پاکستانی عوام کی آخری امید

دہشت گردی کی وارداتوں میں بھی کمی آئی۔ امید تھی کہ چھوٹی موٹی وارداتوں کے علاوہ کوئی بڑا سانحہ نہیں ہو سکے گا۔


Zamrad Naqvi May 18, 2015
www.facebook.com/shah Naqvi

ابھی سانحہ پشاور کے کمسن بچوں کے زخم تازہ تھے کہ کراچی میں سانحہ صفورا ہو گیا۔ پچھلے برس 16 دسمبر کو سانحہ پشاور ہوا اور تقریباً 5 مہینے پورے ہونے پر 13 مئی کو کراچی سانحہ ہوگیا۔ سانحہ پشاور کے بعد دہشت گردوں کے خلاف سخت اقدامات لیے گئے۔ دہشت گردی کی وارداتوں میں بھی کمی آئی۔ امید تھی کہ چھوٹی موٹی وارداتوں کے علاوہ کوئی بڑا سانحہ نہیں ہو سکے گا۔ لیکن اس کے بعد سانحہ شکار پور بھی ہوا جس میں کثیر تعداد میں افراد جاں بحق و زخمی ہوئے۔

یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے لیکن حالیہ واردات تو کچھ اور کہہ رہی ہے کہ دہشت گردوں کو فوجی آپریشن کا نقصان تو ہوا ہے لیکن ان کی طاقت اب بھی محفوظ ہے۔ یہ دہشت گرد آسمان سے نازل نہیں ہوتے۔ یہیں کہیں اپنی کمین گاہوں میں چھپے ہوتے ہیں۔ جب ان کے آقاؤں کی طرف سے اشارہ ہوتا ہے چاہے یہ اندرونی ہوں یا بیرونی، یہ واردات کر کے واپس اپنی کمین گاہوں میں چھپ جاتے ہیں۔ باخبر لوگ بتاتے ہیں کہ ان دہشت گردوں کی پناہ گاہیں بھی جانی پہچانی ہیں لیکنان پر ہاتھ نہیں ڈالا جاتا'یہ عوام کی سمجھ سے بالا تر ہے۔

اس موقعہ پر ہمیں ہتھوڑا گروپ کو بھی یاد رکھنا چاہیے جس نے ضیا الحق دور میں متعدد غریب پاکستانیوں کو رات کی تاریکی میں سر پر ہتھوڑا مار کر قتل کیا اس کے بعد گرمیوں میں راتوں کو اجتماعی طور پر کھلی جگہوں پر سونے کا کلچر ختم ہو گیا۔ پاکستان میں دہشت گردی کا آغاز اس وقت سے یہی ہوا جب ہم امریکی سامراج کا آلہ کار بن کر امریکی جنگ لڑ رہے تھے۔ نہتے پاکستانی عوام کو خوفزدہ کرنے کے لیے یہ د ہشت گردی ضروری تھی تا کہ اس جنگ کے خلاف عوامی رد عمل نہ آ سکے اور افغانستان کی لڑائی ایجنڈے کے مطابق لڑی جا سکے۔

ہمارا اسٹرٹیجک محل وقوع پاکستان بنتے ہی ہمارے لیے مسائل کا باعث بن گیا۔ پاکستان بنتے ہی حقیقی سیاسی قیادت کا خاتمہ کر دیا گیا۔ اس کے بعد ہمیں ایسی آمریت اور سیاسی قیادت ملی جو اپنے معمولی سیاسی مفادات کی اسیر تھی۔ یہاں تک کہ انھوں نے اپنے اقتدار کی بقا کے لیے انتہا پسندوں سے بھی اتحاد کیا۔جس کی وجہ سے ملک میں رواداری کا کلچر بتدریج زوال پذیر ہونا شروع ہوا اور آج اس مقام پر ہے کہ کسی کو سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا کیا جائے۔

ہم مشرق وسطی کے پچھواڑے میں واقع ہیں۔ ہمارے مصائب کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ مشرقی پاکستان کا علیحدہ ہونا اور پاکستان کا ٹوٹنا اسی گریٹ گیم کا حصہ ہے۔ یہ پہلی بڑی دہشت گردی پاکستانی عوام کے ساتھ کی گئی اس کے بعد پے در پے ہم پہ مصیبتیں نازل ہوتی ہی گئیں۔ دنیا پر قبضہ کرنے کے لیے امریکی سامراج کے لیے ضروری تھا کہ بھٹو دور میں (اور اس سے پہلے) بلوچستان کی منتخب اسمبلی کا خاتمہ کر کے آپریشن کیا جائے۔ ادھر امریکا نے ہی افغانستان کے سردار داؤد کی حکومت کے خلاف سازشیںکر کے اسے راستے سے ہٹانے کی راہ ہموار کی۔ ادھر پاکستان میں اور خاص طور پر بلوچستان میں جمہوریت شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی کے لیے بھی خطرناک تھی کیونکہ اس صورت میں ایران کے بلوچ عوام بھی جمہوریت کا مطالبہ کرسکتے تھے۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے بعد طویل عرصہ تک ضیا الحق آمریت رہی۔ اس کے بعد جمہوریت کو مضبوط کرنے کے نام پر یکے بعد دیگرے تین سویلین حکومتوں کو لایا گیا پھر اس کے بعد طویل عرصے کے لیے مشرف آمریت۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ایک جمہوری سیٹ اپ ہے لیکن اصل طاقت کہیں اور ہے۔ اس وقت غیر جمہوری قوتیں جتنی طاقتور ہیں اس سے پہلے کبھی نہیں تھیں۔ادھربعض قوتوں کی سرپرستی مڈل ایسٹ کی بادشاہتیں کر رہی ہیں۔ اسی لیے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں پر ہاتھ ڈالنا آسان نہیں۔ مشرق وسطی کی بادشاہتوں کی بقا اسی میں ہے کہ پاکستان میں حقیقی جمہوری نظام استحکام نہ پکڑنے پائے۔

اس کے لیے پاکستان میں ترقی پسندی ماڈرن ازم کی جگہ نظریاتی پس ماندگی کو فروغ و استحکام دیا گیا اسی وجہ سے پاکستان میں ماضی میں جمہوریت پر برا وقت آتا رہا اور آیندہ بھی آتا رہے گا۔ نائن الیون کے بعد پاکستان میں موجودبعض طاقتور گروپوں نے پاکستان میں فسادات برپا کرنے کی بھی کوشش کی لیکن پاکستان کے عوام نے اپنے اتحاد سے اسے مکمل طور پر ناکام کر دیا لیکن یہ ابھی بھی چین سے نہیں بیٹھی ہوئیں۔ یہ ایک ایسا نیٹ ورک ہے جس کا مقابلہ کرنا آسان نہیں ۔ اب پاکستان میں دہشت گردی ختم ہو تو کیسے...؟ پاکستانی عوام خود ہی اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں... اب تو پاکستانی عوام کی آخری امید پاک فوج اور اس کے سپہ سالار راحیل شریف ہی ہیں۔

ا س وقت ملک میں دہشت گردوں کے خلاف زبردست مہم جاری ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس مہم کو ناکام بنانے کی درپردہ کوششیں بھی ہو رہی ہیں ۔آج پاکستان کے عوام کی بھاری اکثریت چاہتی ہے کہ اس ملک سے انتہا پسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ ہو جائے ۔اس سے پہلے ایسی سوچ موجود نہیں تھی ۔عوامی سطح پر ابہام موجود تھا یہی وجہ تھی کہ دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی نہیں ہو رہی تھی۔ اب بلاشبہ دہشت گرد بھی کارروائیاں کر رہے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انھیں بہت زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے اور آنے والے دنوں میں انھیں مزید نقصان پہنچے گا۔پاکستان اس وقت اہم فیز میں داخل ہو رہا ہے آنے والے دنوں میں حکومت کے لیے مشکلات بھی پیدا ہو سکتی ہیں۔

سیل فون:0346-4527997

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں