خوف کی ایک فضا ہے

محترمہ! بات تو آپ کی درست ہے مگر یہ ایک ذمے داری کا کام ہے۔


فاطمہ نقوی May 19, 2015
[email protected]

ایک قاری خاتون مجھے مشورہ دینا چاہ رہی تھیں جو میں اپنے تمام قارئین سے شیئر کررہی ہیں وہ کہتی ہیں ''میں کافی دن سے سوچ رہی تھی کہ آپ کو ایک مشورہ دوں کہ آپ اس کالم کے ذریعے بچھڑے ہوئے لوگ جوکہ دنیا کی بھیڑ میں گم ہوچکے ہیں، جن سے کوئی رابطہ نہیں ہے، کوئی فون نمبر کوئی ایڈریس نہیں، اگر ان کا تذکرہ اس کالم میں کردیا جائے اور پھر وہ لوگ آپس میں رابطہ کریں تو آپ ان کو ایڈریس وغیرہ یا فون نمبر دے دیں جن لوگوں نے آپ سے رابطہ کیا ہو۔

محترمہ! بات تو آپ کی درست ہے مگر یہ ایک ذمے داری کا کام ہے۔ ہاں یہ ہے کہ ان لوگوں تک پیغام ضرور پہنچایا جاسکتا ہے کیونکہ یاد ماضی عذاب ہے یا رب! جب کسی بچھڑے کی یاد دل میں چٹکیاں لیتی ہے تو ایک عجیب کیفیت پیدا ہوجاتی ہے اور دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن، مگر غم معاش اور حالات نے زندگی کو اتنا مصروف کردیا ہے کہ ایسے رات دن اب عنقا ہوگئے ہیں۔ سنتے ہیں کبھی وہ دور تھا کہ لوگ مل جل کر سکون کی زندگی گزارتے تھے مگر اب نہ وہ جذبے ہیں نہ ہی ذہنی حالت اس قابل ہے۔ خوف کی ایک فضا ہے جس نے سب کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا ہے کچھ پتہ نہیں کب کیا ہوجائے۔

نفسیاتی امراض میں اضافہ ہو رہا ہے گھر سے نکلتے وقت وصیت کا خیال آجاتا ہے کہ کیا معلوم واپس آنا نصیب ہوگا بھی یا نہیں۔ سانحہ صفورا گوٹھ نے تو غم و اندوہ کی وہ فضا قائم کردی ہے کہ جس سے ہر چیز سے دل اچاٹ ہوگیا ہے۔ کس طرح دن دیہاڑے لوگوں کو مارا گیا مگر قانون کے رکھوالے غفلت کی نیند سوتے رہے ، جیسے ہی وہ دہشت گرد اپنا کام ختم کرکے نکلے ہر طرف سے وہی بیان بازی اور کاروبار سیاست چمک اٹھا۔ سیاست دانوں کو ایک موقعہ پھر مل گیا ایک دوسرے پر الزام لگانے کا۔ مختلف سیاست دانوں، قانون کے رکھوالوں کے بیان اٹھاکر دیکھ لیں سب میں مماثلت نظر آئے گی۔

دہشت گردوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نپٹا جائے گا، کسی کو موقعہ نہیں دیں گے کہ وہ دہشت گردی کرے جیسے کہ دہشت گرد درخواست بھیج کر موقعہ مانگ رہے ہیں کہ مسمی فلاں! آپ کے راج میں بڑا سکون پایا جاتا ہے براہ مہربانی مجھے ایک موقعہ دیں کہ میں کچھ دہشت گردی کرکے اس سکون کو ملیامیٹ کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکوں۔ ایک طرف درجنوں لوگوں کو بس میں گھس کر فائرنگ کرکے مارا جا رہا تھا دوسری طرف حکمرانوں کی میٹنگیں، اجلاس جاری تھے، انواع و اقسام کے کھانے کھائے جا رہے تھے۔ وزراء کے دعوے جاری تھے، منہ چل رہے تھے کہ کہیں یہ آخری کھانا نہ ہو۔ مگر ان سیاستدانوں میں کسی کو ندامت نہ ہوئی کہ بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی ہے۔

47 سے زائد گھرانوں میں موت نے ڈیرے ڈالے ہیں جس بربریت کا مظاہرہ کیا گیا اس نے اپنوں اور غیروں سب کو اداس کیا اور فکر مند کیا ہے کہ اب کیا ہوگا؟ کوئی محفوظ نہیں ہے آج ہم تو کل تمہاری باری ہے، مگر صرف حکمرانوں کے دل سخت کیونکہ ان کو یقین ہے ہم نے اپنے دروازوں پر پہرے بٹھائے ہوئے ہیں، پولیس والے ہماری حفاظت کے لیے مقرر ہیں یہ عوام تو ہیں ہی مرنے کے لیے، روز ایک نئی کہانی سامنے آجاتی ہے، ہمارا کام تو کھانا پینا ہی ہے اسی لیے ہم آئے ہیں اور یہی ہمارا کام ہے۔ سو یہی کام جاری و ساری ہے۔

تھر میں بچے مر رہے ہوں یا بم دھماکے، دہشت گردی میں خاتمہ ہو رہا ہو یہ سب عوام کے لیے ہے مگر ہر جگہ ان ہی حکمرانوں کے دسترخوان سجتے رہیں گے۔ اسی طرح دو سال سے آپریشن جاری ہے متعدد لوگ گرفتار ہو رہے ہیں سزائیں ہو رہی ہیں مگر یہ ایسے دہشت گرد ہیں کہ جو موقعہ ملتے ہی اپنا کام دکھا جاتے ہیں۔ کوئی روک تھام کرنے والا نہیں قانون کے رکھوالے جب پہنچتے ہیں جب کام کرنے والے اپنا کام ختم کرکے اپنے محفوظ ٹھکانوں پر پہنچ جاتے ہیں، پھر ان لاشوں پر سیاست شروع ہوجاتی ہے مگر کوئی ان سے پوچھے کہ یہ جو لوگ بچھڑے ہیں اب کبھی کہیں نہیں ملنے والے، کوئی بیان ان کو ابدی نیند سے جگانے والا نہیں کہ اب کے ہم بچھڑے تو شاید کتابوں میں ملیں۔

بات ساری یہ ہے کہ اگر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی بلاامتیاز اور انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر کی جائے اور گناہ گار کو سزا بلکہ سخت سزا انصاف کی بنیاد پر فوری مل جائے تو پھر کسی کی جرأت نہ ہو، کوئی واردات کرنے یا کسی کا آلہ کار بننے کی، مگر ہم تن آسان لوگ ہیں بغیر تحقیق کیے الزام لگا دیا جاتا ہے ارے کوئی پوچھے کہ جب آپ کو پتہ ہے کہ کن لوگوں نے یہ کام کیا ہے کون کروا رہا ہے تو پھر ایسے لوگوں کو موقعہ کیوں دیا جاتا ہے ایسے دشمن صفت عناصر کے سر کچل دینے میں دیر کیوں کی جاتی ہے۔

انڈیا میں پارلیمنٹ پر حملہ ہو یا ممبئی واقعات فوراً ہی پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ شروع کردیا جاتا ہے اقوام متحدہ تک میں پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کی جاتی ہے ملکی مفادات میں وہاں کا میڈیا ایک ہوجاتا ہے مگر ہم ہیں کہ آم کے ٹوکروں اور بنارسی ساڑھیوں کے تحائف دے کر سمجھتے ہیں کہ معاملہ ختم ہوگیا ہے یاد رکھیں جب تک ہم ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر ملکی اور اجتماعی مفادات کے لیے نہیں سوچیں گے اور سیاسی مصلحتوں سے کام لیتے رہیں گے اسی طرح گلی کوچوں چوراہوں پر لاشیں گرتی رہیں گی خون بہتا رہے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں