’’الحاد سے اسلام تک‘‘

ڈاکٹر علی پولسن کے قبول اسلام کی ایمان افروز داستان.


Hassaan Khalid October 14, 2012
ڈاکٹر علی پولسن۔ فوٹو: فائل

بے شک اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ اگر انسان میں حقیقت جاننے کی سچی لگن اور تڑپ ہو، اور کھلے دل سے وہ غور وفکر کرنے پر آمادہ ہو، تو بالآخر وہ ہدایت کی روشنی ضرور پا لیتا ہے۔

ڈاکٹر علی پولسن جو کہ روس کی مسلم کمیونٹی کی نمائندگی کرتے ہیں، کی زندگی کی کہانی میں بھی یہ سبق پنہاں ہے۔ ان کا قبول اسلام کا سفر بہت دلچسپ اور ایمان افروز ہے۔ وہ ماسکو میں 1956ء میں پیدا ہوئے۔ 1978ء میں ماسکو یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ میں انھوں نے اپنی گریجویشن کی تعلیم مکمل کی۔ انھوں نے ایک ایسے خاندان میں آنکھ کھولی جو کہ مذہب پر یقین نہیں رکھتا تھا۔ عیسائیت قبول کر کے چرچ میں پادری بن گئے۔ لیکن تلاش حق کی لگن میں بالآخر 1999ء میں انھوں نے اسلام قبول کر لیا۔ یہاں ہم ان کی کہانی کو ان کے اپنے الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔

''میں نے ایک غیر مذہبی گھرانے میں آنکھ کھولی' جو خدا پر یقین نہیں رکھتا تھا۔ میں غیر مذہبی ماحول میں پروان چڑھا' لیکن بچپن سے ہی میں دل میں ''نامعلوم'' خدا پر یقین رکھتا تھا' جو ہمیشہ میری مدد کر سکتا ہے۔ میں نے ماسکوٹیسٹ یونیورسٹی کے شعبہ فلاسفی میں خاص طور پر اس لئے داخلہ لیا کہ سچائی کو جان سکوں۔

70ء کی دہائی میں ماسکو میں کمیونسٹ نظریے کا کوئی حقیقی متبادل موجود نہیں تھا' سوائے آرتھوڈاکس چرچ کے اور انیس سال کی عمر میں، میں نے پہلی دفعہ چرچ کی دہلیز پار کی۔ یہ کسی خاص مذہب کا دل سے آزادانہ انتخاب نہ تھا' کیونکہ کسی چیز کا ''انتخاب'' کرنے کے لئے موازنہ کرنا پڑتا ہے' اور میرے پاس کوئی ایسا نظریہ نہیں تھا جس سے میں آرتھوڈاکس کا موازنہ کرتا۔ میرا یہ عمل صرف جھوٹے نظریات پر استوار مادہ پرستانہ زندگی سے انکار تھا۔ چنانچہ میں چرچ پہنچ گیا' جس کا دروازہ کھلا تھا۔

پہلی کوشش میں مجھے وہاں چوکیدار کی ملازمت بھی نہ مل سکی۔ دوسری کوشش میں کہا گیا کہ مجھ پر ابھی تک مارکسزم اور لینن ازم کے کمیونسٹ نظریات کے اثرات موجود ہیں' اور تیسری دفعہ مجھے عیسائیوں کی تربیت گاہ میں داخلے کی اجازت مل سکی۔ 1983ء میں میں پادری بن گیا۔ اس وقت میرے لئے یہ عہدہ' مادہ پرستی کے خلاف روحانی اور فکری جدوجہد کی ایک علامت کا درجہ رکھتا تھا۔ ماسکو میں' جہاں میں رہتا تھا' حکومت نے مجھے کام کرنے کی اجازت نہ دی۔ چنانچہ مجھے وسطی ایشیائی ریاستوں کا رخ کرنا پڑا۔

میں اپنے آپ کو ایک ایسا شخص سمجھتا تھا جو خدا کی طرف سے مادہ پرستی کے خلاف جنگ لڑنے پر مامور ہے۔ تاہم روحانیت اور فکری ایمان کی دنیا میں خود کو وقف کر دینے کی بجائے' مجھے چرچ میں تو ہم پرست لوگوں کی طرف سے مختلف رسومات کی ادائیگی کا حکم ملتا۔ اگرچہ میں اس بات کا ادراک کر سکتا تھا کہ یہ رسومات اپنی بنیاد میں' ان لوگوں کی روایات سے مختلف نہیں جو مذہب پر یقین نہیں رکھتے۔ لیکن میں ان رسومات کی ادائیگی سے انکار نہیں کر سکتا تھا کیونکہ یہ چرچ کی زندگی کا لازمی حصہ تھیں۔ میرے اندر اپنے ذاتی اعتقاد اور لوگوں کے لئے میرے مخصوص کردار' جو کہ میرے کام کا حصہ تھا' کے درمیان جنگ چل رہی تھی۔

وسطی ایشیا میں میرا مسلمانوں اور اسلام کے ساتھ پہلا تعارف ہوا۔ ایک دفعہ چرچ میں میری ملاقات ایک بوڑھے صحت مند تاجک سے ہوئی جس کے متعلق کہا جاتا تھا کہ وہ صاحب کشف شیخ ہیں۔ مختصر گفتگو کے بعد' انھوں نے اچانک مجھے مخاطب کر کے کہا: ''تم ایک مسلم کی سی آنکھیں رکھتے ہو' تم ضرور مسلمان بنو گے''۔ یہ بظاہر ایک ایسے شخص کی بات تھی' جو اس طرح کے مبہم اقوال کا عادی ہو۔ حتی کہ چرچ میں پادری کے سامنے اس طرح کی بات کرنا خطرناک ہو سکتا تھا۔ لیکن اس جملے نے میرے اندر کوئی مزاحمت پیدا نہ کی' بلکہ یہ بات میری روح پر نقش ہو گئی۔ اس وقت تک مجھے اسلام کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔

1985ء میں متعلقہ حکام کی حکم عدولی کرنے پر مجھ سے چرچ میں کام کرنے کا اجازت نامہ واپس لے لیا گیا۔ ایک دفعہ پھر میں نے جرمن زبان سے روسی زبان میں تراجم کر کے اپنے لئے روزی کا ذریعہ پیدا کیا۔ جب 1988ء میں گوربا چوف نے عیسائیت کے متعارف ہونے کے 1000 سالہ جشن کی اجازت دی تو ایسے تمام پادریوں کو ''معافی'' مل گئی' اور مجھے Kaluga کے علاقے میں ایک تباہ شدہ چرچ میں خدمات انجام دینے کی پیشکش کی گئی۔

1990ء میں مجھے محض حادثاتی طور پر Kaluzhsky کے لوگوں کے نمائندہ کی حیثیت سے رشین فیڈریشن میں ڈپٹی بنا دیا گیا۔ مجھے ڈیموکریٹس نے کمیونسٹ امیدوار کے مقابلے میں اس انتخاب میں دھکیلا تھا۔Kaluga کے لوگوں نے جب امیدواروں کی فہرست پر نظر دوڑائی تو ان کا کہنا تھا: ''باقی سب جائیں بھاڑ میں' Obninsk کے پادری کو ووٹ دینا چاہئے۔'' چنانچہ مجھے ووٹ دیا گیا۔ پھر مجھے روسی فیڈریشن کی مذہبی امور کی کمیٹی سپریم سویت کونسل کی چیئرمین شپ کے لئے امیدوار بنایا گیا۔ مجھے چیئرمین منتخب کر لیا گیا۔ ایک وکیل کے ساتھ مل کر میں نے روس کے ''مذہبی آزدی'' کے نئے قانون کا متن لکھا ،جس نے مختلف مذاہب کے ماننے والوں کو حقیقی آزادی دی۔ مذہبی آزادی کے نمونے کے طور پر کرسمس کے دن چھٹی کے اعلان کا فیصلہ کیا گیا۔

ہفتے کے اختتام پر میں عبادت کے لئے Obninsk کے چرچ میں آیا کرتا تھا۔ اس وقت الحادی نظریات کے خلاف ہماری جدوجہد کمزور ہو کر دوبارہ ماضی جیسی صورت حال کا شکار ہو چکی تھی۔ پہلی بات تو یہ کہ چرچ میں آ کر کسی ذہنی کشادگی کا احساس نہیں ہوتا تھا اور یہ صرف عمارت کی تعمیر تک محدود تھا' جہاں مذہبی رسوم کی ادائیگی ہوتی تھی اور آمدنی کا ذریعہ تھا۔ چرچ کے نظام نے پادریوں کو عام لوگوں پر اپنی وہ انتظامی طاقت لوٹا دی تھی، جو انھوں نے 1917ء میں انقلاب کے بعد کھوئی تھی۔ میں محسوس کرنے لگا تھا کہ ایک پادری خدا کا پیغام پہنچانے پر مامور نہیںہے۔ بلکہ وہ مذہبی عبادات و رسومات کرانے کے لئے مخصوص ہے۔

چنانچہ 1991ء میں میں نے رضا کارانہ طور پر ریاست کی طرف سے چرچ کی ملازمت چھوڑ دی۔ 1993ء میں سپریم کونسل کے ختم ہونے پر چرچ کے اسٹاف کی حیثیت سے میں واپس چرچ میں نہیں گیا، اگرچہ مجھے ماسکو میں ان خدمات کے لئے پیش کش کی گئی تھی۔

میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے ایک وقفے کی ضرورت ہے' تاکہ میں اپنے تناظر میں دنیا اور خود کو سمجھ سکوں۔ میں نے چرچ کی تاریخ اور عیسائیت کے بنیادی مآخذ کو پڑھنا شروع کیا۔ اسے پڑھ کر میرے دل میں عیسائی روایات کے متعلق شکوک و شبہات پیدا ہونے لگے اور میں اس نتیجے پر پہنچا کہ عیسائیت میں کوئی ایسی ایک کتاب نہیں ہے، جو دعویٰ کر سکے کہ یہ فی الواقع خدا کے اپنے الفاظ پر مشتمل ہے۔ 1995ء میں میں مکمل طور پر اس بات کا ادراک کر چکا تھا اور اس وقت سے میں نے چرچ کی تمام عبادات میں شمولیت ترک کر دی۔

تاہم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق عیسائیوں کی تربیت گاہ میں سکھائی جانے والی روایات نے مجھے خدا کی وحدانیت کے سادہ اصول کو سمجھنے سے باز رکھا۔ میں ابھی تک اسلام کی تعلیمات سے آگاہ نہیں تھا۔ قرآن کے ترجمے کے مطالعے نے میرے لئے خدا کی وحی کا مفہوم مکمل طور پر بدل دیا۔ اسلام قبول کرنے کے متعلق میرے تمام خدشات اس وقت مکمل طور پر دور ہو گئے، جب میں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق قرآن کی تعلیمات پڑھیں۔

قرآن مجید میں خدا کی وحدانیت پر زور دیا گیا ہے۔ چنانچہ میں پیغمبر آخرالزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لے آیا' جن کے متعلق حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بشارت دی تھی کہ آپﷺ اللہ کا پیغام عام لوگوں تک پہنچانے کے لئے تشریف لائیں گے اور انسانیت کو حتمی سچائی سے روشناس کرائیں گے۔ قرآن مجید کی تعلیمات نے غلامی اور سماجی اونچ نیچ کا خاتمہ کر دیا۔ ایک مادہ پرست معاشرے میں انسانی حقوق اور آزادی کو' وقتی طور پر معاشرے میںاستحکام حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے' اس میں ابدی زندگی کا کوئی تصور نہیں' ایسے معاشروں میں ایسا کوئی پیمانہ نہیں جس پر آپ شخصی آزادی کی ان حدود کو جانچ سکیں جب وہ غیر اخلاقی پن' دہشت اور انار کی کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔

مسلمانوں کے نزدیک انسانی حقوق اور آزادی اللہ تعالیٰ کی طرف سے، جو کہ اس کائنات کا خالق ہے' انسان کو ودیعت کئے گئے ہیں تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا پر چلتا ہوا دائمی زندگی حاصل کرے۔دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔ یہ الفاظ اس آزادی کی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔

قرآن کے مطالعے کے بعد 1999ء میں ' میں نے اپنی بیوی کے ہمراہ اللہ اور اس کے رسولﷺ اور انبیاء علیہ السلام پر ایمان لانے کا اعلان کر دیا''۔

روس میں اسلام:

روس میں 1990ء میں مختلف مذاہب کے متعلق اسٹالن کا قانون ختم کر دیا گیا تھا اور رشین فیڈریشن کی سویت سپریم کونسل نے مذہبی آزادی کا نیا قانون متعارف کرایا۔ روس میں بسنے والے مسلمان اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو آزادانہ طور پر اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی آزادی حاصل ہے۔ جو اس سے پہلے انھیں کبھی حاصل نہیں تھی۔

ڈاکٹر علی پولسن کے مطابق ''ریاست انقلاب سے پہلے کے ماضی میں دوبارہ داخل نہیں ہونا چاہتی' جب ایک مذہب سب پر غالب تھا اور ریاست کا مذہب کہلاتا تھا۔ اس کے برعکس' اب سیکولر ریاست کا اصول متعارف کرایا گیا ہے۔ جس میں بسنے والے مختلف مذہبی گروہ اور شہری' سب قانون کی نظر میں برابر ہیں''۔

اگست 2012ء میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق روس کی 14 کروڑ 32 لاکھ افراد پر مشتمل آبادی میں سے 41 فیصد آرتھوڈاکس عیسائی' جبکہ 6.5 فیصد مسلمان ہیں۔

روسی مسلمانوں کی ملی شوری National Organization of Russian Muslisms (NORM) نے کھل کر سامنے آ کر اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کا فیصلہ کن قدم اس وقت اٹھایا' جب اس نے اسلام قبول کرنے والے روسی باشندوں کی نمائندہ تنظیم Pryamoi Put (راہ راست) کے ساتھ باہمی تعاون کا سمجھوتہ کیا۔ اسلام قبول کرنے والے روسی باشندوں کی اس تنظیم کے سربراہ ڈاکٹر علی پولسن ہیں' جبکہ NORM کے امیر ابو طالب (پیدائش نام Anatolv Stepchenko) ہیں۔ وہ وسطی سائبریا کے قصبے Omsk کے رہنے والے ہیں۔

جہاں کے میڈیا نے انھیں ''روسی طالبان'' کے طور پر ایک خوفناک شخصیت بنا کر پیش کیا ہے' جبکہ حقیقت میں وہ ایک سادہ اور ہمدرد انسان ہیں' جن کی آنکھوں سے مسرت جھلکتی ہے۔ انھوں نے تاجکستان میں 1990ء میں اسلام قبول کیا تھا' جہاں وہ قازقستان اور کرغیرستان کی سرحد پر وارنٹ آفیسر کے طور پر کام کرتے تھے۔ ان کے ماتحت افراد کی فہرست میں ایک تاجک بھی شامل تھا' جس کے ساتھ موسم سرما کی طویل شاموں میں انھوں نے عقیدے پر بحث کی۔

اس وقت تک ابو طالب نے مذہب میں دلچسپی لینا شروع کر دی تھی اور عیسائیت' بدھ مت' ہندوازم کی تعلیمات کے بارے میں پڑھنے لگے۔ اس وقت انھوں نے دین اسلام کو سنجیدہ نہیں لیا' لیکن جب انھوں نے قرآن کو پڑھنا شروع کیا تو اپنے طرز زندگی کو بدلنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اسلام قبول کر لیا۔ اس وقت وہ اپنے سابقہ ماتحت کو ملنے آئے ہوئے تھے۔ جہاں تاجک مسلمانوں کے کردار کی پاکیزگی اور مہمان نوازی نے ان کے دل پر گہرا اثر چھوڑا۔ بعدازاں ابو طالب کے بیٹے اور بیٹی نے بھی اسلام قبول کر لیا۔ وہ Omsk میں مسلمانوں کی مقامی جماعت کے سربراہ بن گئے' جس کا کام اسلام کی تعلمیات کو عام لوگوں تک پہنچانا تھا۔

NORM کی بنیاد خارون الروسی (وادم سدروف) کی سرکردگی میں ماسکو سے تعلق رکھنے والے چند مسلمان نوجوانوں نے رکھی تھی۔ سب سے زیادہ تجربے کا حامل ہونے کی وجہ سے ان نوجوانوں نے ابو طالب سے درخواست کی کہ وہ ان کی رہنمائی کریں۔ ڈھلتی عمر کے باوجود' انھوں نے اس تنظیم کے مقاصد سے جوش و ولولہ حاصل کیا اور سائبریا کے دیہاتوں میں مسلمان باشندوں کی تلاش شروع کردی۔ نتیجتاً' قومی اسلامی تحریک کے تقریباً 50کارکنوں نے اس نئی تنظیم میں شمولیت اختیار کرلی۔

روس میں مسلمانوں کی سیاسی قوت کا اندازہ لگاتے ہوئے Volge Federal District میں صدارتی سفیر Sergei kirlenko کے زیر نگرانی ''روسی اسلام'' کے خفیہ نام سے ایک پراجیکٹ کا آغاز کیا گیا تھا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ روسی ماڈل کا مخصوص '' سیاسی اسلام'' متعارف کرایا جائے' جو کہ عرب' ترک اور ایرانی مراکز سے الگ ہو اور روس کے ''نسلی مسلمانوں'' کو سچا محب الوطن روسی بنایا جا سکے۔ تاہم اس پراجیکٹ کو بند کر دیا گیا۔ اب روسی مسلمان، روس کی سیاسی اسٹیبلشمنٹ پر انحصار کیے بغیر خود سے اپنے آپ کو منظم کر رہے ہیں۔ NORM نے اپنی تنظیم کو غیر سیاسی اور اعتدال پسند اصول پر چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔

اب ڈاکٹر علی پولسن کو NORM کا نائب امیر بنایا گیا ہے۔ NORM اور ماسکو سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی تنظیم Pryamoi Put (راہ راست) کے الحاق کے موقع پر یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ NORM کو غیر سیاسی بنیادوں پر پورے روس میں مسلمانوں کے حقوق اور مفادات کو محفوظ بنانے کے لئے استعمال کیا جائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں