یہ موم بتیاں کیا کہتی ہیں
ایسی تصویر پہلے بھی نظروں سے گزرتی رہی تھی۔ اس مرتبہ ہم اسے دیکھ کر ٹھٹھکے۔
کل پرسوں کے ایک اخبار میں شایع ہونے والی ایک سوگ بھری تصویر۔ جِھلملاتی موم بتیاں قطار اندر قطار۔ ذیل میں ایک مختصر جملہ۔ دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بننے والے اسماعیلی مظلوموں کی یاد میں۔
ایسی تصویر پہلے بھی نظروں سے گزرتی رہی تھی۔ اس مرتبہ ہم اسے دیکھ کر ٹھٹھکے۔ شاید اس وجہ سے کہ ایک تصویر کے بعد بہت جلدی یہ دوسری تصویر اخبار کے صفحے پر نمودار ہوئی تھی۔ پچھلی تصویر ان دنوں شایع ہوئی تھی جب سبین محمود دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بنی تھیں۔ حیرت ہوئی کہ اچھا اتنی جلدی اس دوسری سوگ بھری تصویر کی نوبت آ گئی۔ تب ہم اگلے پچھلے دنوں کو تصور میں لائے۔ اور تب ہمیں احساس ہوا کہ کتنے دنوں سے یہی تصویر وقفے وقفے سے نمودار ہوتی رہی ہے۔ کبھی ایک اخبار میں کبھی کسی دوسرے اخبار میں اور اس طرح کہ تصویر کے ساتھ کوئی خبر نہیں ہوتی۔ بس تصویر چھپ جاتی ہے۔ تفصیل کی کیا ضرورت ہے۔ تصویر خود اپنے منہ سے بولتی ہے۔ شاید اس موقعہ پر تقریریں نہیں ہوتیں۔ خاموشی سے سوگ کی یہ رسم ادا ہوتی ہے۔ چپ چاپ سوگ منانے والے آتے ہیں۔ موم بتیاں روشن کرتے ہیں۔ تھوڑی دیر بیٹھتے ہیں۔ پھر ایک ایک کر کے رخصت ہو جاتے ہیں؎
یار سب جمع ہوئے رات کی تاریکی میں
کوئی رو کر تو کوئی بال بنا کر آیا
اور اب ہمیں خیال آیا کہ شاید پچھلے تھوڑے عرصے سے یہ تصویر جلدی جلدی اخباروں کے صفحے پر نمودار ہو رہی ہے۔ شاید دہشت گرد عجلت میں ہیں۔ جو فریضہ ان کے سپرد ہے وہ جلدی جلدی ادا کر کے ہماری آپ کی نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ پھر ہمیں یوں ہی ایک وسوسہ ہوا کہ کہیں یہ سلسلہ اتنا تیز نہ ہو جائے کہ بازار میں موم بتیاں مشکل سے دست یاب ہوں۔ کیا عجب ہے کہ ان کی قیمتیں چڑھ گئی ہوں۔ لیجیے احمد مشتاق ہی کا ایک اور مصرعہ یاد آ گیا
پھول مہنگے ہو گئے قبریں پرانی ہو گئیں
یہ بہت پہلے کا کہا ہوا مصرعہ ہے۔ اتنے عرصے میں پھولوں کی جگہ موم بتیوں نے لے لی ہے۔ اور اب صورت یہ ہے کہ ابھی قبر کی مٹی تازہ ہے کہ دوسری واردات ہو جاتی ہے۔ پھر نئی قبر پر نئی موم بتیاں۔ پچھلی قبر کتنی جلدی پرانی ہو جاتی ہے۔ موت اور اتنی ارزاں کہ ع
آج تم کل ہماری باری ہے
پہلے موت کا بازار اس طرح سے ان دنوں میں گرم ہوتا تھا جب کوئی وبا پھیلتی تھی۔ وہ وبائیں قدرت کی برہمی کا نتیجہ ہوتی تھیں۔ موت کی یہ گرم بازاری ظالم و جاہل انسانی مخلوق کی سفاکی کا کرشمہ ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ کسی بستی میں اگر کوئی قتل ہو جاتا تھا تو اسی بستی میں مہینوں اس قتل کی دہشت پھیلی رہتی تھی۔ لیجیے اس پر ہمیں تیس چالیس برس پہلے کی ایک اخباری رپورٹ یاد آ گئی۔ رپورٹ میں درج تھا کہ دور کے کسی ملک کے جنگل میں ایک قتل ہو گیا تھا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ اس جنگل کے پرندوں کا چہچہانا بند ہو گیا۔ کم و بیش دس سال تک اس جنگل سے کسی پرندے کی چہچہاہٹ سنائی نہیں دی۔ اب یہ یاد نہیں آ رہا کہ کونسا خوشگوار واقعہ ہوا کہ پرندوں نے پھر چہچہانا شروع کر دیا۔
گزرے زمانوں میں قتل کا بازار میدان جنگ میں گرم ہوا کرتا تھا۔ کوئی سفاک بھرے شہر میں ایسا کام کرتا تو اسے قہر خداوندی میں شمار کیا جاتا۔ نادر شاہ نے دلی شہر میں قتال کا بازار گرم کیا تھا۔ وہ سفاکی کی نادر مثال بن گیا۔ اقبال نے اس کا ذکر یوں کیا ہے ؎
نادر نے لوٹی دلی کی دولت
اک ضرب شمشیر افسانہ کوتاہ
مگر اب وہ زمانہ ہے کہ بھرے شہروں میں بم پھٹتے ہیں' خود کُش حملے ہوتے ہیں۔ شہر کے کسی گوشے میں پناہ نہیں ملتی۔ مسجدوں تک میں بم پھٹتے ہیں۔ خون بہتا ہے۔ مردوں سے گزر کر تخصیص کے ساتھ بچوں کو اور عورتوں کو ہدف بنایا جاتا ہے۔
اور ایک گروہ ایسا نمودار ہوا ہے جو صرف آباد بستیوں کو نشانہ نہیں بناتا۔ بلکہ قدیم زمانے کے ان ویرانوں کو جو کبھی شاد آباد شہر تھے اور اب صرف پرانی تہذیبوں کے کھنڈروں کو سنبھالے بیٹھے ہیں ان پر حملہ آور ہوتے ہیں اور قدیم تہذیبوں کے آثار کو مٹانے کے درپے ہوتے ہیں۔ یہ کام وہ عراق کے قدیم شہر بابل میں انجام دے چکے ہیں۔ تازہ خبر یہ ہے کہ شام میں ایک قدیم شہر پامیر ہے جو قدیم تہذیب کے آثار کو سنگھوائے بیٹھا ہے۔ اب اس شہر پر اس گروہ کے دانت ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ یہ شہر کسی وقت میں مختلف تہذیبی مرکزوں کا سنگم بنا ہوا تھا۔ اور اب وہاں کے آثار اس لحاظ سے اہمیت رکھتے ہیں کہ قدیم یونان' روم اور ایران کی تہذیبوں کا ملا جلا رنگ یہاں نظر آتا ہے۔ یہ گروہ اگر اس شہر میں داخل ہو گیا تو ان اثر آثار کو تہس نہس کر دے گا۔
یعنی یہ وہ زمانہ ہے جب دنیا ایک مرتبہ پھر اپنی ساری جدیدیت کے باوصف بربریت کے زمانے میں سانس لے رہی ہے۔ انسانی تہذیب کیا قدیم کیا جدید لرزہ براندام ہے کہ اس گروہ کا غلبہ ہوا تو تہذیب پر کیا گزرے گی۔ ہم ہمارے علوم و فنون۔ ساری انسانی وراثت بربریت کی زد میں ہے۔