بندرگاہ چاہ بہار سے گوادر تک

ماضی میں جب کسی بھی ملک کو فتح کیا جاتا تھا تو اس کے لیے اہم ذرایع سفر بحری راستے ہوا کرتے تھے


قادر خان May 19, 2015
[email protected]

KARACHI: ماضی میں جب کسی بھی ملک کو فتح کیا جاتا تھا تو اس کے لیے اہم ذرایع سفر بحری راستے ہوا کرتے تھے ۔ بحری راستوں سے تجارت کے بہانے کسی بھی کمزور یا مالدار ملک میں داخل ہوکر پہلے تجارتی بنیادوں پر قدم مضبوط کیے جاتے اور پھر اس کی معاشی پالیسیوں پر حاوی ہو کر بتدریج اندرونِ خانہ بغاوت پیدا کر کے اس کی سرزمین پر قبضہ کر لیا جاتا۔ متحدہ ہندوستان کی مثال تو ہمارے سامنے ہی ہے کہ سونے کی چڑیا قرار دیے جانے پر مغرب نے بحری جہازوں کے ذریعے اپنے قافلے بھیجے اور بالآخر ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان پر قبضہ کر لیا اور سو سال سے زائد ہندوستان پر حکومت کرنے کے لیے متحدہ ہندوستان کی تقسیم کچھ اس طرح کی آج تک سرحدوں کے تنازعات طے نہیں ہو سکے۔

صرف یہی نہیں بلکہ کمیشن نے بحری بندرگاہوں میں بنگال کی کلکتہ بندرگاہ کو پاکستان میں شامل نہیں ہونے دیا تا کہ پاکستان معاشی طور پر مضبوط نہ رہ سکے اور جلد از جلد پاکستان، دوبارہ ہندوستان میں ضم ہونے پر مجبور ہو جائے۔ آج کے اس جدید دور میں بندرگاہوں کی جس قدر اہمیت ہے غالباََ ماضی میں بھی نہیں تھی، تجارتی سامان کے علاوہ جنگی بھاری ساز و سامان کی ترسیل بحری راستوں سے ہی ممکن بنائی جا رہی ہے بلکہ اب تو جنگی بحری اڈوں کا ایک نیا تصور بھی آ چکا ہے کہ طاقتور ملک اپنی طاقت کا مظاہرہ اور کسی بھی ملک کو میزائل سے نشانہ بنانے اور تیز ترین جنگی جہاز فوراََ روانہ کرنے کے لیے بحری بیڑے کا سہارا لیتے ہیں۔

چین اور بھارت اپنی معاشی ترقی کو برقرار رکھنے کے لیے وسائل کے حصول کے لیے سرگرداں ہیں اور اس سلسلے میں ایشین ٹائیگر بننے کے لیے بھارت ایسے بحری منصوبوں پر کام کر رہا ہے، جو اس کی جنگجوانہ فطرت کو تسکین پہنچا سکے، لیکن یہ بھی تاریخ گواہ ہے کہ بھارت کبھی کسی دوسرے ملک پر قبضہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، جب کہ افغانستان سے لے کر برطانیہ تک نے ہندوستان پر سیکڑوں سال حکومت کی اور اپنی طاقت کا لوہا منوایا ہے۔ یہ بھارتی سرز مین کی باسیوں کی خو بو میں شامل ہے کہ وہ اپنی ناک سے آگے نہیں دیکھ سکتے۔ لیکن 'بنیا' ہونے کے سبب دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑانا بھی بھارتی برہمن فطرت میں شامل ہے۔

بھارت اپنی نئی انتہا پسند جنگجوانہ پالیسی کے تحت ایران کی جنوبی بندرگاہ چاہ بہار کے ذریعے وسطی ایشیا اور افغانستان تک رسائی کی امید پر منصوبہ بندیوں میں مصروف ہے اور اس کے لیے کسی بھی ملک کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش اور منصوبہ بندی کرنا، بھارتی ہندو انتہا پسندوں کی خصلت بن چکی ہے۔ ایران کی بندرگاہ چاہ بہار پاکستان کے ڈیپ سی پورٹ سے محض 75 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے، چین چونکہ ایک عالمی طاقت بننے کے لیے غیر مستحکم ممالک میں بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے، بھارت چاہ بہار بندرگاہ اور چین گوادر کے ذریعے افریقہ، لاطینی امریکا اور افغانستان تک سے اقتصادی معاہدے کرنا چاہتا ہے، موجودہ پاک چین اقتصادی راہداری معاہدہ اسی سلسلے کی اہم کڑی ہے۔

بھارت اس منصوبے سے گوادر پورٹ کے فعال ہونے پر خوش نہیں ہے۔ بھارت نہیں چاہتا کہ پاکستان میں گوادر پورٹ فعال ہو جائے کیونکہ اس سے بھارت کے مفادات کو شدید نقصان پہنچے گا، بھارت نے تو برہم ہوتے ہوئے باقاعدہ چین کے سفیر کو طلب کر کے اقتصادی راہداری، منصوبے پر احتجاج بھی ریکارڈ کروایا اور دھمکی دی۔ گزشتہ دنوں پہلی مرتبہ گوادر سی ڈیپ پورٹ سے پہلا کمرشل بحری جہاز دبئی کے لیے مچھلیوں کی بہت بڑی کھیپ لے کر روانہ ہوا۔ چین کولمبو شہر کی بندرگاہ کو ۴ء۱ ؍ ارب ڈالر کی لاگت سے تعمیر کر رہا ہے سری لنکا جیسے چھوٹے جزیرے پر مشتمل ملک کے لیے یہ ایک بہت بڑا منصوبہ ہے۔

بھارت ایرانی حکام سے چاہ بہار بندرگاہ کو وسعت دینے کے لیے متواتر دباؤ ڈالتا رہا ہے۔ گو کہ یہ بندرگاہ فعال تو ہے لیکن اس کی گنجائش پچیس لاکھ ٹن سالانہ ہے، جب کہ اس کے لیے ایک کروڑ بیس لاکھ ٹن سالانہ کا ہدف رکھا گیا ہے، امریکا ایران میں اس چاہ بہار بندرگاہ کی وسعت کا مخالف ہے لیکن بھارت پاکستان میں چین کے تعاون سے بنائی جانے والی بندرگاہ گوادر کا شدید ترین مخالف ہے۔

چین نے اس بندرگاہ کے لیے دو سو اڑتالیس ملین ڈالر کے ابتدائی ترقیاتی کاموں کا 80 فیصد فراہم کیا تھا، اسی بندرگاہ کے ذریعے چین کو اپنی توانائی کی ضروریات کے لیے تیل کی سپلائی حاصل کرنے میں آسانی ہو جائے گی۔ بھارت و چین اپنی معاشی ترقی کے تیز رفتار پہیے کو جاری رکھنے کے لیے ایران و پاکستان میں بڑی لاگت کے منصوبے جلد از جلد تکمیل تک پہنچانا چاہتے ہیں تو دوسری جانب بھارت یہ نہیں چاہتا کہ پاکستان اور پھر خاص طور پر بلوچستان کے عوام اپنے پیروں میں کھڑے ہو سکیں اور بھارت نے سازشوں کے ذریعے پاکستان کے طول و عرض میں جو انارکی پھیلا رکھی ہے اور سرمایہ کاروں کو پاکستان آنے سے خوف زدہ کرنے کے لیے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے بھیانک سازش کر رہا ہے اس کا اولین مقصد بھی یہی ہے۔

گوادر بندرگاہ بحیرہ عرب کے سرے پر خلیج فارس کے دہانے پر واقع ہے کراچی کے مغرب میں تقریباََ 460 کلومیٹر، پاکستان کی سرحد کے مشرق میں ایران سے 75 کلو میٹر اور شمال مشرق میں بحیرہ عرب کے پار عمان (اومان) سے380 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ گوادر بندرگاہ کلیدی مقام آبنائے ہرمز کے قریب واقع ہے جو کہ خلیجی ریاستوں کے تیل کی بر آمدات کا واحد بحری راستہ ہے اس کے علاوہ یہ زمین بند افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں جو کہ توانائی کی دولت سے مالا مال ہیں، کی قریب ترین گرم پانی کی بندرگاہ ہے۔1955ء میں علاقے کو مکران ضلع بنا دیا گیا۔

1958ء میں مسقط نے10 ملین ڈالر کے عوض گوادر اور اس کے گرد و نواح کا علاقہ پاکستان کو دے دیا، یکم جولائی 1970ء کو جب ون یونٹ کا خاتمہ ہوا اور بلوچستان بھی ایک صوبے کی حیثیت اختیار کر گیا تو مکران کو بھی ضلع کے اختیار مل گئے 1977ء میں مکران کو ڈویژن کا درجہ دے دیا گیا اور یکم جولائی کو تربت، پنجگور اور گوادر تین اضلاع بنا دیے گئے۔ اگر گوادر سی ڈیپ پورٹ بین الاقوامی سازشوں سے بچ جاتا ہے اور اپنے منصوبے کے مطابق کامیاب ہوتا ہے تو اس بندرگاہ سے چین، افغانستان، وسط ایشیا کے ممالک تاجکستان، قازقستان، آذربائیجان، ازبکستان، ترکمانستان اور دیگر روسی ریاستوں کو براہ راست فائدہ پہنچے گا اور ان کا انحصار دبئی پورٹ کے ساتھ ساتھ ایران کی چاہ بہار بندرگاہ سے کم خرچ ہونے کی بنا پر صوبے اور پاکستان کی عوام کے لیے فائدہ مند ہو گا۔

اس بندرگاہ کی سب سے بڑی خوبی بھی یہی ہے کہ یہ خلیج فارس، بحیرہ عرب، بحر ہند خلیج بنگال اور اسی سمندری پٹی میں واقع تمام بندرگاہوں سے زیادہ گہری بندرگاہ ہے اس میں ڈھائی لاکھ ٹن وزنی جہاز بھی با آسانی لنگر انداز ہو سکیں گے۔ بندرگاہ کی گہرائی 14.5 میٹر ہے۔ بندرگاہ پر تیزی سے ترقیاتی کام جاری ہے۔ اور اس کے ساتھ چین کے تعاون سے M8 کی تعمیر کا آغاز بھی شروع ہو چکا ہے جو 892 کلو میٹر طویل موٹر وے ہو گی۔ جب کہ بھارت نے ایران کے ساتھ گوادر بندرگاہ کے مقابلے میں ایران کی چاہ بہار بندرگاہ کی تعمیر و توسیع کے منصوبے شروع کر دیے ہیں ۔2003ء میں بھی بھارت اور ایران نے پاکستان کی سرحد سے متصل خلیج عمان میں ایرانی بندرگاہ چاہ بہارکو تعمیر کرنے پر اتفاق کیا تھا لیکن ایران پر پابندیوں کے سبب اس پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں