داستانیں شاہ زادوں کی

وہ کونسا جرم ہے جس میں اعلیٰ شخصیات کے شقفت تلے پرورش پاتے ان کے ’شاہ زادے‘ ملوث نہ ہوں۔


اویس حفیظ May 20, 2015
عجب المیہ ہے کہ اعلیٰ عہدیدار، اونچے کاروباری افراد اور ان کے شاہ زادے اپنے آپ کو ایک علیحدہ مخلوق تصور کرتے ہیں۔ فوٹو: فائل

قریب چھ ماہ قبل کی بات ہے کہ ایک رات ٹی وی دیکھتے ہوئے اچانک بریکنگ نیوز آئی کہ ایک سابق گورنر پنجاب کا بیٹا لاہور سے اغواء کرلیا گیا ہے۔ یکایک تمام چینلز پر یہ نیوز چلنے لگی۔ میں خبر دیکھتے ہوئے سوچ میں پڑ گیا کہ ابھی سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اورسابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے بیٹوں کا بھی کچھ علم نہیں ہوسکا تھا اور اب ایک اور اعلیٰ شخصیت کے بیٹے کو اغواء کرلیا گیا ہے۔

آخر یہ ملک میں ہو کیا رہا ہے؟ مگر تھوڑی دیر بعد ہی پولیس کی جانب سے کی جانے والی وضاحت بریکنگ نیوز کا حصہ بن گئی کہ ''کھر صاحب کے بیٹے کو اغوا نہیں کیا گیا بلکہ اسے پولیس نے ڈکیتی کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔'' ہائیں۔۔۔!!! ڈکیتی کے الزام میں گرفتاری، وہ بھی سابق گورنر کے صاحبزادے کی؟

میں نے ذہن کو جھٹکا اور دیگر کاموں میں مشغول ہوگیا، مگر پھر یاد آگیا کہ انہی سابق گورنر کے ایک اور ''شاہ زادے'' بھی قانونی پیچیدگیوں سے نبرد آزما ہیں اور ان پر قتل، زمینی تنازعات، انتخابی دھاندلیوں اور تیزاب پھینکنے جیسے سنگین الزامات ہیں۔ یہ صرف ایک سابق گورنر کا قصہ نہیں ہے۔ آپ ڈھونڈنے کی نیت کریں، ہر دوسرے دن اس طرح کا واقعہ خود آپ کو اپنے وجود کا احساس دلائے گا۔ اداکارہ سپنا قتل/گمشدگی کیس میں بھی ایک اعلیٰ شخصیت کے صاحبزادے او رسابق وزیراعلیٰ پنجاب کا نام آتا ہے۔ ایک اعلیٰ سیاسی شخصیت کی جانب سے ملازموں کے ساتھ روا رکھے جانے والا سلوک بھی سوشل میڈیا کے ذریعے گھر گھر پہنچ چکا ہے۔ ''مبینہ طور پر'' سابق وزیراعظم کی رشتہ دار خاتون کے ہاتھوں معمولی سے بات پر ملازم کا قتل بھی خبروں میں آچکا ہے۔

عجب المیہ ہے کہ اعلیٰ عہدیدار، اونچے کاروباری افراد اور ان کے شاہ زادے اپنے آپ کو ایک علیحدہ مخلوق تصور کرتے ہیں۔ اعلیٰ شخصیات تو اس ملک کے ساتھ جو کھیل کھیل رہی ہیں وہ تو ایک طرف، اُن شخصیات کے ''شاہ زادوں'' کے کرتوت بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔ میں تو انہیں ''کرتوت'' ہی کہوں گا مگر انہی حضرات کے ایک محرم راز نے یہ راز بھی افشا کیا تھا یہ شاہ زادے اپنے کرتوں کو کارناموں کے طور پر لیتے ہیں اور نجی محافل میں بڑے فخر سے بیان کرتے ہیں۔



آپ ڈھونڈنا شروع کیجئے۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ کی صاحبزادی کی بیکری ملازم کے ساتھ بدتمیزی اور بعد میں گارڈز کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنوانے کا واقعہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ کراچی میں ایک حاضر سروس ڈی ایس پی کے بیٹے ''شاہ زیب'' کو ایک اعلیٰ شخصیت کے صاحبزادے کی جانب سے قتل کرنے کا واقعہ بھی سبھی جانتے ہیں۔ بعد میں اس ''شاہ رخ جتوئی کیس'' کا کیا بنا وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی لاہور میں سابق وزیر مملکت کے شاہ زادے کے ہاتھوں سرراہ قتل ہونے والا لڑکا زین تھا۔ پہلے پہل تو مصطفی کانجو نے سو قسم کے عذر تراشے مگر بعد میں اعتراف کرلیا کہ ایسا صرف اشتعال میں ہوا اس کی نیت ہرگز قتل کی نہ تھی۔



ایک انتہائی نامور شخصیت اور بزنس ٹائیکون کے شاہ زادے کے ہاتھوں کار ریسنگ میں ''مبینہ طور پر'' ہلاک ہونے والے افراد کی خبر بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ کار ریسنگ میں ایک ایسی ہی ویڈیو کسی دور میں سوشل میڈیا پر بہت مقبول ہوئی تھی جس میں سندھ کی ایک اعلیٰ شخصیت کا شاہ زادہ سرکاری نمبر پلیٹ والی گاڑی پر ریس لگا رہا تھا۔ اس طرح کے واقعات کا تو ایک علیحدہ دفتر بنایا جا سکتا ہے مگر چند چیدہ چیدہ پیش خدمت ہیں۔

قریب 2 سال قبل ایک اعلیٰ شخصیت کا بیٹا، دو پولیس اہلکاروں اوراپنے ذاتی گارڈز کے ساتھ نہایت طمطراق سے ہیروئن خریدنے ''ترنول'' گیا، وہاں اس نے پچاس ہزار روپے کی ہیروئن خریدی، پولیس اہلکاروں کی منشیات فروشوں سے رقم کے معاملے پر تلخ کلامی ہو گئی، بات بڑھی تو گولی چل گئی، منشیات فروش کے ساتھیوں نے مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر پولیس اہلکاروں کو تو اینٹیں مار مار کر ہلاک کردیا مگر حسب روایت اعلیٰ شخصیت کا شاہ زادہ اور اس کے گارڈز وہاں سے فرار ہوگئے۔

ابھی چند روز قبل لاہور کے علاقے کلمہ چوک میں واپڈا کے اعلیٰ افسر کا شاہ زادہ گاڑی انتہائی زیادہ رفتار پر بھگا رہا تھا کہ بے قابو ہونے پر گاڑی نے سڑک کے کنارے پرموجود ایک خاتون سمیت 2 افراد کو کچل دیا، دونوں افراد موقع پر ہی دم توڑ گئے۔ تاہم یہاں پولیس نے بروقت کارروائی کی اور ''گاڑی کے ڈرائیور'' کو حراست میں لے کر مقدمہ درج کرلیا۔ اُمید ہے کہ اس کیس کا فیصلہ ''سلمان خان کیس'' کی طرح ہرگز نہیں ہوگا۔

یہ بھی چند روز قبل کا ہی قصہ ہے کہ لاہور میں شادمان کے علاقہ میں پولیس نے ایک اعلیٰ شخصیت کے شاہ زادے کی ہیوی بائیک کاغذات نہ ہونے کی بنا پر تھانے میں بند کی تو ایک کہرام مچ گیا، اس اعلیٰ شخصیت نے سخت برہمی کا اظہار کیا۔ اس معاملے کو ختم کرنے کیلئے سی سی پی او لاہور کو مداخلت کرنا پڑی اوراس اعلیٰ شخصیت کے دفتر میں دو گھنٹے تک جاری رہنے والی اس میٹنگ میں خاصی مشقت کے بعد یہ تصفیہ کیا گیا کہ موٹر سائیکل بند کرنے والے ذمہ داروں کے خلاف ''محکمانہ کارروائی'' کی جائے گی۔ اسی فیصلے پر جا کر اعلیٰ شخصیت نے ناراضی دور کی اس کے بعد ڈی آئی جی آپریشنز، ایس پی ماڈل ٹاؤن، ڈی ایس پی اچھرہ اور ایس ایچ او شادمان کے خلاف فوری طور پر انکوائری شروع کردی گئی۔

اریبہ قتل کیس تو سبھی کو یاد ہوگا جس میں ایک لڑکی کی نعش 12 فروری کی شیرا کوٹ بس اسٹینڈ کے قریب سے ایک صندوق میں پڑی ملی تھی، جسے پہلے پولیس کی جانب سے لاوارث قرار دیا گیا مگر بعد ازاں اس لڑکی شناخت ہوگئی اور مقتولہ کی ایک سہیلی سمیت 3 ملزمان کو حراست میں لے لیا گیا۔ اس کیس میں بھی ایک اعلیٰ سیاسی شخصیت کے شاہ زادے کے نام کی بازگشت گونجتی رہی مگر پولیس نے چپ سادھے رکھی مگر جب بات حد سے زیادہ بڑھنے لگی تو بالآخر تفتیشی افسر کو یہ کہنا پڑا کہ ''تمام مشتبہ افراد کو شامل تفتیش کریں گے، یہ بات فی الحال محض افواہ ہے کہ ایک اعلیٰ سیاسی شخصیت کا بیٹا قتل میں ملوث ہوسکتا ہے، ابھی ایسے کوئی شواہد نہیں ملے''۔ مگر سب جانتے ہیں کہ ؎
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے

ایک واقعہ لیگی ایم این اے روحیل اصغر کے شاہ زادے علی روحیل کے ساتھ پیش آیا جب موصوف ایک شادی کی تقریب میں شرکت کیلئے ایک نجی کلب پہنچے تو معمول کے مطابق سکیورٹی گارڈ نے تلاشی لینے کی کوشش کی جس پر وہ بڑھک اُٹھے اور گارڈز سے بدتمیزی کی۔ انتظامیہ نے فوری طور پر پولیس سے مدد لی جس پر مقدمہ درج ہوا اور 50 ہزار مچلکوں کے عوض ضمانت عمل میں آئی۔ اس سے قبل انہی ایم این اے صاحب کے بارے میں یہ خبریں گردش کرتی رہیں کہ انہوں نے قائمہ کمیٹی کے ایک اجلاس میں اپنی ہی پارٹی کے ایک ممبر کو وزیر اعظم کی موجودگی میں تھپڑ رسید کردیا مگر یہ خبر اب خبروں میں ہی کہیں دب کر رہ گئی۔

ایک محترم ایم این اے صاحب کے شاہ زادے نے تو بیرون ملک بھی پاکستان ہی سمجھ لیا تھا کہ قانون کے ساتھ لونڈی والا سلوک کیا مگر وہ دبئی تھا اور اسے دبئی ایئر پورٹ پر اس وقت دھر لیا گیا جب اس سے منشیات برآمد ہوئی۔ سیالکوٹ کے ان ایم این اے کے بیٹے کے خلاف دبئی کسٹم حکام نے مقدمہ درج کر کے تفتیش بھی شروع کر دی ۔

گزشتہ ماہ اسلام آباد پولیس نے لڑکیوں کو چھیڑنے والے ایک گروہ کو پکڑ کر جب تفتیش شروع کی تو علم ہوا کہ سب کے سب بااثر خاندانوں کے شاہ زادے ہیں۔ ایک رات یہ سب شاہ زادے ایک لڑکی کو سرراہ اغوا کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ ایک شہری کے شور مچانے پر ہوائی فائرنگ کرتے ہوئے فرار ہو گئے۔ وزیر داخلہ نے اس بات کا نوٹس لیا جس پر پولیس فعال ہوئی مگر مقامی لوگوں نے ان طاقتور لوگوں کے خوف سے ان کے خلاف زبان کھولنے سے انکار کردیا۔ ان سب کی غیرت پر ایک 14 سالہ لڑکے نے تھوکتے ہوئے اس گروہ کی نشاندہی کی جس پر پولیس ملزمان تک پہنچ پائی پھر یہ علم ہوا کہ گینگ امیر زادوں نے تفنن طبع کیلئے بنایا ہے کیونکہ ایک لڑکا ایک ایم این اے کا بیٹا، ایک اسسٹنٹ کمشنر کا بیٹا اور ایک سابقہ خاتون وفاقی وزیر کا بیٹا تھا جبکہ گینگ کے 4 دیگر لڑکوں کی گرفتاری عمل میں آنے کے بعد مزید انکشافات کی امید ہے۔

واقعات تو ابھی بھی بہت سے باقی ہیں مگر اب نہ تو قلم میں سکت ہے اور نہ ہی چراغوں میں روشنی۔ پنجابی کی ایک مشہور کہاوت ہے کہ
'' گرو جنہاں دے ٹپنے، چیلے جان شڑپ''

یعنی جو خود سیر ہوں ان کی اگلی نسلیں تو ضرور بالضرور سوا سیر ہوں گی۔ یہ بات تو عام مشاہدے کی ہے کہ ہمارے ہاں ہر دوسرا شخص لڑائی جھگڑے میں گفتگو کا آغاز ہی اس جملے سے کرتا ہے کہ ''تم مجھے جانتے نہیں کہ میں کون ہوں''۔ ہم میں سے ہر کوئی Somebody جبکہ سامنے والا محض Nobody ہے اور اس 'سم باڈی' اور 'نو باڈی' کی کشمکش میں محض قانون کے ساتھ کھلواڑ اور انصاف کے ساتھ مذاق ہورہا ہے۔

[poll id="423"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں