میانداد اور ہارون رشید نام کے دھوکے میں مینڈک کھاگئے
میچ فکسنگ کے خلاف بولنے پر بندوق برداروں کی دھمکیاں مایہ ناز کرکٹر سرفراز نواز بیتے دنوں کے قصے چھیڑتے ہیں.
سرفراز نواز پاکستان کرکٹ ٹیم کے مایہ ناز بولر رہے ہیں۔
کئی بار ان کی شان دار بولنگ نے ٹیم کے لیے فتح کی راہ ہموار کی۔1979 ء میں آسٹریلیا کے خلاف میلبورن ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں نو وکٹیں حاصل کرکے انہوں نے پاکستان کو یادگار فتح دلائی۔ پاکستانی فاسٹ بولروں نے ریورس سوئنگ سے دنیا بھر کے بلے بازوں کو عرصہ دراز تک تگنی کا ناچ نچائے رکھا۔ اس خطرناک ہتھیار یعنی ریورس سوئنگ کے موجد سرفرازنواز ہی تھے، جنھوں نے یہ فن عمران خان کو سکھایا۔
ان سے یہ فن وسیم اکرم اور وقاریونس کو منتقل ہوا، اور بعدازاں دوسرے فاسٹ بولروں نے بھی یہ ہنر سیکھ کر کمالات دکھائے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد سرفراز نواز کرکٹ سے متعلق معاملات پر اپنی بے لاگ رائے کی وجہ سے ہمیشہ خبروں میں رہے ہیں۔ خصوصاً میچ فکسنگ کی لعنت کے خلاف ہمارے ہاں سے جو آوازیں اٹھیں، ان میں شاید بلند ترین آواز انہی کی تھی۔ اس کے علاوہ متحدہ قومی موومنٹ کے پلیٹ فارم سے سیاست میں بھی سرگرم ہوچکے ہیں۔ ہمارے سلسلے ''بھلا نہ سکے'' کے لیے ان کے بیان کردہ تین واقعات کچھ یوں ہیں۔
1977میں دورۂ ویسٹ انڈیز کے دوران ایسا واقعہ پیش آیا، جس کو میں کبھی بھلا نہیں پایا۔ جمیکا میں رات کے کھانے میں فہرست طعام (menu) پیش کی گئی تو اس میں "Mountain Chicken" کے نام سے بھی ایک ڈش موجود تھی۔ میں اس ڈش کی حقیقت سے آگاہ تھا، مگر وہ جونیئر کھلاڑی مثلاً جاوید میانداد اور ہارون رشید وغیرہ جو پہلی بار دورہ کررہے تھے، انہوں نے سمجھا کہ مائونٹین چکن تو کوئی کافی بڑی ڈش ہوگی، اور اس کا آرڈر دے دیا۔
جب وہ سیر ہوکر کھاچکے تو میں نے ان سے کہا کہ جانتے ہو، کہ تم لوگوں نے کیا کھایا ہے؟ وہ حیرت سے مجھے تکنے لگے تو میں نے بتایا کہ مائونٹین چکن تو مینڈک ہوتا ہے۔ اور یہ ادھر کی خاص ڈش ہے، اس پر وہ سمجھے کہ شاید میں مذاق کررہا ہوں۔ اپنی تَسلّی کے لیے، انہوں نے ویٹر کو بلایا، تو اس نے میری بات کی تصدیق کی اور انہیں بتایا کہ مائونٹین چکن بہت بڑا مینڈک ہوتا ہے۔ یہ جان کران کھلاڑیوں کی طبعیت خراب ہونا شروع ہوگئی اور وہ باتھ روم میں جاکر الٹیاں کرنے لگے۔ یہ کھلاڑی اس ڈش کے نام سے دھوکا کھاگئے تھے۔
میچ فکسنگ کے خلاف میں نے ہمیشہ آواز اٹھائی ، جس پر مجھے سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی ملتی رہی ہیں۔ سال دو سال قبل میں اسلام آباد کے ایک پارک میں چہل قدمی کررہا تھا کہ چند افراد نے مجھ پر بندوقیں تان لیں اور کہنے لگے کہ پیچھے نہیں دیکھنا اور سیدھے چلتے رہو۔ تھوڑی دور جاکر انہوں نے مجھ سے درشت لہجے میں کہا کہ آیندہ میں میچ فکسنگ کے بارے میں زبان بند رکھوں ورنہ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اس واقعے نے مجھے ذہنی طور پر خاصا ڈسٹرب کیا، لیکن جوئے کی لعنت کے خلاف جو میرا عزم ہے۔ وہ کم زور نہیں ہوا اور میں ڈنکے کی چوٹ پر اپنا موقف بیان کرتا رہا۔ اس واقعے کی میں نے ایف آئی آر بھی درج کرائی، لیکن ذمے داروں کا اب تک کوئی تعین نہیں ہوا۔
1965ء کی پاک بھارت جنگ کا بھی میری کرکٹ سے تعلق ہے۔ کرکٹ کھیلنے کا شوق بچپن سے تھا، لیکن اعلیٰ سطح کی کرکٹ کھیلنے سے متعلق زیادہ نہیں سوچا تھا۔ میٹرک کرنے کے بعد والد کے ساتھ ان کی کنسٹرکشن کمپنی میں کام کرنے لگا۔ جس زمانے میں جنگ ستمبر شروع ہوئی تو اس وقت ہم گورنمنٹ کالج میں ایک تعمیراتی کام میں مصروف تھے۔ جنگ کی وجہ سے فنڈز منجمد ہوگئے، تو منصوبہ ختم ہوگیا۔ جب وقتی طور پر کرنے کو کچھ نہیں رہا تو کرکٹ کی بنیاد پر میں نے گورنمنٹ کالج میں داخلہ لے لیا۔ یہاں میں نے بڑی شان دار کارکردگی دکھائی اور جلد میری بولنگ کا مقامی طور پر شہرہ ہوگیا۔ آہستہ آہستہ میں نے خود کو کرکٹ کے لیے وقف کردیا۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ 1965 کی جنگ نہ ہوتی، تو شاید میں کرکٹر نہ بن پاتا۔