رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے
طالب علمی کے زمانے میں میرا رجحان بھی ترقی پسند شاعری کی طرف زیادہ تھا
طالب علمی کے زمانے میں میرا رجحان بھی ترقی پسند شاعری کی طرف زیادہ تھا اور اسی حوالے سے جہاں میں کیفی اعظمی، اختر الایمان اور ساحر لدھیانوی کا شیدائی تھا وہاں مجھے حبیب جالب کی شاعری نے بھی بڑا متاثر کیا تھا ان دنوں ساحر لدھیانوی کی ایک نظم کے بہت چرچے تھے:
اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
پھر جب حبیب جالب کی نظم:
تو کہ ناواقفِ آداب غلامی ہے ابھی
رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے
منظر عام پر آئی تو اس نظم نے ہر طرف اپنی دھوم مچا دی تھی، مجھے بھی اس نظم نے اپنا گرویدہ کرلیا تھا ، میری شاعری کا رخ بھی ترقی پسند شاعری کی طرف ہوگیا تھا اور میں بھی یونی ورسٹی کے زمانے میں اسی انداز کی نظمیں اور غزلیں کہنے لگا تھا، اسی دور کی ایک غزل کے چند اشعار قارئین کی بھی نذر کرتا ہوں:
آج کا انساں کتنا گہرا ڈوب چلا اندھیاروں میں
کیا رکھا ہے عظمت کے ان مصنوعی میناروں میں
اے مخمل پر چلنے والو بھولے سے یہ سوچ سکو
شور ہے کیسا بے چینی کا دنیا کے ناداروں میں
آج کسی کی سسک سسک کر مر جانے کی باری تھی
دھوم مچے گی بیچارے کی کل سارے اخباروں میں
حبیب جالب کی شاعری ان دنوں میری شاعری کو بھی بڑی جلا بخش رہی تھی۔ ایک دن مجھے پتہ چلا کہ حبیب جالب کراچی پریس کلب کے مشاعرے میں آرہے ہیں۔ اس رات میں بھی سرشام ہی سے پریس کلب پہنچ گیا تھا اور بے چینی کے ساتھ مشاعرے کے آغاز کا انتظار کر رہا تھا جب مشاعرے میں حبیب جالب اسٹیج پر آئے تو لوگوں نے بے تحاشا تالیوں سے ان کا استقبال کیا، پھر جب انھوں نے اپنا کلام سنانا شروع کیا ، وہ اپنی شاعری سے ایوان حکومت کی دیواریں ہلا رہے تھے، ان ہی دنوں ان کی شعلہ بار نظم منظر عام پر آئی تھی، اور 1962ء کے دستور کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے کہا تھا:
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا میں نہیں مانتا
حبیب جالب کی مذکورہ نظم نے سارے ملک میں ایک آگ لگا دی تھی پھر آئے دن وہ اپنی مزاحمتی شاعری کی وجہ سے جیل جاتے رہے۔ اب میں حبیب جالب کی شخصیت کی طرف آتا ہوں۔ حبیب جالب کا گھریلو نام حبیب احمد تھا اور ان کے والد محترم کا نام صوفی عنایت اللہ تھا جو پنجابی زبان کے مشہور شاعر تھے۔ پنجابی ادب پر انھیں بڑا عبور حاصل تھا۔ حبیب جالب کے بڑے بھائی مشتاق مبارک بھی اردو میں عمدہ شاعری کرتے تھے اور وہ دہلی میں ایک سرکاری ملازم تھے۔ اس طرح حبیب جالب کو شاعری کا ذوق و شوق اپنے گھر ہی سے ملا تھا۔
حبیب جالب نے شعر و شاعری کا آغاز دہلی ہی سے کیا تھا۔ پھر ان کا خاندان ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آیا تو پہلے لاہور پھر کراچی میں بھی رہائش اختیار کی، کراچی میں حبیب جالب کے بڑے بھائی مشتاق مبارک سے استاد امراؤ بندوخان کے گھر میں منعقد ہونے والی موسیقی کی محفلوں میں اکثر ملاقات ہوتی تھی۔ مشتاق مبارک کو کلاسیکی موسیقی سننے کا بھی بہت شوق تھا اور برصغیر کے نام ور سارنگی نواز استاد بندو خان کے بیٹے کلاسیکل سنگر اور مشہور غزل گائیک استاد امراؤ بندو خان سے ان کی بڑی بے تکلف دوستی تھی۔
اب میں حبیب جالب کی فلمی شاعری کی طرف آتا ہوں۔حبیب جالب لاہور میں تھے تو مشہور ترقی پسند رائٹر ریاض شاہد سے ان کی دوستی ہوگئی تھی۔ ریاض شاہد بھی حبیب جالب کی ترقی پسند شاعری کے مداح تھے۔ ریاض شاہد نے جب اپنی فلم ''زرقا'' بنانے کا اعلان کیا اور اداکارہ نیلو کو فلم کی ہیروئن کاسٹ کیا تو فلم کے نغمات لکھنے کے لیے حبیب جالب کا انتخاب کیا۔ یہاں میں یہ بات بتاتا چلوں کہ فلم ''زرقا'' بحیثیت فلمی نغمہ نگار حبیب جالب کی پہلی فلم نہیں تھی۔
جالب جب کراچی میں تھے تو انھوں نے جس فلم کے لیے پہلی بار گیت لکھے تھے وہ کراچی میں بنائی گئی فلم ''مس 56 ''تھی جس میں بمبئی میں اپنے وقت کی نامور اداکارہ اور ہدایت کار روپ کے شوری کی بیوی مینا شوری تھی جو بمبئی فلم انڈسٹری میں لارا لپا گرل کے نام سے مشہور تھی اور اس کے ہیرو چارلی تھے مگر ''مس 56'' بری طرح فلاپ ہوگئی تھی اور حبیب جالب فلمی دنیا سے بد دل ہوگئے تھے مگر جب ان کے دوست ریاض شاہد نے لاہور میں انھیں اپنی فلم ''زرقا'' کے لیے گیت لکھنے کے لیے کہا تو وہ انکار نہ کرسکے، ویسے تو ''زرقا'' کے سارے ہی گیت بہت اچھے تھے لیکن ایک گیت نے تو سارے ملک میں ایک تہلکہ مچادیا تھا جس کے بول تھے:
تو کہ ناواقف آداب غلامی ہے ابھی
رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے
اس گیت کو مہدی حسن کی جادو بھری آواز نے اور بھی زیادہ جاندار بنا دیا تھا، رشید عطرے کی موسیقی نے اس گیت کے حسن کو دوبالا کردیا تھا، یہ گیت کیا تھا آمرانہ ذہنیت رکھنے والے حکمرانوں کے لیے ایک تازیانہ تھا، اداکارہ نیلو نے اس گیت میں اپنی اداکاری سے مزید جان ڈال دی تھی، اس فلم کے دوران نیلو فلمساز ہدایت و مصنف ریاض شاہد کی زندگی کا حصہ بن چکی تھی ''زرقا'' میں حبیب جالب کی شاعری کا جادو سر چڑھ کر بولا تھا۔ پھر جب ریاض شاہد نے اپنی فلم ''یہ امن'' کا آغاز کیا تو ایک بار پھر جالب ہی کے لکھے ہوئے لازوال گیت منظر عام پر آئے اور ایک گیت نے مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیے تھے، جس کی سوچ بھی بین الاقوامی تھی:
ظلم رہے اور امن بھی ہو' کیا ممکن ہے تم ہی کہو
کشمیر کی وادی پر بنائی گئی اس فلم کے جتنے بھی گیت تھے حبیب جالب کے ان گیتوں کا رنگ ہی جدا تھا۔اور ان گیتوں کو بھی عوامی حلقوں میں بڑی پذیرائی حاصل ہوئی تھی، اب حبیب جالب کو فلمسازوں کی نہیں بلکہ فلمسازوں کو حبیب جالب کی ضرورت تھی۔ حبیب جالب جب بھی فلمی دنیا سے دور ہونا چاہتے فلمساز انھیں پھر سے فلمی دنیا میں لے آتے اور یہ سلسلہ چلتا رہا اس دوران حبیب جالب نے کافی فلموں میں گیت لکھے اور بڑے نامور فلمسازوں و ہدایت کاروں نے حبیب جالب کی خدمات حاصل کیں ان کی چند مشہور فلموں میں سماج، ناگ منی،سیما، ماں بہو اور بیٹا، جوکر، بھروسہ، زخمی، ساز و آواز، دو راستے، نیا زمانہ، انسان اور خاموش رہو وغیرہ شامل ہیں۔
حبیب جالب کے گیتوں کی اگر ایک خوبی ان کی انقلابی شاعری تھی تو ان کی دوسری خوبصورتی فلمی گیتوں کی نغمگی کی بھی تھی یوں لگتا تھا کہ ان کے گیت آپس میں خود گنگنا رہے ہوں۔ یہ حبیب جالب کے ترنم کا بھی طفیل تھا ان کا دلکش ترنم لوگوں کے دلوں کو موہ لیتا تھا۔ حبیب جالب نے اپنے گیتوں میں انسانی بے بسی اور سماج کی بے حسی کو بڑے جاندار اشعار کے ساتھ اجاگر کیا تھا اور فلموں کے لیے جو چند غزلیں لکھیں ان کا بھی جواب نہیں تھا جیسے:
یہ اعجاز ہے حسن آوارگی کا
جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے
ایک ہمیں آوارہ کہنا کوئی بڑا الزام نہیں
یہ غزلیں تو سدابہار ہیں۔ جب بھی سنو ایک نیا لطف دیتی ہیں ان کے چند مشہور گیت بھی نذرقارئین ہیں جو عوامی پسندیدگی کی سند ہیں:
خدارا خدارا محبت نہ کرنا
دے گا نہ کوئی سہارا
من تو پہ واروں' تن تو پہ واروں
آج اس شہر میں کل نئے شہر میں
من میں اٹھی نئی ترنگ
جاگنے والو جاگو مگر خاموش رہو
یہ رات مختصر مری جاں غم نہ کر
اس درد کی دنیا سے گزر کیوں نہیں جاتے
حبیب جالب نے فلمی دنیا سے وابستہ ہوکر بھی کوئی دولت حاصل نہ کی۔ وہ کامیاب اور سپرہٹ گیت لکھنے کے باوجود بھی زیادہ تر تہی دست ہی رہے۔ جیسے جیسے حبیب جالب عوامی شاعری کرتے تھے ویسے ویسے جھوٹے نظام کے لوگ خودغرض حکمراں اور آمریت کے پروردہ افراد انھیں گاہے گاہے پابند سلاسل کرتے رہتے تھے۔ ایک شاعر مزاحمت کرتے کرتے تھکنے لگا تھا بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ حبیب جالب کے اعصاب بھی کمزور ہوتے جا رہے تھے۔ بار بار جیل جانا ذہن کو بھی متاثر کر رہا تھا اور جسم کو بھی، اور اس روش نے ان کی صحت کو متاثر کرنا شروع کردیا تھا۔ وہ بتدریج ضعیف و نزار ہوتے چلے گئے اور پھر شوگر کے موذی مرض کے ساتھ ساتھ کینسر کے مرض نے بھی انھیں زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہنے دیا۔
ایک خوش قسمتی یہ رہی کہ حبیب جالب کے چھوٹے بھائی سعید پرویز سے میری اچھی دوستی ہوگئی تھی۔ پھر میں کراچی سے امریکا آکر بس گیا، مگر میرے لیے یہ بھی بہت ہے کہ سعید پرویز کی نسبت سے مجھے حبیب جالب کی خوشبو بدستور ملتی رہی ہے۔