میں نے بھی زندگی جنم دی ہے
ماں بننے کے بعد ہی ماں کی محبت شفقت اور قربانیوں کا صیح ادراک ہوتا ہے
کا ئنات کے خالق /دیکھ تو مرا/آج میری آنکھوں میں/کیسی جگمگاہٹ ہے/آج میرے ہونٹوں پہ /کیسی مسکراہٹ ہے/میری مسکراہٹ سے تجھ کوکیا یاد آیا /میری بھیگی پلکوں پہ تجھ کو کچھ نظرآیا /ہا ں ترا گماں سچ ہے/ہاں کہ آج میں نے بھی/زندگی جنم دی ہے۔
پروین شاکر کی یہ نظم ماں کی تمام خوبصورت جذبوں کی عکاس ہے کہ ماں بننے کے بعد ہی ماں کی محبت شفقت اور قربانیوں کا صیح ادراک ہوتا ہے اک نئی زندگی کو جنم دینا اسے اپنے ہا تھوں میں پہلی بار اٹھا کر پیارکرنا ماں کے لیے دنیا کا سب سے قیمتی لمحہ ہوتا ہے جس دکھ و تکلیف کو جھیل کر وہ ماں بنتی ہے، اللہ تعالی نے بطورانعام جنت اس کے قدموں میں رکھ دی۔ ہما رے پیارے نبی ﷺ نے باپ کی نسبت تین گنا زیادہ حقوق ماں کو عطا کردیے ۔
مسرت وشادمانی کے کسی لمحے میں ماں یاد آئے نہ آئے لیکن ہماری دکھ تکلیف ،مشکل ومصیبت کے وقت ہمیں سب سے پہلے ماں یاد آتی ہے اگر زندہ ہو تو اسے خود بھی الہام ہوجاتا ہے وہ بے چین ہوجاتی ہے اسے کسی پل قرار نہیں آتا ،ماں کو قدرت نے نجانے کون سی کیمسٹری سے بنایا ہے کہ وہ زندگی اپنی گزارتی ہے مگر عمر کی تمام سانسیں اپنے بچوں میں پیار منتقل کرتی رہتی ہے اس کا سونا ،جا گنا،کھانا پینا ،اٹھنا بیٹھنا سب اولاد کے لیے ہوتا ہے وقت گزرنے کا ساتھ اپنی اولادکے لیے اپنی چاہتیں،محبتیں او روقت سب قربان کرتی ہے اپنے ہر عمل سے اپنی محبت کا اظہارکرتی ہے یہ تمام جذبے ہر ماں میں موجود ہے۔
آج ان ماؤں کو خراج تحسین پیش کرنے کو جی چاہتا ہے جنھوں نے اپنے بچوں کی بہترین پرورش ،تعلیم وتربیت پر اپنا تن من دھن وار کر انھیں اس مقام پر پہنچایا کہ وہ اپنے ملک وقوم کے لیے باعث فخر ہوگئے، ہمیں ''بی اماں ''جیسی ماؤں کی ضرورت ہے ،جو مولانا محمد علی جوہروشوکت علی جیسے بہادر فرزند قوم کو دیں ،علامہ اقبال کی ''بے جی'' جیسی ماں کی چاہت وتربیت چاہیے جو وطن عزیزکو لعل وگہر دے سکیں۔ قائد اعظم جیسی ذی وقار،نڈر اپنے فیصلے پر ثابت قدم رہنے والا لیڈرعطا کرسکیں ایسی بصیرت افروز ماؤں کی جتنی ضرورت موجودہ دور میں ہے اتنی کسی دور میں نہیں تھی ۔
ہمارے آج کے سماج میں ماؤں کی ترجیحات اور سوچ یکسر تبدیل ہو چکی ہے وہ یہ سوچتی ہیں کہ گھرداری اور بچوں کی تربیت میں وقت گنوا کر اپنی شخصیت تباہ کر رہی ہیں انھیں وہ تمام باتیں دقیانوسی لگتی ہیں، جب مائیں بچوں کو بڑوں کا احترام ،چھوٹوں سے شفقت، تاریخ کی عظیم شخصیات کے قصے،دین کی خوبیاں،جھوٹ سچ کا فرق اور بے ایمانی سے بچنے کی ترغیب دیا کرتی تھیں مگر اب ہم دیکھتے ہیں ،ہماری اقدار ہی کھوتی جا رہی ہیں ، ہمارا کھانا پینا، رہنا سہنا، پسند و نا پسند سب تبدیل ہورہا ہے ماؤں کے نزدیک یہ جنک فوڈ، موبائل فون ،انٹرنیٹ اورکیبل کا زمانہ ہے، نئے زمانے کی رفتار بہت تیز سہی لیکن وہ یہ بھول گئیں کہ اس فاسٹ دورکی لگامیں آج بھی قانون قدرت کے ہاتھوں میں ہے۔
ماہ وسال میں کوئی فرق نہیں ہوا دن آج بھی چوبیس گھنٹوں کا ہے سورج اب بھی مشرق سے نکلتا ہے مغرب میں غروب ہو تا ہے زندگی کی گزرتی سانسوں کا اختیار اب بھی قدرت کے اختیار میں ہے۔ ہم اس کے آگے روز اول کی طرح بے بس ہیں تو پھر ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ بچوں کی تربیت ماں کے بجائے کیبل ،انٹرنیٹ اورکوچنگ سینٹرزکے ذریعے ہو ماں کی گود بہترین تربیت گاہ ہے، یہ اصول اٹل ہے ہمارے مشاہدے میں یہ بات اکثر آتی ہے کہ جس گھر میں مائیں اپنے بچوں پر خصوصی توجہ دیتی ہیں، ان کے ہوم ورک سے لے کر دوستوں تک کی تمام باتوں کی خبر رکھتی ہیں ان کی قدم قدم پر رہنمائی کرتی ہیں وہ بچے زیادہ خود اعتماد اور کامیاب ہوتے ہیں لیکن افسوس کہ ایسے مثالی خاندان میں کمی واقع ہوتی جا رہی ہے۔
خرابی کی یہی جڑ ہے کہ ابلاغ کا عمل ختم ہوتا جارہا ہے اکثر مائیں اولاد کی سرگرمیوں سے بے خبر بے فکر رہتی ہیں انھیں معلوم ہی نہیں ہوتا بچہ کن دوستوں میں اٹھتا بیٹھتا ہے شغل کے طور پر کرنے والے چھوٹے چھوٹے جرم کب ایک بڑے مجرم کو جنم دیتے ہیں جس کی وجہ سے معاشرے میں برائیاں ، چوری ، اسٹریٹ کرائمز،چھینا جھپٹی، ماردھاڑ کی برائیاں تیزی سے پھیلتی جا رہی ہیں ۔
آج ہمارے ملک کو اچھے سیاست داں اور لیڈروں کی نہیں اچھی ماؤں کی ضرورت ہے جو اس ملک کی آیندہ آنے والی نسلوں کو بہترین تعلیم و تربیت دے سکیں۔ نپولین بونا پارٹ نے کہا تھا کہ '' تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمھیں بہترین قوم دوں گا '' ۔ اس گزرے مدرز ڈے پر تمام ماؤں کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ ان کے آنگن کے پھول قوم کا مستقبل ہیں، انھیں خصوصی توجہ وتربیت کی اشد ضرورت ہے جس طرح ماں بننا ایک نئی زندگی جنم دینا، اللہ تعالیٰ کا انعام ہے اسی طرح اولاد کی پرورش و تربیت بھی ماں کے لیے ایک امتحان ہے۔