کراچی باتوں سے نہیں بدلے گا

اگرآپ کو بھی کسی چیزمیں خرابی نظر آرہی ہے تو آگے بڑھیں اور اس کو ختم کرنے کیلئے سبقت لیجانے والوں میں شامل ہوجائیں۔


محمد نعیم May 20, 2015
اچھا کام چاہے کوئی بھی کرے ہمیں اُس کی حوصلہ افزائی ضرور کرنی چاہیے۔ فوٹو:فیس بک

لاہور: کراچی سے محبت اتنی ہوچکی ہے کہ یہاں ہونے والی ہر چھوٹی بڑی سرگرمی پر نظر اٹک جاتی ہے۔ جب اس عظیم شہر کے رہائشی مشکل میں ہیں تو انہیں دیکھ کر دل بہت اداس ہوتا ہے۔ اوپر سے زخموں پر نمک پاشی حکمرانوں کی بیانات کرتے ہیں، جو عمل سے کوسوں دور صرف اور صرف بیانات ہی ہوتے ہیں۔ یہ کردیں گے وہ کر دیں گے۔ ایکشن لے لیا، رپورٹ طلب کرلی، تحقیقاتی کمیشن تشکیل، نوٹس لے لیا، گرینڈ آپریشن کیا جائے گا، مرتکب افراد کو کیفرکردار تک پہنچائیں گے۔ قانونی کارروائی کی جائے گی۔ حکام کو ہدایات جاری۔

لیکن یہ صرف رات بارہ بجے کی ہیڈلائنز اور اگلے دن کے اخبار تک کی ہی کہانی ہوتی ہے۔ اگلے دن سرکاری اطلاعات و نشریات کی مشینری نئے ایشو پر عقابی نگائیں جمائے رکھتی ہے۔ جیسے ہی دیکھا کہ یہ وقت کا اہم مسئلہ ہے بس فوراً اس کے لیے ایک ڈمی ٹائپ کا اجلاس، اجلاس نہ سہی تو کسی وزیر شزیر کی میڈیا سے گفتگو، یہ بھی ممکن نہ ہوا تو پریس ریلیز کردی جاتی ہے کہ فلاں صاحب نے فلاں مسئلے پر ایکشن لے لیا۔ سرکاری مشینری کی حرکت سے اسے الیکڑانک و پرنٹ میڈیا میں نمایاں جگہ مل جاتی ہے۔ پھر نیا سورج نکلتا ہے اور نئے مسئلے پر بیان داغ دیا جاتا ہے۔ کل کیا بیان دیا ہے۔ لوگوں کو کون سا مسئلہ حل کرنے کی آس دلائی تھی۔ یہ کسے یاد رہتا ہے۔ یا یہ سوچنے کے لیے کس کے پاس فرصت ہوتی ہے۔ اب ہر ایک کا منہ چڑاتی، عاملوں اور جعلی حکیموں کی من پسند اور مختلف جماعتوں کے جیالوں کی آواز دل وال چاکنگ کو ہی دیکھ لیجیے۔ سب کچھ آن ریکارڈ موجود ہے۔



سال رفتہ 2014 ماہ فروری میں سندھ اسمبلی نے وال چاکنگ کے خلاف قانون منظور کیا، جس کے تحت خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے کم سے کم چھ ماہ قید اور ہزاروں روپے جرمانے کی سزا کا قانون پاس کیا گیا۔ اس قانون کے مطابق سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں کی نجی اور سرکاری عمارتوں، دیواروں اور کھمبوں پر مالکان یا متعلقہ حکام کی مرضی کے بغیر کسی بھی قسم کی چاکنگ کرنا اور پوسٹر لگانا جرم قرار دیا گیا اور اس کی صفائی پر آنے والے اخراجات بھی ملزمان سے وصول کرنے کے احکامات جاری کیے گئے۔

مگر ایک سال گزر جانے کے باوجود یہ قانون صرف سرکاری کاغذات میں ہی رہا۔ عملی طور یہ کہیں بھی نافذ العمل نہ ہوا۔ جعلی پیر، جادوگر، پراپرٹی اور صحت کے نام لوگوں کے جان و مال سے کھیلنے والے حکیم اور اسٹیٹ ایجنٹ وال چاکنگ کے ذریعے خوش نما جملوں اور نعروں کے ذریعے لوگوں کو اپنی جانب راغب کرتے رہے۔ سیاسی و فرقہ وارانہ جملے اور نعرے اِس کے علاوہ ہیں۔



کوئی بھی عمارت، سڑک یا پل، وال چاکنگ سے محفوظ نہیں۔ پھر رواں سال مارچ کے آغاز سے ''صاف سرسبز، پرامن سندھ'' مہم کا آغاز ہوا اور وزیر اطلاعات و بلدیات کی زیر صدارت اعلیٰ سطحی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ ''صاف سرسبز، پرامن سندھ'' مہم کے تحت کراچی بھر میں وال چاکنگ پر فوری پابندی عائد کی جاتی ہے، تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں، کمرشل ادارے، نجی کمپنیاں اور حکیم اپنی وال چاکنگ کو ازخود 24 گھنٹوں کے اندر اندر صاف کریں اگر ایسا نہ کیا گیا تو تمام کمرشل کمپنیوں، حکیم اور نجی کمپنیوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے اُن کے خلاف ایف آئی آر کا ا ندراج کیا جائے گا۔

اس اجلاس میں تمام فلاہی اداروں کوبھی متنبہ کیا گیا کہ وہ کسی قسم کی وال چاکنگ نہیں کرسکیں گے۔ تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کو بھی اپنی وال چاکنگ بالخصوص پولز اور دیگر عمارتوں پر لگائے گئے پارٹی پرچموں کو ہٹانے کا کہا گیا اور تمام ڈی ایم سیز کے افسران کو ہدایات دیں گئیں کہ تمام پولز کو پرچموں اور اشتہارات سے پاک کرکے ا ن پر رنگ کروایا جائے اور شہر کی خوبصورتی کو زیادہ سے زیادہ بہتر بنایا جائے۔ مگر حکومت سندھ، وزیر بلدیات اور کراچی ا نتظامیہ کے تمام تر دعوئوں کے باوجود شہر کے کسی علاقے سے نہ تو وال چاکنگ کا خاتمہ ہوسکا اور نہ ہی جھنڈے ہٹائے جاسکے۔ چند دن تک یہ بیانات میڈیا میں گردش کرتے رہے اور طرح طرح کی چاکنگ در چاکنگ سے لتھڑی ہوئی دیواریں اور سڑکیں ہمارا منہ چڑاتی رہیں۔

سب سوچ رہے ہوں گے کہ نہ جانے کس نے میرے گھر کی دیوار پر کچھ لکھ دیا ہے جو میں گڑے مردے اکھاڑنے بیٹھ گیا ہوں۔ یا نیا رنگ و روغن کوئی خراب کرکے چلا گیا ہے جس کی بھڑاس نکال رہا ہوں۔ ارے جناب! ایسا کچھ بھی نہیں۔ یہ سب وعدے وعیدیں یاد آنے کا سبب بھی اپنا سوشل میڈیا ہی ہے۔ فیس بک پر چند تصاویر دیکھیں تو چند لمحات کے لیے رک گیا۔



 

تفصیلات میں جا کر دیکھا تو کچھ نوجوان، وال چاکنگ، نفرتوں سے بھرپور نعرے، فلاں کافر اور فلاں کافر کے ہر دیوار پر لکھے فتوے مٹا رہے تھے اور خون رنگ پان کی پیکیں صاف کرکے وہاں خوشیوں اور امن کے رنگ بکھیر رہے ہیں۔ لوگوں کو نفرت کے بجائے محبت کا پیغام دے رہے ہیں۔

مجھے ''میں کراچی'' کے نام سے کام کرنے والے نوجوانوں کا یہ عمل اچھا لگا۔ جو سخت گرمی میں ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر وال چاکنگ ختم کرنے کے صرف زبانی دعوے نہیں کر رہے تھے بلکہ عملی طور پر آگے بڑھ کر اس کام کو انجام دے رہے تھے۔



فوٹو: فیس بک

اچھا کام چاہے کوئی بھی کرے ہمیں اُس کی حوصلہ افزائی ضرور کرنی چاہیے۔ چونکہ یہ ایسا عمل ہے جو لوگوں میں کام کرنے کے جذبے کو ابھرتا ہے۔ اگر آپ کو بھی کسی چیز میں خرابی نظر آرہی ہے تو آگے بڑھیں اور اس کو ختم کرنے کے لیے سبقت لے جانے والوں میں شامل ہوجائیں۔ کیوں کہ میرے بھائی! کراچی باتوں سے نہیں عمل سے بدلے گا۔

[poll id="429"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں