں جلتے ہوئے دیکھا ہے۔لہذاوہ ابھی سے شدیدمحنت کرنے کی عادی ہے۔اس کے پاس جوبھی پیسے جمع ہوتے ہیں،وہ ان تمام کولوگوں کی بھلائی کے کاموں کے لیے خیرات کردیتی ہے۔پچھلے ہفتے 34 پاؤنڈ خیرات کیے ہیں۔ بچی کہتی ہے کہ یہ پیسے بہت کم ہیں، مگرجس خاندان کے پاس کچھ بھی نہیں،اس کے لیے کم ازکم ایک وقت کے کھانے کاانتظام توہوجاتاہے۔
اب میں اپنے ملک کے سیاسی نظام کودیکھتاہوں۔ یہاں صوبائی اورقومی پارلیمنٹ میں کسی غریب انسان کا پہنچنانا ممکن ہے۔یہاں ہماری سیاسی ملکی قیادت اس حدتک ادنیٰ کردارکی مالک ہے کہ پارٹی فنڈیاذاتی حیثیت میں پیسے وصول کیے بغیرکسی کوکونسلرتک بننے کی اجازت نہیں دے سکتی۔ صوبائی اورقومی اسمبلی میں میرٹ اوراہلیت پرٹکٹ دینا توخیر ایک خواب سے بڑھ کرکچھ بھی نہیں۔ہمارے ملک میں صلاحیت رکھنے والے مرداورخواتین خواب دیکھتے ہوئے خود ہی خواب ہوجاتے ہیں!یہاں لائق،سچے اورذہین لوگوں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ان کی ترقی کرنے کے لیے کوئی زینہ موجود نہیں۔ بنجرنظام محض کانٹے اورمصائب ہی پیدا کر سکتا ہے، بریڈ فورڈ کی نازشاہ نہیں!