بیاد پروفیسر عبدالحمید کمالی

پروفیسر اے ایچ کمالی اترپردیش (یوپی) کے شہر بجنور میں پیدا ہوئے



پروفیسر اے ایچ کمالی اترپردیش (یوپی) کے شہر بجنور میں پیدا ہوئے۔ کمالی صاحب نے ابتدائی، ثانوی، میٹرک (سٹی کالج) اور انٹر (چادرگھاٹ کالج، حیدر آباد دکن) سے کیا۔ آپ نے جامعہ عثمانیہ سے گریجویشن اور جامعہ کراچی سے درجہ اول میں ایم اے (فلسفہ) کی سند حاصل کی۔

تعلیم سے فراغت کے بعد آپ بہ حیثیت استاد نفسیات اور اخلاقیات اردو کالج سے وابستہ ہوئے اور کچھ عرصے بعد آپ ایس ایم کالج چلے گئے یہاں آپ صدر شعبہ فلسفہ و نفسیات کے عہدے پر فائز رہے۔ ڈاکٹر کمالی فلسفہ اور نفسیات شعبہ تصنیف و تالیف و ترجمہ، جامعہ کراچی کے کمیٹی ممبر تھے۔ آپ صدر ابن خلدون ایجوکیشنل سوسائٹی اور سٹی کالج کی گورننگ باڈی کے ایگزیکٹو ممبر بھی رہے۔ پروفیسر کمالی نے متعدد ملی اور غیر ملکی سیمینارز سمپوزیمز میں ملک پاکستان کی نمایندگی کی اور مقالات بھی پیش کیے۔

اقوام متحدہ کے فنی امدادی پروگرام (یو این ٹیکنیکل اسٹین پروگرام) کے ساتھ بھی انھوں نے بہت کام کیا۔ پاکستان کی ابتدائی ترقیاتی منصوبے کے شعبہ سماجی بہبود کی منصوبہ سازی میں پروفیسر کمالی نے حصہ لیا جس کا اعتراف بھی کیا گیا۔ 1954ء میں جب پروفیسر شریف نے پاکستان فلاسوفیکل کانگریس کی بنیاد رکھی تو کمالی صاحب شروع ہی سے اس کے اہم اراکین میں شامل تھے۔

1961ء میں ''مسلم ورلڈ۔ نیویارک'' نے پاکستان میں فلسفیانہ سرگرمی کے عنوان سے ایک باقاعدہ علیحدہ انگریزی ضمیمہ شایع کیا یہ ڈی اسمٹ کی تصنیف تھی۔1962ء میں پاکستان فلاسوفیکل کانگریس نے اس ضمیمہ کو کتاب کی شکل میں علیحدہ شایع کیا اس میں ڈاکٹر کمالی کے کام کو سب سے زیادہ نمایاں، فکر انگیز اور موثر قرار دیا گیا۔ آپ کا انگریزی مقالہ ''دوسرے اذہان کا علم'' پر ڈی اسمٹ نے تبصرہ کے بجائے خود کئی صفحات پر مشتمل اس مقالے کی تلخیص کی اور اس کو بہت ہی زیادہ نادر اور فکر انگیز کام قرار دیا۔آپ اقبال اکادمی پاکستان کے ڈائریکٹر بھی رہے آپ اکادمی کے تحقیق سہ ماہی مجلے ''اقبال ریویو'' کے مدیر بھی رہے آپ نے شروع ہی سے اس رسالے کے لیے کئی مسلسل مضامین و مقالات لکھے۔

آپ نے اقبال اکادمی کی گورننگ باڈی کی ایما پر اقبال پر پانچ خطبات دیے اردو لیکچر ''اقبال ریویو'' میں اور انگریزی لیکچر ''اسرار و رموز'' کے تعقلاتی ماڈل پر شایع ہوئے بعد میں انھوں نے انگریزی سلسلہ ''سماجی تجربہ اور عمرانی ہستیوں'' پر لکھا اور مختلف عمرانی علوم کے بنیادی مقولات پر کام اقبال ریویو میں شایع کیا۔ مئی 1973ء میں کمالی صاحب نے حضرت ابراہیمؑ کے زمانے سے لے کر اب تک اسلام کے ارتقا کا مختلف حوالوں سے جائزہ لیا اس مطالعے نے ان کی فکر کی گرہیں کھول دیں ان کی تحریروں میں علوم دینی کا مطالعہ اور تفکر پورے طور پر عیاں ہے۔

کمالی صاحب اپنے تفکر میں قاموسی جامعیت رکھتے ہیں وہ معاملے کی جزئیات کو سمجھتے ہوئے حقیقت کو اس کے کلی تناظر میں سمجھتے اور پیش کرتے ہیں ان کا وسیع علم اور منطقی استدلال اس قدر محکم اور دل نشیں ہوتا کہ قاری ان کی علمی بصیرت کا معترف اور قدردان ہو جاتا آپ نے اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں فکر اقبال پر متعدد اہم مقالات رقم کیے، بزم اقبال کے رسالے ''اقبال'' میں پروفیسر شریف کے زمانے سے کمالی صاحب مضامین لکھتے چلے آ رہے ہیں۔

جن میں سب سے زیادہ شہرت "Res Historicus" کو حاصل ہوئی۔ 1969ء میں کمالی صاحب کے مضمون کو جس کا عنوان "Iqbal's Spiritual and Social Democracy" ہے ہارورڈ یونیورسٹی کے شعبہ اورینٹل اسٹڈیز کے میگزین میں بڑی تحسین کے ساتھ شایع کیا گیا۔ 1965ء میں پروفیسر شریف کی رحلت پر ان کی علمی فکری خدمات کے اعزاز میں ''جہان فلسفہ'' کتاب مرتب کی گئی جس میں کمالی صاحب کے مضمون "Time Consciousness and Historical Mind" کو شامل کیا گیا جس کی بڑی پذیرائی کی گئی۔

سہ ماہی مجلہ اقبال نے علامہ اقبال کے 145 ویں سال ولادت کے موقعے پر خصوصی شمارہ ''اقبال نمبر'' نکالا جس میں پروفیسر کمالی کے طویل مقالے کو جس کا عنوان ''اسلامک بیک گراؤنڈ آف اقبالز تھاٹ'' ہے دو شماروں میں دوبارہ شایع کیا گیا ہے جیسے ادارے نے ''علامہ محمد اقبال۔ اے فلاسفر پویٹ آف اسلام'' کے نام سے کتابی شکل اکتوبر 2002ء میں دی اس کتاب کے آغاز میں ناظم بزم اقبال نے آپ کو ''مشرق کے فلسفی'' کا خطاب دیا۔

اس سے پہلے یہ مقالہ حفیظ ملک کے انٹرنیشنل سمپوزیم نیویارک (یوایس اے) جو 1971ء میں منعقد ہوا اس میں پڑھا گیا، اس کے بین الاقوامی حوالے بھی موجود ہیں۔ بیدل کے نظریہ فکر کو جس طرح ڈاکٹر کمالی نے پیش کیا، اس کو عالمی علمی دنیا میں بہت سراہا گیا اس مقالے کی اشاعت کولمبیا یونیورسٹی پریس سے ہوئی۔ 1977ء میں آپ کی معرکۃ الآرا تصنیف ''دی نیچر آف اسلامک اسٹیٹ'' جو نیشنل بک فاؤنڈیشن سے شایع ہوئی نے بڑی دھوم مچا دی۔ ''ابن تیمیہ کا سیاسی فلسفہ'' کے عنوان سے جامعہ نیبراسکا (یو۔ایس۔اے) سے ایک کتاب شایع ہوئی جس میں بڑے پیمانے پر آپ کی تصنیف ''دی نیچرآف اسلامک اسٹیٹ'' کا حوالہ دیا گیا۔

1979-83ء میں آپ کے مضامین کا مسلسل سلسلہ مذہبی شعور، تہذیب و تمدن کے تحت مختلف عنوانات سے خلیج ٹائمز دبئی میں شایع ہوتا رہا ان کا عربی ترجمہ بھی ہوا جو بڑے پیمانے پر متحدہ عرب امارات کے جرنلز میں بھی شایع ہوا۔ روزنامہ حریت کے ہفتہ وار سنڈے میگزین میں 1977-83ء تک "Morphology of Muslim Consciousness of our Times" مذہب اور کلچر کے عنوانات سے آپ نے مختلف مضامین لکھے۔ ان میں بہت سے مضامین ماہناموں اور سہ ماہی رسالوں میں پاکستان اور انڈیا میں دوبارہ شامل اشاعت ہوئے۔

یہ مضامین دنیائے فلسفہ میں اتنے پسند کیے گئے کہ آج بھی فلسفے کے شائقین کے پاس محفوظ ہیں۔ پاکستان اکانومسٹ نے 1979-80ء کی کئی اقساط میں ''نیچر آف ربوا اینڈ فنانس'' کے عنوان سے آپ کے مقالے شایع کیے۔ روزنامہ ڈان نے اپنے میگزین میں اس کی خصوصی اشاعت کی۔ اردو میں اسی قسم کا سلسلہ پروفیسر کمالی نے فوراً بعد ہی بالاقساط ''حریت'' کے میگزین میں شایع کروایا۔

1984ء میں پاکستان اکانومسٹ سے شایع ہونے والے آپ کے مضمون Monograph on the Law of Necessity and its limitations کو بہت شہرت حاصل ہوئی ''ایریل'' نے روزنامہ ڈان میں اس پر تبصرہ کیا۔

ڈاکٹر محمد علی صدیقی نے 1979ء میں ''کروچے کی سرگزشت'' کے عنوان سے کروچے کی مختصر سوانح حیات کا ترجمہ کیا جس کا طویل مقدمہ کمالی صاحب نے لکھا۔ اس مقدمے کو عالمی شہرت حاصل ہوئی یہ کتاب لکھنو۔ انڈیا سے دوبارہ 1985ء میں شایع ہوئی۔سہ ماہی مجلہ ''اقبال قائد اعظم نمبر'' جو کہ قائد اعظم کی 145 ویں سالگرہ کے موقع پر خصوصی اشاعت کے طور پر نکالا گیا اس میں کمالی صاحب کا طویل ترین تاریخی مضمون ''اقلیم ہند: برٹش امپیریلزم کے اہداف (ماضی، حال اور مستقبل کے آئینے میں) شایع ہوا، زماں و مکاں کے موضوع پر آپ کی انگریزی تصنیف ''اسپیس' ٹائم اور آرڈرس آپروفیسر ڈاکٹر عبدالحفیظ (صدر شعبہ فلسفہ، جامعہ پنجاب) نے اپنے انگریزی مقالے میں کمالی صاحب کے نقطہ نظر کا مغربی فلسفی سے موازنہ کیا ہے جس کا عنوان ہے:

"H.A Wolfson and A.H Kamali on the Origin of the Problem of Divine Attributes in Muslim Kalam"

یہ مضمون اقبال اکادمی کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہے۔ مختصر علالت کے بعد بروز ہفتہ 02 مئی 2015ء بمطابق 12 رجب المرجب 1436ھ کو آپ اذان فجر کے قریب دنیا سے رخصت ہو گئے۔''ایک شجر سایہ دار جس سے آج دنیا محروم ہو گئی۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں