ہمارے ساتھ نہیں ہو تو پھر ہمارے خلاف ہو

قیام پاکستان کے بعد ایک وقت ایسا آیا تھا کہ جب آپ اس نئے وطن کے لیے سیکولر شناخت کا انتخاب کر سکتے تھے


قادر خان May 24, 2015
[email protected]

WASHINGTON/ ISLAMABAD: امریکی مصنف نوم چومسکی اپنی کتاب Hegemony or Survival: America's quest for global dominance میں لکھتا ہے کہ ''میں آج دنیا میں دو طاقتوں کی بات کرتا ہوں، ایک امریکا جو جارحانہ طریقے سے دنیا پر اپنی حکمرانی مسلط کرنا چاہتا ہے اور دوسری عالمی رائے عامہ ہے۔''

دو صدیوں سے بولیورکے فلسفے Bolivar Doctrine اور مونرو کے فلسفے Moonroe کے مابین تصادم ہے، مونرو کا ماننا ہے کہ تمام دوسری جمہوریاؤں پر امریکا کی بالادستی ہونی چاہیے اور Simon Bolivar کا فلسفہ ہے کہ ''توازن کو برقرار رکھنے کے لیے ایک عظیم امریکی جمہوریت کا تصور ہونا چاہیے۔''

امریکی صدر جارج بش نے مونرو کے جارہانہ فلسفے کی ترویج کی۔ ''اگر تم ہمارے ساتھ نہیں ہو تو پھر ہمارے خلاف ہو۔''اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 61 ویں اجلاس میں شرکت کے لیے ایرانی صدر احمدی نژاد نے امریکا کا دورہ کیا تو اس موقعے پر واشنگٹن پوسٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ''مجھے امید تھی کہ صدر بش اپنا طرز عمل اور رویہ بدلیں گے، اس سے ہم خوش نہیں ہوئے، بعض امریکی سیاستدانوں کا رویہ اور سوچ چیزوں کو برباد کر رہی ہے۔''

یہودی مذہبی پیشوا یسروئیل ویس Yisroel Weiss کا تعلق یہود کے اس گھرانے سے ہے جو ''صہیونت'' کے خلاف مصروف 'جہد و پیکار' ہے۔ یاسنے ایک امریکی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ''صہیونی ڈھانچے کے قیام نے واضح طور پر اس شیطانی فراڈ کا پردہ فاش کیا ہے جس نے دنیا کے نیک نیت افراد کو دھوکے میں ڈالے رکھا ہے جو اپنے آپ کو ''یہودی مملکت'' کے نام سے موسوم کرتا ہے نیز اسرائیل نے تمام لوگوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے خواہ وہ یہودی ہوں یا دیگر۔''

ڈاکٹر ولی رضا نصر مشرق وسطی اور بین الاقوامی تعلقات کے ماہر، خارجہ امور پر امریکی حکومت مشیر ہیں جب کہ امریکا کے معروف ادارے 'کونسل آن فارن افیئر' کے تاحیات رکن ہونے کے ساتھ ساتھ امریکی محکمہ خارجہ کے پالیسی بورڈ کے بھی رکن ہیں۔ ان کی رائے کے مطابق ''پاکستان میں سیاست اور مذہب ایک دوسرے سے جڑے رہے ہیں۔

قیام پاکستان کے بعد ایک وقت ایسا آیا تھا کہ جب آپ اس نئے وطن کے لیے سیکولر شناخت کا انتخاب کر سکتے تھے لیکن ایسا ہونے سے قبل1949ء میں قراردادِ مقاصد آ گئی کہ جس نے واضح کر دیا کہ یہ ایک اسلامی ملک ہے اور جب آپ نے یہ کہہ دیا کہ یہ ایک اسلامی ملک ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اب اس ملک میں سیاست اسلام کے مطابق ہو گی اور یہیں سے یہ مسئلہ سیاسی ہو جاتا ہے اور یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں کون سا اسلام نافذ کیا جائے، کس کی شریعت نافذ کی جائے، حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی یا جعفری؟ پانچ مکاتب فکر موجود ہیں۔

اس اہم معاملے میں شدت اس وقت پیدا ہوئی جب جنرل ضیا الحق نے اعلان کیا کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے، لہذا مسلمان اپنی زکوٰۃ ریاست کو دیا کریں گے کیونکہ جنرل ضیا الحق کے مطابق تاریخ میں یہی ہوتا رہا ہے کہ مسلمان اپنی اسلامی ریاست کو زکوۃ دیتے آئے ہیں، جس کی مثال عباسی اور اموی خلفاء کی دی جاتی رہی ہے، لیکن پاکستان میں رہنے والی شیعہ اقلیت نے اس پر شدید اعتراض اٹھایا کہ پاکستان کو مسلم سنی اسٹیٹ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

پاکستان اپنی نظریاتی اساس کی بنیاد پر ہمیشہ حساس رہا ہے، حیران کن بات یہ ہے کہ پاکستان دو قومی نظریے کی بنیاد پر جب حاصل کیا گیا اور پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو پاکستان کے پہلے وزیر قانون تحریک پاکستان کے ہندو رہنما بنے لیکن ان پر اتنی شدت سے اعتراض نہیں ہوا، جتنا 1953ء میں پاکستان میں قادیانی مسئلے پر کھڑا ہوا تھا، جب ایک قادیانی کو وزیر خارجہ نامزد کیا گیا تو اس پر مخصوص مکتبہ فکر کے علما نے اعتراض کیا۔

حالانکہ اس وزیر نے تحریک پاکستان میں حصہ لیا تھا لیکن مخصوص مکتبہ فکر کا اصرار تھا کہ جب تک سنی العقیدہ نہ ہو اس وقت تک ایک اسلامی ریاست میں اہم عہدہ نہیں دیا جا سکتا۔ اس کے بعد پاکستان میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی تحریک شروع ہوئی اور اس وقت تک جاری رہی جب تک آئین پاکستان میں باقاعدہ اس قانون کو منظور نہیں کر لیا گیا۔

دلچسپ امر ہے کہ مخصوص مکتبہ فکر کے بڑے بڑے جید علماء تحریک پاکستان کے مخالف تھے لیکن قیام پاکستان کے بعد نہ صرف اس کے شہری بن گئے بلکہ رہنما بھی قرار پائے، چونکہ سنی العقیدہ تھے اس لیے پاکستان کو سنی اسٹیٹ تصور کرا لیا گیا۔ حالانکہ قائد اعظم کی کسی بھی ایک تقریر کے کسی بھی اقتباس میں کوئی بھی یہ نہیں ثابت کر سکتا کہ پاکستان کسی خاص مسلک یا عقیدے کے تحت بنایا جائے گا۔ انھوں نے ہمیشہ پاکستان کا آئین قرآن کریم اور اسلام ملت واحدہ کے طور پر افکار اقبال کے مطابق رکھا۔

پاکستان آج بھی صوبائیت، علاقائیت، لسانی، فرقہ واریت 'اَدھر ہم اُدھر تم' والے فارمولے پر گامزن ہے اور اس بات کے قوی امکانات اور عالمی رائے عامہ بھی یہی ہے کہ پاکستانیوں کی یہ روش انتہائی تباہ کن ہے۔ پاکستان نے اسلامی ممالک میں سب سے پہلے ایٹمی طاقت حاصل کی، ہماری فوج دنیا کی پانچ بہترین افواج میں شمار ہوتی ہے، پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی دنیا کی نمبر ون ایجنسی کے درجے پر ہے، کہا جاتا ہے کہ اسلامی دنیا میں تمام تر وسائل سے مالا مال اس ملک میں ایک عالمی سازش کے تحت سعودی عرب اور ایران نے پاکستان میں اپنی پہلی ''پراکسی'' لڑائی 1983ء میں لڑی تھی، سعودی عرب فاتح رہا تھا پاکستان میں جاری فرقہ وارانہ کشیدگی میں دونوں ممالک کی سرمایہ کاری نے بھی اہم کردار ادا کیا۔

کوئی دو رائے نہیں فروعی و خود ساختہ نظریات کے تحت بعض مدارس اور تنظیموں کے قیام اور نظریات کو فروغ دینے کے لیے وہی کردار ادا کر رہے ہیں جو اس سے قبل عراق، لبنان اور شام بھگت چکے ہیں۔ ایران اس وقت عرب ممالک کے چار دارالحکومتوں پر اپنی سیاسی حکمت عملی اور عسکری تعاون کے نام پر ایک نئی طاقت بنا ہوا ہے۔ چین ایک نئی عسکری قوت اور معاشی طور غیر مستحکم ممالک میں سرمایہ کاری میں مصروف ہے، بھارت استعماری قوت بننے کے لیے چین کے راستے میں حائل کر دیا گیا ہے اور آزاد ہوتی افغان حکومت پر معاشی و سیاسی طور پر قابض ہونا چاہتا ہے ۔

پاکستان کئی عشروں کی جنگوں کے بعد افغانستان کو بطور حلوہ کسی دوسرے ملک کو پلیٹ میں رکھ کر دینے کے موڈ میں نظر نہیں آتا۔ مملکت کی تینوں سرحدوں پر دشمن کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے، اندرونی صورتحال بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ پاکستان کی عسکری قوت کو کئی محاذوں پر لڑنا پڑ رہا ہے۔ ملکی سیاسی قیادت میں فہم و بصیرت کا فقدان بتدریج بڑھتا جا رہا ہے، قومی سیاسی جماعتوں نے علاقائی سیاست کو اپنا لیا ہے۔ قومی سیاست کے بجائے، لسانی، نسلی اور فرقہ وارانہ سیاست کو فروغ دیا جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ مختلف عناصر نے اپنی مضبوطی کے لیے ایسے ممالک کی پشت پناہی حاصل کر لی ہے جو براہ راست مداخلت کر کے اپنے مقاصد کو کامیاب بنانے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہیں۔ جس طرح امریکا نے ایک پیغام دیا تھا کہ ''اگر تم ہمارے ساتھ نہیں ہو تو پھر ہمارے خلاف ہو۔'' اسی طرح یہی منطق ہر ملک نے اپنانی شروع کر دی ہے۔ امریکا اپنا طرز عمل تبدیل کر رہا ہے لیکن اب امریکی طرز عمل دوسرے ممالک اپنا رہے ہیں اور ان ممالک میں سیاسی قوت کی حامل جماعتیں اسی منطق کو اپنا رہی ہیں اور سیاسی جماعتوں سے وابستہ کارکنان نے بھی یہی روش اختیار کر لی ہے کہ ''اگر تم ہمارے ساتھ نہیں ہو تو پھر ہمارے خلاف ہو۔'' امریکا، اسرائیل، بھارت کے چہرے بدل بدل کر سامنے آ رہے ہیں کبھی کسی صورت میں کبھی کسی صورت میں۔ پالیسی یہی ہے کہ''اگر تم ہمارے ساتھ نہیں ہو تو پھر ہمارے خلاف ہو۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں