دھاندلی اور بے ضابطگی میں امتیاز
ٹریبونل نے منظم دھاندلی اور خواجہ سعد رفیق کی طرف سے انتخابی عمل میں کسی مداخلت کی تردید بھی کر دی ہے۔
لاہور:
لاہور کے حلقہ 125 کے ٹریبونل کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی کی جانب سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ منظم دھاندلی سے متعلق اُن کے الزامات درست ثابت ہو گئے ہیں، جب کہ ٹریبونل نے صرف انتظامی غلطیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے اِس حلقہ میں دوبارہ پولنگ کروانے کا حکم جاری کیا ہے۔ ٹریبونل نے منظم دھاندلی اور خواجہ سعد رفیق کی طرف سے انتخابی عمل میں کسی مداخلت کی تردید بھی کر دی ہے۔
جہاں تک انگوٹھے کے نشانات کی تصدیق کا تعلق ہے وہ ہم سب جانتے ہیں کہ الیکشن والے روز غیر تربیت یافتہ انتخابی عملہ کس طرح ووٹروں سے انگوٹھوں کے نشان لے رہا ہوتا ہے۔ کہیں مطلوبہ سیاہی دستیاب نہیں ہوتی اور کہیں ناسمجھ اور ناخواندہ لوگ واضح اور مقررہ طریقوں پر نشان صحیح جگہ لگا ہی نہیں رہے ہوتے ہیں۔ اگر اِس بنیاد پر ایک حلقے کا الیکشن مسترد کر دیا جائے تو پھر سارے پاکستان کا الیکشن ہی ناقابلِ قبول قرار دیا جا سکتا ہے۔
بلکہ پچھلے تمام الیکشن ہی مشکوک اور غیر معتبر ہو سکتے ہیں۔ اگر سابقہ تمام الیکشنوں کے تھیلے کھولے جائیں تو ایسی بے شمار بے ضابطگیاں وہاں بھی ملیں گی۔ ہمیں دھاندلی اور انتظامی بے ضابطگیوں میں فرق محسوس کرنا چاہیے۔ اگر ریٹرننگ آفیسرز اور پولنگ کے عملے کی جانب سے کچھ غلطیاں اور کوتاہیاں سرزد ہوئی ہیں تو اُس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ الیکشن میں کسی ایک فریق کو جتانے کے لیے پہلے سے کوئی پلاننگ یا منصوبہ بندی کی گئی تھی۔
خان صاحب اِس ایک حلقے کے فیصلے کو لے کر یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ اب سارے حلقوں کا فیصلہ اِسی طرح آئے گا اور جوڈیشل کمیشن بھی الیکشن 2013ء کو بوگس اور دھاندلی زدہ قرار دے دیگا۔ اُنہیں معلوم ہونا چاہیے کہ انگوٹھوں کی تصدیق کا عمل کوئی اتنا آسان اور سہل نہیں ہوتا۔ کئی مہینے ہو گئے ابھی تو حلقہ 122 کا فیصلہ بھی نہیں ہو پایا ہے۔ اگر سارے حلقوں کو کھول دیا جائے تو یہ مکمل ہوتے ہوتے دو سے تین سال لگ جائیں گے۔
ایک جانب اُنہوں نے جوڈیشل کمیشن کو اِس کا پابند بنایا ہوا ہے کہ الیکشن میں مبینہ دھاندلی کا فیصلہ 45 دنوں میں کیا جائے اور دوسری جانب ووٹوں کے سارے تھیلوں کو کھول کر اُس کی جانچ پڑتال کرنے کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔ جس کے بعد وہ یقینا انگوٹھوں کے نشانات کی نادرہ سے تصدیق کے لیے بھی کہیں گے۔ جو ہر ذی شعور بندہ جانتا ہے کہ سارے تھیلوں کو کھول کر، اُن کی جانچ پڑتال اور تمام انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کر کے فیصلہ صرف 45 دنوں میں سنانا کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ کوئی جن، جادوگر یا پھر کوئی مافوق الفطرت شخص ہی یہ کام صرف45 دنوں میں کر سکتا ہے۔ عام انسان نہیں کر سکتا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان جس طرح دھرنے والے دنوں میں میاں صاحب کی حکومت کو جاتا دیکھنے میں جذباتی حد تک پُر یقین اور پر اعتماد تھے اب جوڈیشل کمیشن کے متوقع فیصلے کو بھی اپنے حق میں جاتا دیکھنے میں بھی اُسی طرح پر اعتماد دکھائی دیتے ہیں۔ اِس ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کو خود فریبی نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے کہ وہ بدستور 2015ء کو نئے الیکشن کا سال قرار دینے پر مصر اور بضد ہیں۔ اِس وقت اُن کے علاوہ کوئی اور سیاسی رہنماء یہ حسین خواب دیکھنے کی حسرت اور خواہش بھی نہیں کر رہا ہے۔
خود خیبر پختون خوا میں اُن کی حلیف اور اتحادی جماعتِ اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق بھی سال 2015ء کو الیکشن کا سال کہنے سے انکاری ہیں۔ اب بھلا عمران خان کو کون سمجھائے کہ جنھیں گزشتہ برس کی ساری مشقِ سخن کے بعد بھی سیاست کا کوئی سبق ہنوز ازبر نہیں ہو پایا ہے۔ وہ مسلسل بچگانہ اور غیر ذمے دارانہ سیاست کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ گزشتہ الیکشن میں محدود سطح کی کامیابی کے سحر میں مبتلا ہو کر خود کو قبل از وقت وزیرِ اعظم تصور کر لینا اُنہی کا حسن کرشمہ ساز ہے۔
آزادی مارچ کا مشن لیے 12 ا گست2014ء کو لاہور سے چلتے ہیں اور وزیر ِاعظم کے استعفیٰ سے کم کسی چیز پر رضامند نہ ہونے کا غیر متزلزل اعلان بھی صادر فرما دیتے ہیں اور پھر سب نے دیکھا کہ وزیرِ اعظم سے استعفیٰ لینے کی بجائے خود استعفیٰ دے آتے ہیں۔ ایک دن سول نافرمانی کی تحریک شروع کرتے ہیں اور عوام کی طرف سے کوئی حوصلہ افزا رسپانس نہ ملنے پر چار و ناچار واپس لے لیتے ہیں۔ پھر کسی روز ببانگِ دہل بجلی اور گیس کے بل نذرِ آتش کرتے ہیں اور دوسرے دن بنی گالہ کی بجلی منقطع ہونے پر بلا تامل ادا بھی کر دیتے ہیں۔
پہلے جوڈیشل کمیشن بنائے جانے کے وزیرِ اعظم کے اعلان کو یکسر مسترد کر دیتے ہیں اور پھر تین ماہ بعد اُسی وزیرِ اعظم سے فوری جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کرنے لگتے ہیں۔ اسپیکر اسمبلی کو اپنے استعفوں کی منظوری کے لیے ہر روز دباؤ ڈالتے ہیں اور پھر اُسی اسپیکر کی ایک متنازع رولنگ کے تحت اسمبلی میں جا بیٹھے ہیں۔ خود اپنی پارٹی کے اندر بنائے گئے الیکشن ٹریبونل کو ایک روز توڑ دیتے ہیں اور اُس کے سربراہ جسٹس وجیہہ الدین کو عہدہ چھوڑ دینے کا فرمانِ امروز بھی جاری کر دیتے ہیں لیکن ہوش آنے اور طبیعت سنبھلنے کی بعد پر اِس حکم نامے کو واپس لے لیتے ہیں۔
ملکی سیاست میں اتنے یو ٹرن آج تک کسی اور سیاستداں نے نہیں لیے ہونگے جتنے عمران خان نے پچھلے چند مہینوں میں لے لیے ہیں۔ پھر بھی اُنہیں زعم اور ناز ہے کہ وہ اُصولوں کی سیاست کرتے ہیں۔ یہی بات اُنہیں جسٹس وجیہہ الدین نے بھی سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ وہ نیا پاکستان بنانے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں اور پُرانے پاکستان سے نکلنا بھی گوارہ نہیں۔
ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے اِس سلسلے میں بالکل درست فرمایا ہے کہ ارکانِ اسمبلی میں اتنی اخلاقی جرات ہونی چاہیے کہ جب استعفیٰ دے دیں تو پھر اُس پر قائم رہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عمران خان یا تو اُس اسمبلی میں جاتے ہی نہیں جسے وہ جعلی اور بوگس کہتے ہیں یا پھر اپنے سابقہ استدلال کو غلط اور نامناسب کہتے ہوئے قوم سے معذرت کر لیتے۔
لیکن وہ تو اپنے سابقہ موقف پر ڈٹے رہنے کو اپنی دلیری، بہادری اور اُصول پسندی سمجھتے ہیں، جعلی اور بوگس اسمبلی میں بھی جلوہ افروز ہونے کو دیدہ دلیری اور جرات مندی۔ قومی اسمبلی کی کارروائی کا حصہ بھی بننا چاہتے ہیں اور اُس کی بے عزتی اور بے توقیری بھی کرتے ہیں۔ اُن کی اِسی اُصول پسندی، ثابت قدمی اور راست گوئی کو دیکھتے ہوئے وفاقی وزیرِ دفاع خواجہ آصف علی نے جب اُنہیں ایک سبق آموز نصیحت کرنی چاہی تو موصوف بر ہم اور سیخ پا ہو گئے۔
دراصل خان صاحب اتنے بھولے اور معصوم سیاستدان ہیں کہ کسی کے اُکسانے پر کسی اور کی بچھائی گئی بساط پر گیم کا حصہ بن گئے اور غیرحقیقی اندازوں اور توقعات کے بل بوتے پر سر دھڑ کی بازی لگا بیٹھے۔ اپنی غیر متوقع اور اچانک حاصل ہو جانے والی عوامی حمایت اور پذیرائی کو فوراً ہی کیش کروانے نکل پڑے۔ چند گام سفر کرنے کے بعد پتہ چلا کہ سیاست کا یہ کھیل کوئی اتنا سہل اور آسان نہیں ہے۔ راتوں رات وزیرِ اعظم بن جانا کسی کسی کی قسمت میں لکھا ہوتا ہے۔ بیشتر کو تو یہ منزل بڑی جدوجہد اور سنگلاخ چٹانوں سے گزر کر ہی مل پاتی ہے۔
ملک بھر کے کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات نے جہاں 2013ء کی الیکشن میں مبینہ دھاندلی کے الزامات کی نفی کر دی ہے وہاں اِس تاثر کو بھی رد کر دیا ہے کہ تحریکِ انصاف اِس ملک کی سب سے بڑی واحد مقبول سیاسی پارٹی بن چکی ہے۔ عوام کی اکثریت اب بھی پاکستان مسلم لیگ (ن) کو ہی اپنی تائید و حمایت کا اہل گردانتی ہے۔ جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کا اعلان ابھی ہونا باقی ہے مگر عوام نے اُس سے قبل ہی اپنا واضح اور مدلل فیصلہ سنا دیا ہے۔
اِسی لیے بہت ممکن ہے کہ لاہور کے حلقہ 125 میں اگر دوبارہ پولنگ ہو بھی گئی تو نتیجہ شاید پہلے سے مختلف نہیں ہو گا۔ لاہور کے حلقہ 125 کے فیصلے سے تو ایک بات صاف اور واضح ہو گئی کہ الیکشن کمیشن اور الیکشن ٹربیونل پر حکومت کا کوئی دباؤ نہیں ہے۔ خان صاحب آج جوڈیشل کمیشن کی غیر جانبداری اور ایمانداری پر اپنے جس اعتماد اور بھروسے کا اظہار کر رہے ہیں، توقع کی جاتی ہے کہ اگر فیصلہ اُن کے حق میں نہ آیا تو بھی وہ اُس سے راہ فرار اختیار نہیں کریں گے اور جوڈیشل کمیشن پر حکومتی دباؤ کی فرضی کہانیاں نہیں دھر رہے ہوں گے۔