کوئی مانے نہ مانے پاکستان کے حالات بدل رہے ہیں

سخت ترین حالات کے باوجود پاکستانی قوم ہرگز بھی گمنامی کے اندھیروں میں گم ہونے والی نہیں ہے۔


شاہد کاظمی May 21, 2015
زمبابوے کے دورہ کی کامیابی سے پاکستان ایسے ملک کے طور پر ابھرے گا جو سانحات سے نمٹنا جانتا ہے۔ فوٹو:فائل

2009 ء میں سری لنکن ٹیم پر حملہ ہوا تو بیگانے تو بیگانے اپنوں نے بھی راگ الاپنا شروع کردیا کہ کھیلوں کے میدان اب دوبارہ آباد نہیں ہو پائیں گے۔ نانگا پربت پر خون بہایا گیا تو کہا جانے لگا کے اب کوئی سیاحتی مقامات کا رخ نہیں کرے گا۔ گومل ذام ڈیم اور دیگر ترقیاتی منصوبوں پر مصروف چینی انجینئرز کو نشانہ بنایا گیا تو کہا گیا کہ ہم سے ہمارا واحد دوست بھی الگ ہوجائے گا۔ لیکن ہم نے ثابت کیا کہ ہم بے پناہ مسائل سے بھی ہمت ہارنے والے نہیں۔ قیادت کے شدید ترین فقدان کے باوجود پاکستانی قوم ہرگز بھی گمنامی کے اندھیروں میں گم ہونے والی نہیں ہے۔

https://twitter.com/IamNishard/status/572580011548401664

سری لنکن ٹیم پر ہونے والے شدید حملے کے بعد سے ہمارے کھلاڑیوں نے نہ صرف عالمی درجہ بندی میں اپنا آپ منوایا بلکہ دنیا کو یہ پیغام بھی دیا کہ ہم ہتھیار کی زبان میں بات کرنے والوں میں سے ہرگز نہیں ہیں۔ نانگا پربت پر ہونے والی دہشت گردی کی کارروائی کے بعد جس طرح پاک فوج نے مقامی قیادت سے مل کر حالات کی بہتری کے لیے کام کیا وہ کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں۔ 2008 میں جب مالم جبہ کے واحد ریزورٹ کو نذر آتش کردیا گیا تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ پاکستان کا واحد اسکی پوائنٹ دوبارہ سے عوام کی توجہ کا مرکز بن پائے گا۔

2007 میں جب راہ حق کی جہدو جہد شروع ہوئی تو سوات جیسی خوبصورت وادی میں خوف کی سی فضاء تھی۔ سیاح ڈر کے مارے رخ نہیں کر رہے تھے۔ لہلاتی وادی سراسیمگی کا لبادہ اوڑھے بیٹھی تھی۔ پھر خوف کی فضاء 2009 میں آپریشن راہ راست سے ختم ہونا شروع ہوئی۔ سیادہ چادر ہٹنا شروع ہوگئی، رونقیں بحال ہونا شروع ہوگئیں، سوات میلہ ان دشمنوں کے منہ پر طمانچہ تھا جن کا خیال تھا کہ یہ قوم اپنے سیاحتی مقامات سے محروم ہو جائے گی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جب سوات آپریشن کے بعد پہلی دفعہ سوات میلے کا انعقاد کیا گیا تو ہمیں ایک تربیتی ورکشاپ میں اس موضوع پر لکھنے کا کہا گیا تھا اور ہر کوئی اس پہ لکھنے کو بے تاب تھا۔ کیوں کہ ایک عرصے بعد سوات کو رونقیں لوٹی تھیں۔

''میرے کندھے اور پیٹ میں گولیاں لگیں تو میں بے ہوش ہوگیا اور ایک موقع پر بڑے آپریشن سے گزرتے ہوئے خطرہ پیدا ہوا کہ کہیں میں گردہ نہ کھو بیٹھوں۔ لیکن میں زندگی کی طرف لوٹا اور ساتھ ہی ہمیشہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے لیے دعا گو رہا''۔ یہ الفاظ 2009 میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر ہونے والے حملے سے شدید زخمی ہونے والے پاکستانی ایمپائر احسن رضا کے ہیں۔ احسن رضا کے لفظ عزم و ہمت کی ایک داستان لیے ہوئے ہیں۔ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اس قوم کا حوصلہ کبھی پست نہیں ہوسکتا۔

ہم پہ دشمن جتنے وار کرئے گا اس سے ہمارے حوصلے مزید مضبوط ہوں گے۔ زمبابوے کی ٹیم کی پاکستان آمد کے ساتھ ہی کچھ اپنے یہ راگ الاپنا شروع ہوگئے ہیں کہ ہمیں ابھی یہ رسک نہیں لینا چاہیے تھا۔ ان سے صرف اتنی سی گذارش ہے کہ خدارا اپنی سوچ بدلیے۔

افسوس صرف اس بات پر ہوتا ہے کہ تنقید ہمیشہ ''ائیر کندیشنڈ'' ہوتی ہے۔ جو لوگ تپتی دھوپ میں فرائض سر انجام دے رہے ہوتے ہیں وہ ہر وقت اسی فکر میں سرگرداں رہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح سے وطن عزیز کی رونقیں بحال ہوسکیں۔ لیکن ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے نام نہاد تجزیہ کار ناجانے کیوں یہ ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں کہ پاکستان محفوظ ملک نہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اس وقت مسائل سے دوچار ہے۔ لیکن ان مسائل سے کیسے نمٹا جائے گا؟ کون آئے گا ان مسائل سے نجات دلانے کے لیے؟ ہمیں خود ہی تو ہمت دکھانا ہوگی ۔ دشمن وار کرے تو ہمیں شیر کی طرح غرانا ہوگا اور جھپٹنا ہوگا تاکہ دشمن اس قوم کی طرف میلی آنکھ سے نہ دیکھ سکے۔

مجھے فخر ہے زمبابوے کی کرکٹ ٹیم کے حوصلے پر جنہوں نے اپنی حکومت کی مخالفت کے باوجود پاکستان آنے کی حامی بھری اور اپنے نقصان کی ذمہ داری بھی اُٹھائی۔ ایک ٹی وی چینل پر تبصرہ جاری تھا کہ زمبابوے کو پیسے کی چمک دکھائی گئی۔ تو جناب عرض صرف اتنی ہے کہ آپ بھی پیسے تھامیے اور ذرا، یمن، عراق، افغانستان یا دیگر جنگ زدہ ممالک میں سے کسی ملک کا رخ کر کے دکھائیے۔

پاکستانی قوم کے لیے اس وقت اصل ہیرو وہ نہیں ہیں جو نہایت ''تجربہ کاری'' کے ساتھ میڈیا پر زمبابوے کے دورہ پاکستان کو اپنے پاوں پر کلہاڑی مارنے سے تعبیر کر رہے ہیں۔ بلکہ پاکستانی قوم کے ہیرو زمبابوے کے وہ کھلاڑی ہیں جو اپنی حکومت، FICA (کھلاڑیوں کی عالمی تنظیم) کی شدید ترین مخالفت کے باوجود بھی پاکستان پہنچے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی قسم کی غلطی کی نہ تو گنجائش ہے نہ ہم اب کسی بھی حادثے کو برداشت کرسکتے ہیں کیوںکہ ایک چھوٹی سے غلطی بھی پاکستان میں کھیلوں کے میدان ہمیشہ کے لیے ویران کر دینے کا سبب بن سکتی ہے۔ لیکن ساتھ یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ زمبابوے کے دورہ کی کامیابی سے پاکستان ایسے ملک کے طور پر ابھرے گا جو سانحات سے نمٹنا جانتا ہے۔ وہ تمام جوان پاکستانی قوم کے ہیرو ہیں جو دن رات ایک کیے مہمانوں کی حفاظت یقینی بنانے کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انشاء اللہ ان کی محنت رائیگاں نہیں جائے گی۔

[poll id="430"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں