جوہری صلاحیت پر غیر ضروری طعنہ زنی
تمام مصائب و مشکلات اور بیرونی دباؤ کےباوجود 1998ء میں اپنے لیے عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت کہلانے کا درجہ حاصل کیا
ہم دنیا کی وہ واحد بد قسمت قوم ہیں جس نے تمام مصائب و مشکلات اور بیرونی دباؤ کے باوجود 1998ء میں اپنے لیے عالم ِ اسلام کی پہلی ایٹمی قوت کہلانے کا درجہ حاصل تو کر لیا لیکن اُسے اُس وقت سے اپنے ہی لوگوں کی طرف سے آئے دن سخت تنقید اور طعنہ زنی کا سامنا کرنا پڑتا رہا ہے۔
کوئی کہتا ہے جوہری توانائی اِس لیے حاصل کی گئی تھی کہ پاکستان کی حفاظت ہو یہاں تو خود اُس کی حفاظت کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور کوئی کہتا ہے کہ یہ کیسی ایٹمی قوت ہے جو اپنے ہاتھ میں کشکول تھامے ہوئے ہے اور کوئی کہتا ہے کہ لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے اور ایٹمی طاقت بنے پھرتے ہیں۔ یہ بات اگر کوئی غیر کہے تو سمجھا جا سکتا ہے، برداشت کیا جا سکتا ہے لیکن جب اپنے ہی لوگ اُٹھتے بیٹھتے ہر وقت اِسی طرح کی فقرے بازی کرتے رہیں تو اُن کی سوچ اور عقل پر کفِ افسوس ہی مَلا جا سکتا ہے۔
وہ جانتے بوجھتے کہ ہمیں ایک اسلامی مملکت ہونے کے ناتے اِس جرم کی پاداش میں کتنے مصائب کا سامنا رہا ہے وہ ایسی تنقید کر کے نجانے کسے خوش کر رہے ہوتے ہیں۔ اُنہیں چاہیے کہ عالمی تناظر میں اُن حالات کا بغور مطالعہ کریں جن میں رہتے ہوئے پاکستان جیسے کمزور اور ناتواں ملک نے یہ توانائی صرف اپنے بل بوتے پر حاصل کی ہے۔ اُسے کسی ملک کی طرف سے کوئی رہنمائی یا مدد فراہم نہیں کی گئی۔ بلکہ اُسے تو اِس جرم کی پاداش میں مختلف قسم کی بین الاقوامی پابندیوں کا بھی سامنا رہا ہے۔
پہلے پہل جب سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1974ء میں ہندوستان کے پہلے ایٹمی دھماکے کے بعد جب یہ تہیہ کیا کہ ہم بھی خطے میں طاقت کا توازن بر قرار رکھنے کے لیے یہ صلاحیت ہر قیمت پر حاصل کر کے رہیں گے خواہ اِس کے لیے ہمیں گھاس ہی کیوں نہ کھانی پڑے۔ اُنہوں نے دنیا کے سامنے اپنے ارادوں اور عزائم کا برملا اظہار کرتے ہوئے یہ اعلان کر دیا کہ ہم گھاس کھائیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔
بھٹو نے اُس وقت جو کچھ کہا وہ وقت کی ضرورت تھی۔ ہمیں دنیا پر یہ باور کروانا تھا کہ ہم کوئی چھوٹی موٹی کمزور اور ڈرپوک قوم نہیں ہیں کہ بھارت کے اِس اقدام کو یوں آسانی سے ہضم کر جائیں۔ ہم باوقار طریقے سے دنیا میں سر اُٹھا کر جینا چاہتے ہیں۔ اگر آج ہندوستان ایٹم بم بنا سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں۔ ہماری قوم اپنا پیٹ کاٹ کر یہ قربانی ضرور دیگی۔ اِس کے بعد اُن کے ساتھ جو ہونا تھا وہ ہو کر رہا لیکن اُنہوں نے ہار نہیں مانی اور اُنہوں نے اپنے ارادوں کی تکمیل کے لیے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کی بنیاد بالاخر اپنے اُس دورِ حکومت میں ہی رکھدی۔ یہ ہوتے ہیں جیتی جاگتی قوم کے ارادے اور عزائم جن کے آگے پہاڑ بھی ریزہ ریزہ ہو جایا کرتے ہیں۔
بھٹو کے اِن ارادوں کو پایہ تکمیل تک اُن کے بعد آنے والی ہر حکومت نے پہنچایا، لیکن ایٹمی تجربات کا شرف حاصل کرنا میاں محمد نواز شریف کی قسمت میں لکھا ہوا تھا۔ جنرل ضیاء کو بڑے پُر سکون گیارہ سال ملے، اُنہیں اپنے دور میں عالمی قوتوں کا مکمل تعاون اور سپورٹ حاصل تھا۔ امریکا بھی اُن دنوں افغان جہاد کی وجہ سے ہماری بھرپور مدد کر رہا تھا۔ اگر وہ اُن دنوں پاکستان کو ایک تسلیم شدہ ایٹمی قوت کا درجہ دلا دیتے تو شاید دنیا کی جانب سے وہ ردِ عمل سامنے نہیں آتا جو 1998ء میں ہمارے جوہری تجربوں کے بعد سامنے آیا۔ مگر وہ یہ قومی خدمت سر انجام دینے کی ہمت نہ دِکھا سکے۔
بالآخر میاں صاحب نے یہ کر دکھایا اور بعد ازاں اپنی معزولی کی سزا بھی بھگت لی۔ اگر وہ چاہتے تو اِن دھماکوں کے بدلے آفر کی جانے والی بے تحاشہ مالی اعانت قبول کر کے اپنا اقتدار بچا سکتے تھے۔ لیکن اُنہوں نے قومی اور دفاعی اہمیت کے معاملے کو ذاتی مفاد پر ترجیح دیتے ہوئے یہ زبردست کام کر دکھایا۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ایٹم بم پاکستان کی حفاظت کے لیے بنایا گیا تھا مگر ہمیں خود اُس کی حفاظت کرنی پڑ رہی ہے۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارے ایٹم بم کو دنیا اسلامک بم کیوں کہتی ہے۔ اگر وہ یہ بات سمجھ لیتے تو پھر ایسی طعن و تشنیع سے یقینا باز رہتے۔ یا پھر وہ جانتے بوجھتے اپنی جوہری توانائی کا تمسخر اُڑا رہے ہوتے ہیں۔ قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ ایسی جلی کٹی باتیں کوئی عام اور ناخواندہ لوگ نہیں کر رہے ہوتے ہیں۔ اِن میں سے اکثریت ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جن کا تعلق پڑھے لکھے، سمجھدار اور ذہین طبقے سے ہوتا ہے۔
وہ دانش اور بصیرت رکھنے کے باوجود ایسی غیر مناسب باتیں کرتے ہیں جن سے یقینا پاکستان کے دشمنوں کو دلی خوشی اور مسرت و شادمانی کا موقعہ مل رہا ہوتا ہے۔ اپنے وطن کی ہتک اور بے عزتی کر کے وہ کس کی خدمت کر رہے ہوتے ہیں۔ جب کہ اُنہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ عراق کے ایٹمی پلانٹ پر حملہ کرنے والے کون تھے اور خود ہمارے ایٹمی پلانٹ کو کن کن ملکوں سے خطرہ ہے۔ اگر اُس کی حفاظت اِس طرح نہ کی جائے تو یہ پھر یہی لوگ ہماری حفاظتی تدابیر اور صلاحیتوں کی ناکامیوں پر اُنگلیاں اُٹھا رہے ہونگے۔ پاکستان آرمی اِس کی کسٹوڈین ہے اور وہی اِس کی حفاظت کی ضامن ہے۔ ہم اگر ذاتی طور پر اِس سلسلے میں آگے بڑھ کر کوئی مدد نہیں کر سکتے تو کم از کم اپنے رویوں اور بیانوں سے اُسے بدنام اور رسوا بھی نہ کریں۔
رہ گیا سوال کہ ایٹمی طاقت تو بن گئے ہیں لیکن کشکول ابھی ہاتھ سے چھوٹا نہیں اور یہ کہ یہ کیسی ایٹمی قوت ہے جہاں لوگوں کو پینے کا صاف پانی میّسر نہیں ہے۔ تو اِس کا جواب 1974ء میں بھٹو نے اُسی وقت دے دیا تھا جب اُنہوں نے اِس ملک کو ایک ایٹمی طاقت بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اُنہوں نے قوم کے حوصلے اور جذبے کو دیکھتے ہوئے اُس کی مرضی اور رضامندی سے یہ بلند بانگ دعویٰ کیا تھا کہ ہم گھاس کھائیں گے لیکن ایٹمی توانائی ضرور حاصل کریں گے۔ اب اگر مسائل و مصائب سے نمٹنے میں کچھ دشواریاں آ رہی ہیں تو پھر واویلا کیسا۔ کیا بھارت میں سب لوگوں کو پینے کا صاف پانی مل رہا ہے۔1974ء سے اب تک 40 برس ہو چکے ہیں۔ وہ کیا دنیا کے آگے امداد اور قرضوں کے لیے ہاتھ نہیں پھیلاتا رہا ہے۔
وہاں کے عوام کتنے آسودہ اور خوشحال ہو چکے ہیں۔ لیکن وہاں تو کسی نے اپنی ریاست کے خلاف ایسی بد گوئی یا بد زبانی نہیں کی۔ بلکہ اُنہوں نے تو ہر حال میں اپنے وطن کی کمزوریوں اور ناکامیوں پر پردہ ڈالے رکھا۔ وقتی مصیبتوں اور تکلیفوں کو ہنس کر سہنا ہی زندہ قوموں کے طور ہوا کرتے ہیں۔ ذرا غور کریں کہ ماضی میں اگر کچھ لوگوں کی غلطیوں اور کوتاہیوں کے سبب ہمیں آج مشکل حالات کا سامان ہے تو اِس کا یہ مطلب تو ہر گز نہیں کہ ہم اپنی قوم کا مورال ہی گراتے چلے جائیں۔
پینے کا صاف پانی تو آجکل ماڈرن اور ترقی یافتہ ریاستوں میں بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ وہاں کی ساری آبادی پیسوں سے خرید کر منرل واٹر پیا کرتی ہے۔ ہمارے یہاں تو پھر بھی 70 سے80 فیصد لوگ نلکے کا پانی ہی پیتے ہیں۔ اپنی معاشی اور معاشرتی کمزوریوں اور خرابیوں کو بار بار گنوا کر جوہری توانائی کو مطعون و ملعون کرتے رہنا کوئی مناسب اور درست طرز عمل نہیں ہے۔ ہماری یہی سوچ اور آشفتہ بیانی ہماری حبُ الوطنی پر شک و شبہات پیدا کرتی ہے۔ ہمیں اپنے رویوں اور طرز تکلم کو بدلنا ہو گا۔ بات بات پر قوم کی اب تک کی حاصل کردہ کامیابیوں پر اُنگلی اُٹھانا اور اُنہیں طعنہ زنی کا نشانہ بنانا کوئی حکمت و دانائی یا دانشمندی نہیں ہوتی۔ ہمیں اِس سے اجتناب اور پرہیز کرنا چاہیے۔ جوہری توانائی کے حصول پر شرمندہ اور افسردہ ہونے کی بجائے اُس پر فخر اور ناز کرنا چاہیے۔