ذہن کے جہنم سے نجات پائیں
وقت کے ساتھ ہر شعبے میں جدت آتی رہی ہے۔ جب ہم مسائل کو ری فریم کرتے ہیں۔
وقت کے ساتھ ہر شعبے میں جدت آتی رہی ہے۔ جب ہم مسائل کو ری فریم کرتے ہیں۔ انھیں سوچ کے نئے تناظر میں دیکھتے ہیں تو حل از خود مل جاتا ہے۔ کوئی بھی مسئلہ ہو، اگر اس کی جڑ تلاش کی جائے تو وہ سلجھ سکتا ہے۔ طبعی، ذہنی و روحانی پیچیدگیوں کا روٹ کاز دریافت ہونے کے بعد ان الجھنوں سے باہر نکلا جا سکتا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ میڈیکل سائنس نے سائیکو نیورو امیونولوجی کے نام سے ایک ایسا علم دریافت کیا جو دور جدید میں انسان کے لیے کارآمد ثابت ہوا ہے۔ گو کہ یہ علم ابھی اتنا زیادہ نہیں جانا جاتا مگر اس سلسلے میں مزید پیش رفت جاری ہے۔ اس علم کی بانی ڈاکٹر کینڈس ہرٹ کا کہنا ہے کہ ''انسان کا ذہن اس کے جسم کے ہر خلیے میں موجود ہے'' ذہن، نیورو ٹرانسمیٹرز کے توسط سے جسم کو پیغام پہنچاتا ہے۔
جنھیں Neuropeptides بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ساٹھ اقسام میں پائے جاتے ہیں اور اپنا الگ کام سر انجام دیتے ہیں۔ جس میں خوشی، غم، خوف، محبت، نفرت و غصے کے جذبات شامل ہیں۔ ان کے مختلف کام ہیں، جس میں ہارمونز کا اخراج، خلیوں کا بڑھنا یا گھٹنا، خلیوں کی کارکردگی میں کمی بیشی وغیرہ شامل ہے۔ مثال کے طور پر غصے یا خوف کی کیفیت میں انسانی خلیوں کی کارکردگی میں تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ لیکن اظہار کے بعد یہ خلیے اپنی نارمل حالت میں واپس آ جاتے ہیں۔ لیکن اگر غم، غصے، نفرت یا تکلیف کا اظہار نہ کیا جائے تو خلیوں کا نارمل سطح پر واپس آنا ناممکن ہو جاتا ہے۔
لہٰذا جسم میں کیمیائی عمل کی بے قاعدگی بہت سی جان لیوا بیماریوں کا پیش خیمہ بنتی ہے۔ ہر منفی سوچ اور ذہنی عذاب کو اظہار کا موقع ملنا چاہیے۔ دل کی بات کہنی چاہیے۔ غصہ، غم، تفکر اور پریشانی کو باہر کا راستہ چاہیے۔ تا کہ ذہن کا حبس تحلیل ہو سکے۔ تمام تر شخصی پیچیدگیاں جلنے، کڑھنے اور تنگ نظری کی پیداوار ہیں۔
ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ دہرے معیار کی وجہ سے انسان دل کی بات دوسرے سے نہیں کہہ سکتا۔ نظریوں کا مخصوص فریم، دنیاداری، دکھاوا اور منافقت ذہنی عدم توازن کا باعث بنتے ہیں۔ بناوٹی خوشیاں اور بھرم قائم رکھنے کی کوشش، زندگی کے اردگرد بے یقینی کا جالا بنتی ہے۔ ہر انسان بھول بھلیوں میں بھٹکتا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سائیکو نیورو امیونولوجی کی ماہر ڈاکٹر کینڈس ہرٹ کا کہنا ہے کہ انسان کو ذہنی گھٹن سے بچنے کے لیے اظہار کے مختلف راستے تلاش کرنے چاہئیں۔ کیونکہ ذہن و جسم اکائی ہے۔ ذہن کا انتشار جسم کو تباہ کر کے رکھ دیتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ پیچیدہ ذہنی کیفیات کا وقت پر سدباب نہ کیا جائے تو یہ گمراہی معاشرتی ستون ہلا ڈالتی ہے۔ بے ایمانی سے لے کر مختلف جرائم تک ذہنی امراض پس پردہ پوشیدہ ہوتے ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ بچے والدین کے سامنے اپنی رائے کا اظہار نہیں کر سکتے۔ خاوند، بیوی کی بات سننے سے کتراتے ہیں، اساتذہ طلبا کی نفسیات نہیں سمجھ سکتے۔ ماتحت، حکام کے بے جا تسلط سے خائف رہتے ہیں اور کام کا معیار متاثر ہوتا ہے۔
تعلق، رشتوں اور واسطوں میں ربط باہمی کا فقدان نظر آتا ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ ہم دوسرے کی خواہش اور رائے کا احترام نہیں کرتے۔ نظریاتی اختلاف ہماری صفوں میں نفاق ڈال دیتے ہیں۔ حالانکہ اختلاف رائے ایک صحت مند رویہ ہے۔ مگر ہم فقط اپنے نقطہ نظر کو بہتر سمجھتے ہیں اور تنقید کے اصلاحی پہلو سے غیر واقف ہیں۔ تنقید کو زہر قاتل سمجھتے ہیں۔ دوسروں پر تنقید ہمارا پیدائشی حق ہے۔ لیکن کوئی ہماری خامی کی نشاندہی کرے تو کبھی اپنی غلطی تسلیم نہیں کریں گے۔ بلکہ ذاتیات اور دشمنی پر اتر آتے ہیں۔ اپنے حقوق کی ہر کوئی بات کرتا ہے مگر اپنے فرائض سے غفلت کی غلطی ماننے کو کوئی تیار نہیں ہوتا۔ اخلاقی قدریں قوم کے مزاج کا تعین کرتی ہیں۔
مگر ہم نے فقط بے قدری کا سلیقہ سیکھا ہے۔ معلوم نہیں کس نے سب سے پہلے نفاق کا بیج بویا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے عداوتوں کی فصل لہلہانے لگی۔ ہماری معاشرتی اقدار میں بے جا غصہ، سچ سے پہلو تہی، چیخ کے بات کرنا، منفی باتوں کو ہوا دینا، منافقت کو کامیابی اور بناوٹ کو اعلیٰ معیار سے منسوب کرنے کی روایتیں فروغ پاتی ہیں۔
آپ کسی کے ذہن میں جھوٹ کا بیج بو دیں، اس سے یقین چھین لیں، اسے غصہ کرنے کا انداز سکھا دیں، اسے خود رحمی کے جہنم میں جھونک دیں، مصلحت پسندی کا طوق اس کے گلے میں لٹکا دیں تو بدلے میں اس شخص کا مدافعتی نظام مکمل طور پر تباہ ہو جائے گا۔ اس کے جسم کے خلیے تباہ ہونے لگیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر کینڈس ہرٹ نے مناسب وقت پر دنیا کو منفی سوچ کے خطروں سے آگاہ کیا ہے۔ فقط مثبت سوچ، عفو و درگزر اور اعلیٰ ظرفی انسانی صحت کا دفاع کر سکتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ لوگ اکثر بیماری کے خوف اور اندر کی بے یقینی سے مر جاتے ہیں۔ جب کہ بہت سے لوگ مہلک بیماری سے لڑتے ہوئے زندگی کی طرف لوٹ آتے ہیں۔
دکھ ہمیشہ اظہار کا راستہ تلاش کرتے ہیں۔ غمگینی اور اضطراب فن و فکر کے سانچوں میں ڈھل جاتا ہے۔ دکھ، محرومی اور تکلیف کو برتنے کا سلیقہ ہے تو بہت کچھ بدل سکتا ہے۔ کوئی بھی تخلیقی عمل ہو چاہے آپ پودا لگائیں، باغ کے کونے میں بیٹھ کے سبزے کو سوچا جائے، لہروں کی موسیقی سنی جائے، گنگنائیں یا کوئی نظم لکھیں یہ عمل منفی سوچ کے راستے روک دے گا۔
تخلیقی سوچ دکھ، مایوسی اور ناکامی کے احساس پر حاوی ہونے کی طاقت رکھتی ہے۔ تخلیقی عمل اندھیروں سے باہر نکال لیتا ہے۔ کچھ اور نہیں تو اظہار کے راستے تلاش کیجیے۔ چاہے دل کا حال کاغذ پر اتار کر انھیں پھاڑتے رہیں۔ پھر ایک دن سوچ کا صحرا سرسبز نخلستان میں بدل جائے گا۔
تعمیری سوچ قدرت کا تحفہ ہے۔ جن کے پاس ایسی سوچ کا فقدان ہے وہ اس مثبت رویے کو اپنا سکتے ہیں۔ انھیں فقط ذہن کے جہنم سے لڑنے کا طریقہ سیکھنا پڑے گا۔ زندگی بہتے پانی کی روانی ہے، جہاں چیزیں تیزی سے بدلتی ہیں۔ زندگی ہلچل، دریافت اور اچھا احساس بانٹنے کا نام ہے۔ سکون فقط موت کے جمود میں ہے۔
کازان زاکیز کی قبر کا کتبہ ہر آنے جانے والے سے کہتا ہے ''اب مجھے کوئی خوف نہیں، کوئی خواہش نہیں۔ اب میں آزاد ہوں۔''