اپنی قسمت خود سنواریں
اس مقصد کے لیے اس نے ایک فٹ پاتھ پر صرف ایک میز رکھ کر اپنے کام کا آغاز کیا
ISLAMABAD:
الائیڈ کولپرنارتھ کیرولینا میں وائٹ ویلی کے نزدیک ایک فارم پر پیدا ہوا تھا، اس کے خاندان کے مالی حالات ایسے تھے کہ وہ رسمی تعلیم حاصل نہیں کرسکا تھا اور سب سے کٹھن بات یہ رہی کہ اسے شروع ہی سے اپنی عملی زندگی کا آغاز محنت اور جدوجہد سے کرنا پڑا وہ ابھی نوعمر ہی تھا کہ ایک خطرناک بیماری میں مبتلا ہوگیا ۔
جس کی وجہ سے اس کے جسم کا کمر سے نیچے والا حصہ مفلوج ہوگیا یہ ایک ایسا تکلیف دہ واقعہ تھا، جس نے اس کی زندگی کو اس نہج پر لاکھڑا کیا کہ اس کے پاس کوئی چارہ نہ رہا کہ وہ کسی بس اسٹاپ یا گلی کے نکڑ پر کھڑا ہوجائے اور اپنی دردناک داستان سنا کر بھیک مانگنا شروع کردے مگر اس باہمت لڑکے نے ایسا سوچنا بھی گناہ سمجھا اور اپنے چند دوستوں کی مدد سے ہنر سیکھنے والے ایک فلاحی ادارے میں داخلہ لینے میں کامیاب ہوگیا جہاں سے اس نے گھڑیاں ٹھیک کرنے کا کام سیکھا اور سیکھنے کے بعد ایک جگہ پر کام کا آغاز کردیا۔
اس مقصد کے لیے اس نے ایک فٹ پاتھ پر صرف ایک میز رکھ کر اپنے کام کا آغاز کیا ۔ان تمام مشکلات کے باوجود اس نے نہ تو کسی چڑچڑے پن کا مظاہرہ کیا نہ ہی بھیک مانگی بلکہ اپنی خوش اخلاقی اور حسن سلوک اور ایمانداری سے کام کرنے کی عادت کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں گھرکیا جس کی بدولت اسے کام ملنے لگا ۔الائیڈ کولپر کو مطالعے کا بہت شوق تھا اور اس مطالعے کی عادت نے اس کے اندر قوت برداشت اور اپنے مقصد میں کامیابی کی لگن پیدا کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ آہستہ آہستہ ترقی کی منازل طے کرتا ہوا ایک جیولری اسٹور کا مالک بن گیا۔
اس کے بعد اس نے ایک خوبصورت لڑکی سے شادی کرلی اور ایک خوشیوں بھری زندگی گزارنے کا آغاز کیا یہ اس کی بہت بڑی کامیابی تھی کسی شخص کے لیے اس سے بڑی کامیابی اور کیا ہوسکتی ہے کہ جو معذور ہو اور اس کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہ ہو بلکہ بھیک مانگنے کی نوبت ہو لیکن اس شخص نے اپنی خود اعتمادی قوت برداشت اور اپنے کام کی لگن کی وجہ سے ایسا کر دکھایا کہ سب کچھ حاصل کرلیا کہ سیکڑوں ملازمین اس کے پاس ہیں اور الائیڈ کولپر شکر ادا کرتا ہے کہ آج وہ اس قابل ہے کہ دوسروں کی مدد کرسکتا ہے وہ اپنے بچوں اور دوسرے ملازمین کو بھی سمجھاتا ہے کہ اس نے کبھی دوسروں کے رحم کے جذبے کو قبول نہیں کیا اس کا کہنا ہے کہ اپنی نعمتوں میں دوسروں کو بھی شریک کریں اس سے آپ کی اپنی دولت میں اضافہ ہوگا کمی نہیں ہوگی اور یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگ جو دوسروں کی خدمت کرتے ہیں کبھی کسی مسئلے کا شکار نہیں ہوتے۔
اکثر لوگوں کو شکایت رہتی ہے کہ ہم پریشان ہیں کسی نے جادو ٹونا کردیا ہے، بندش کروا دی ہے، چاروں طرف سے پریشانیوں نے گھیرا ہوا ہے، مالی ابتری ہے، بچے لاپرواہ اور غیر ذمے دار ہیں، باس سے نہیں بنتی، دوسرے لوگ خوشحال ہیں، ان کے بچے فرمانبردار اور ذمے دار ہیں، پیسہ ہن کی طرح برس رہا ہے یہ سب باتیں سوچ سوچ کے اچھا بھلا انسان مستقل درد سر میں مبتلا ہوجاتا ہے اور منفی سوچوں کا تسلسل اسے بیمار کردیتا ہے جس کی وجہ سے زبان میں تلخی آتی ہے۔
خوش اخلاقی ختم ہوجاتی ہے اور آہستہ آہستہ تنزلی کا سفر شروع ہوجاتا ہے ایسے حالات میں جب منفی رویے چاروں طرف سے حملہ آور ہوں ہر دوسرا شخص آپ کو خوشحال اور خوش قسمت نظر آئے اور اپنا آپ بدقسمتی کے جال میں جکڑا ہوا محسوس ہو تو ذرا اپنا چند لمحوں کے لیے محاسبہ کرلیجیے کہ کہیں ہمارے ہی قدم تو غلط نہیں ہیں دوسرے کے رویے سے دل برداشتہ ہونے کی بجائے مثبت رویے کو اپناکر اپنے آپ کو سکون پہنچائیں کیونکہ دانشمند لوگ وہ ہیں جوکہ اپنی خامیوں کو خود سمجھ کر اپنا احتساب کرتے ہیں اسی طرح اگر انسان اپنی ذات کو دوسروں کے لیے فائدہ مند بنانے کے طریقہ کار پر چل نکلے تو پھر کامیابی اس کے قدم چومتی ہی ہے ۔
اللہ سے شکوے، اپنے سے وابستہ لوگوں سے شکوے ان سب باتوں کو چھوڑ کر اگر خلق خدا کے فائدے کی سوچ کارفرما ہوگی تو پھر کسی دوسرے کی طرف دھیان دینے کا وقت ہی نہ ہوگا کہ کون کیا کر رہا ہے یا کیا کہہ رہا ہے آج اگر یہ سوچ پروان چڑھ جائے تو ہمارے ملک میں تبدیلی کا عمل آسکتا ہے سیاستدانوں، مفکروں، دانشوروں کو اللہ نے بہت کچھ دیا ہے کہ وہ لوگوں کی کایا پلٹ سکتے ہیں مگر ایسا تب ہو سکتا ہے جب یہ اپنی کایا پلٹ کرسکیں۔ آج میڈیا ہو یا عام زندگی میں لوگ ایک دوسرے کی طرف انگلیاں اٹھاتے ہی نظر آئیں گے کسی کی تعریف ہضم نہیں ہوتی کون کیا کر رہا ہے اس طرف تو ضرور نظر ہوگی مگر ہم کیا کر رہے ہیں اس طرف توجہ ذرا کم ہی ہوگی اور جب ایسا ہوگا تو بیماریاں بھی پھیلیں گی تفکرات بھی جنم لیں گے، بے برکتی بھی پیدا ہوگی سیکڑوں مسائل جنم لیں گے۔
اگر الائیڈ کولپر بھی حالات کا شکوہ کرتا اپنی بدقسمتی پر سیکڑوں آنسو بہاتا تو اسی طرح دنیا سے چلا جاتا کوئی بھی اسے نہ جانتا مگر اس نے اپنے خیالات اپنی مثبت سوچ اور محنت کے بل بوتے پر کتابوں میں اپنی جگہ بنائی اور دوسروں کے لیے بھی فائدہ مند ثابت ہوا۔