یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ۔۔۔۔
کراچی جیسے بڑے شہر کے مسائل بھی بڑے بڑے ہیں اور آج کل کراچی کے شہریوں کو پانی کے حصول میں پریشانی کا سامنا ہے۔
NEW DELHI:
لوکل باڈیز مستقبل میں کیا کام کریں گی، کیسے کام کریں گی، ایک سیمینار میں جانا ہوا، جس میں پی پی پی، متحدہ، جماعت اسلامی کے نمایندے موجود تھے، PTI کا نمایندہ آنے والا تھا پر نہ آ سکا۔
کراچی جیسے بڑے شہر کے مسائل بھی بڑے بڑے ہیں اور آج کل کراچی کے شہریوں کو پانی کے حصول میں پریشانی کا سامنا ہے۔ ہزاروں روپے کے واٹر ٹینکرز کے لیے بھی بکنگ کروانی پڑ رہی ہے۔ شدید گرمی کے عالم میں شہری لوڈشیڈنگ کے علاوہ پانی کے لیے بھی بے انتہا تکلیف اٹھا رہے ہیں۔
اور سرکار جوں کی توں مست و خراماں ہے۔
اس سیمینار میں جو نمایندے موجود تھے وہ کئی برسوں سے کراچی کی حکومتوں میں موجود ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جب بھی یہ لوگ بات شروع کرتے ہیں چند مخصوص جملے ضرور ادا کیے جاتے ہیں تا کہ تنقید سے پہلے ہمدردی حاصل کی جا سکے ۔
چند مخصوص جملے اس طرح ادا کیے گئے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ کراچی جیسے شہر کو بہترین ہاتھ نہیں مل سکے، سندھ، پنجاب سے 25 سال پیچھے چلا گیا، واٹر بورڈ نے بجلی کا بل جمع نہیں کرایا اس لیے 24 گھنٹوں کی بجائے 8 گھنٹے بجلی سے پمپنگ اسٹیشنز چل رہے ہیں۔ ڈھائی کروڑ گیلن پینے کا پانی ضایع کیا جا رہا ہے، 2 ہزار واٹر بورڈ میں ملازمین ہیں جو خواہ مخواہ تنخواہیں وصول کر رہے ہیں اور جن کو کوئی نکال نہیں سکتا ۔
''شہری'' نامی NGO کی طرف سے یہ سیمینار منعقد کیا گیا اور وہ پڑھے لکھے حاضرین جو ان جماعتوں کی لوٹ مار سے بے حد پریشان اور تنگ ہیں، وہ بھی شاید بھرے بیٹھے تھے، جب یہ نمایندے، بدقسمتی سے۔۔۔۔ اپنا اپنا موقف بیان کر چکے تو سوال جواب کے سیشن میں مختلف طبقہ فکر تعلق رکھنے والے افراد کا ایک سوال مشترکہ تھا کہ یہ لوٹ مار کب بند ہو گی؟ کب یہ عوامی نمایندے، عوام کے لیے کام کریں گے۔
جس کا ان نمایندوں کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ PPP ہو متحدہ یا جماعت اسلامی ان تینوں نے لوکل باڈیز کے الیکشن لڑنے ہیں اور تینوں برسا ہا برس سے ان باڈیز کا حصہ بن کر بھی رہی ہیں مگر درحقیقت لوٹ مار کے طریقے متعارف کرانے میں ان کا کوئی ثانی نہیں اور مزے کی بات ہے کہ اپنے اپنے آپ کو مظلوم بھی کہلانے کی خواہش رکھتے ہیں اور شاید ایسا تب ہی ہو گا جب سارا کا سارا شہر اندھا ہو جائے تمام لوگ سفید لاٹھیوں کے سہارے زندگی گزار رہے ہوں گے مگر جب تک عقل و شعور باقی ہے، بینائی باقی ہے، عقل و فہم باقی ہے، ہم خوب جانتے ہیں کہ بدقسمتی عوام کی ہے کہ ابھی تک ان کو کوئی ایسا نہیں مل سکا کہ جو اپنے عیش و آرام اور محلات سے نکل کر عوام کے لیے کچھ کر سکیں حالانکہ جانا سب نے قبر میں ہے اور درحقیقت سب سے بڑا انصاف کرنے والا تو اللہ عالی شان ہے جو ہر لمحہ اور ہر بات سے باخبر ہے۔
یہ سب بتانے کی ضرورت نہیں ہے مگر اس کے باوجود یہ لوگ عوام کے نمایندے بن کر کس کس طرح عوام کو ہی بے وقوف بناتے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔
متحدہ کے خالد صاحب کے پاس کسی سوال کا جواب نہیں تھا وہ مغرب کی سن کے مشرق کی بات کر رہے تھے، پی پی پی کے نجمی عالم نے کہا کہ وہ اپنی حکومت کے سامنے یہ تمام ایشوز رکھیں گے، سعید صاحب نے معذرت کر لی۔ مستقبل کے وعدوں سے۔ اندھیر دیکھیے کہ پانی کی شدید قلت ہے، مصنوعی قلت۔ اللہ نہ کرے کہ یہ قدرتی قلت ہو اور کس طرح عوام کو پیسا جا رہا ہے، نہ چھوٹے بچوں کی فکر اور نہ بڑے عمر رسیدہ لوگوں کا خیال۔ شدید ترین گرمی کے موسم میں بے حس حکومت اور ان کے نمایندے سمجھ سے باہر ہے کہ کون سی مخلوق آئے گی اور یہ مسائل حل ہوں گے کس طرح ان کے زنبیل نما پیٹوں کو بند کیا جائے گا کس طرح ان کو شعور دیا جائے گا۔
جھوٹ اور سفید جھوٹ بول بول کے یہ لوگ اتنے بے حس اور سنگدل ہو گئے ہیں کہ ڈھیٹ بن کر اپنی عیش و آرام کو جاری رکھے ہوئے ہیں کوئی بولتا ہے تو بولتا رہے۔
MBA لیول کے لوگ دہشت گردی میں ملوث پائے جا رہے ہیں، جب پڑھے لکھے نوجوانوں کو ڈھنگ کا روزگار نہیں ملے گا تو فرسٹریشن کئی غلط کاموں کا سبب بنتی ہے۔ وہ ذہن جو Positive کاموں کے لیے ہو مگر ان کو استعمال نہ کیا جائے، اور 5,4 تک کی کلاس کی تعلیم کے لوگوں کو عہدے دیے جائیں تو معاشرے میں یہی سب کچھ ہو گا جو ہو رہا ہے۔
سبین محمود کا قتل ہو جاتا ہے، بس میں سوار 46 عورتوں و مردوں کو مار دیا جاتا ہے (اب کچھ کامیابی ہوئی ہے،4 ملزمان پکڑے ہیں) مگر ساتھ ہی ساتھ سابق وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا نے ایک ہیجان برپا کر رکھا ہے، روز نئے نئے انکشافات منظر عام پر آ رہے ہیں مگر ایسا لگتا ہے کہ جن لوگوں کے لیے ذوالفقار مرزا بول رہے ہیں وہ تمام فرشتے ہیں۔ میڈیا ایک نہیں کئی کئی بار یہ سب کچھ دکھا رہا ہے مگر نہ کوئی ایکشن نہ کوئی کارروائی۔
کیسے کیسے روپ بدل بدل کر یہ لوگ عوام کو تماشا بنا رہے ہیں نہ صرف عوام کو بلکہ پورے پاکستان کو ایک کھیل تماشا بنا کر رکھ دیا گیا۔ انٹکچوئل لوگ جنرل راحیل شریف کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ کوئی تو ہو جو ہماری وحشتوں کا ساتھی ہو، اب دیکھیے کہ جنرل راحیل شریف کتنے محاذوں پر لڑتے ہیں۔ یہ لوٹ مار کرنے والے لوگ کب تک اپنے کام دھندوں میں لگے رہتے ہیں مگر اللہ کا انصاف برحق ہے۔ برا کرنے والے کو کوئی بچا نہیں سکتا کہ ہر ایک کو اپنا حساب خود دینا ہو گا۔ ایسا لگتا ہے کہ اب پاکستان بھر میں انسان ناپید ہوتے جا رہے ہیں، گدھے کے گوشت سے بنی ڈشز شاید زیادہ ذائقہ دار ہونے کے ساتھ ساتھ بے حس اور بے شرم بنانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔
بڑے بڑے کیفے ٹیریا میں یہ گوشت سپلائی کیا جا چکا ہے اور بڑے بڑے عہدے دار اس کے مزے لوٹ چکے ہیں شاباشی تو دینا چاہیے ان کو کہ کم از کم ان سپلائرز نے عوام اور بڑے لوگوں کے فرق کو کم از کم یہاں پر تو مٹا دیا ہے۔
اور غالباً عوام کی آوارہ ''کتوں'' سے بھی جان چھڑائی۔ مچھر شاید ان کی گرفت سے باہر ہیں ورنہ یہ ان کو بھی تخم ملنگا بنا کر عوام میں اتار چکے ہوتے۔
ایگزیکٹ کی خبریں، جعلی ڈگریوں کے کاروبار نے تمام لوگوں کو ہی ششدر کر دیا ہے کہ اتنے سالوں سے اگر یہ کاروبار ہو رہا تھا تو ریاست کہاں تھی، ریاست کی رٹ کہاں ہے؟
اگر یہ الزامات صحیح ثابت ہوتے ہیں اور ثبوت ایگزیکٹ کے خلاف جاتے ہیں تو کیا یہ کمپنی اپنی ساکھ کو بچا سکے گی اور ان ملازمین کا مستقبل کیا ہو گا؟ اور اگر یہ ریاست اور یہاں کی حکومتیں سونے کے لیے ہی ہیں تو جو لوگ جاگ رہے ہیں اور کھلی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں تو پھر عوام کو چاہیے کہ ان ہی کے ہاتھ مضبوط کریں اور اس حکومت کو اس ریاست کو جن کو سالہا سال کچھ پتہ ہی نہ چلے تو کیا فائدہ اور کیا قاعدہ۔
بس یہی ہماری بدقسمتی ہے۔