بھارت سیکولر ریاست یا پھر ہندو ریاست

یہ کیسا سیکولر بھارت ہے جہاں پراپرٹی لینے کی شرائط میں شامل ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو پراپرٹی فروخت نہیں کی جائے گی۔


وزیراعظم بننے کے بعد مودی نے توا پنی زبان کو لگام دے دیا تاہم اُس کے وزراء اور دیگر نے اپنی زبانوں کے خنجر کو خوب تیز کیا ہوا ہے۔ فوٹو: رائٹرز

سیکولر ریاست کی آسان تعریف یہ ہے کہ وہ ریاست جو سرکاری طور کسی بھی مذہب کی، دین کی یا پھر لادینیت کی حمایت نہیں کرتی ہے اور سرکاری طور پر مذہب کے معاملے پر غیر جانبدار رہتی ہے۔

اگر ہم کاغذ کے اصولوں پر بھارت کو بطور سیکولر ریاست کی تعریف کے مطابق دیکھتے ہیں تو اِس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بھارت ایک سیکولر ریاست ہے لیکن عملی طور پر جو ہورہا ہے اُس کی روشنی میں بھارت کو دیکھنے کی کوشش کریں تو یہ کہنا کسی کے لیے بھی مشکل نہیں کہ بھارت ایک ہندو ریاست ہے۔ اس کے ہر رنگ میں ہندو مت واضح ہے اور اس کے ہر وصف میں جے رام کی بازگزشت سنائی دیتی ہے۔

میں نے گزشتہ تحریر میں بھارتی خواتین کی مجموعی صورتحال پر بات کی تھی اور آج بھارت کا ایک نیا رُخ آپ کے سامنے لارہا ہوں۔ بھارت میں اس وقت 22 کروڑ کے لگ بھگ مسلمان آباد ہیں اور اُن کی حالت زار کیسی ہے؟ اِس کا اندازہ آپ اِس ایک واقعے سے لگالیں کہ ممبئی میں ایک مسلمان صحافی خاتون ثناء جعفری رہتی ہیں۔ انہوں نے علوم ابلاغیات میں ڈگری لی اور نوکری کی تلاش میں نکل کھڑی ہوئی۔ اُن کا خیال تھا کہ اچھے نمبر حاصل کرنے کے بعد اُن کیلئے نوکری اتنا مسئلہ نہیں ہوگا، تاہم یہ ان کی بھول تھی اور نوکری کے حصول کیلئے اُن کو تقریباً ڈیڑھ سال تک جوتیاں تڑوانی پڑی۔ یہ ڈیڑھ سال اُن کیلئے بھیانک خواب تھا۔ وہ جہاں بھی جاتی تھی مذہبی تفریق اُن کا استقبال کرتیں۔ ثناء کی کوشش تھی کہ وہ اپنی عزت کو بچاتے ہوئے کسی نہ کسی طرح اس شعبے میں داخل ہوجائیں، تاہم اس مقصد کیلئے اُن کو بے شمار پاپڑ بیلنے پڑے۔

ثناء اِس وقت ایک خواتین کے میگزین کے ساتھ بطور نائب مدیر منسلک ہیں اور یہاں بھی اُن کو نوکری اس بنیاد پر ملی کہ کل 82 ملازمین میں صرف 21 ملازم مرد ہیں۔ فیس بک پر میرے ساتھ وائس کال میں انہوں نے واضح کہا تھا کہ سالار! آپ لوگ جنت میں رہتے ہیں، اللہ کا شکر ادا کریں کہ اللہ نے آپ کو پاکستان دیا۔

یہ معاملہ صرف ثناء تک محدود نہیں بلکہ گزشتہ دنوں ممبئی میں ایک ایم بی اے پاس ذیشان علی کو کمپنی نے صرف اِس لیے نوکری دینے سے انکار کردیا کہ وہ مسلمان ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ میرٹ کے خلاف نوکری دیں۔ اگر ثناء یا ذیشان قابل نہیں تو آپ بے ججھک نوکری نہ دیں لیکن صرف اِس لیے نوکری نہ دینا کہ وہ مسلمان ہیں، یہ سراسر زیادتی ہے۔

یہ بھی عین ممکن ہے کہ مجھے اور آپکو ثناء اور ذیشان کے واقعات پر یقین نہ آئے اور میری تو خواہش ہے کہ یہ سب من گھڑت ہی ہو لیکن کیا کریں اُن بیانات کا جو بھارت حکومت کے کرتا دھرتاوں کی طرف سے بار بار سامنے آتے ہیں۔ کیونکہ بھارتی سرکار کے بیانات کو دیکھیں تو ہمیں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مودی سرکار کی نیت کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ مودی کی سرکار نہ صرف پاکستان مخالف ہے بلکہ یہ اسلام مخالف بھی ہے۔

وزیراعظم بننے کے بعد مودی نے توا پنی زبان کو لگام دے دی ہے تاہم اُس کے وزراء اور دیگر نے اپنی زبانوں کے خنجر کو خوب تیز کیا ہوا ہے۔ مودی کے دامن پر بھی ابھی گجرات فسادات کے انمٹ نشانات موجود ہیں۔ جموں و کشمیر کے حوالے سے جو کچھ بھارتی فوج کی آشیر باد میں ہورہا ہے اُس کے حوالے سے تو انٹرنیشنل میڈیا میں بھی رپورٹ ہوچکا ہے اور مزید ہورہا ہے۔ اسی طرح گجرات، آسام، بہار اور اتر پردیش کی حالت زار بھی کسی سے ڈھکی ہوئی نہیں ہے۔

حال ہی میں ایک وزیر نے یہ تک کہا ہے کہ 2020ء یا 2025ء تک بھارت سے اسلام اور عیسائیت کا خاتمہ کردیا جائے گا۔ اس کے حوالے سے بہت سی خبریں بھی چلی تھیں تاہم وقت کی دھول نے اس خبر کو بھی چھپا دیا۔ ایک بھارتی وزیر نے اپنے حالیہ بیان میں پھر سے کہا ہے کہ جو کوئی بھی گائے کا گوشت کھائے بغیر نہیں رہ سکتا ہے تو وہ پاکستان کی طرف ہجرت کر جائے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا پاکستان میں کبھی کسی ہندو کو ایسا کہا گیا ہے کہ وہ کسی بھی وجہ سے بھارت ہجرت کر جائے۔

سندھ کے علاقے میں مظالم کی اطلاع پر تو ہماری ریاست نے خود ایکشن لیا تھا اور حالات کو نارمل کیا تھا۔ بھارت میں تو اب مسلمانوں کو واضح الفاظ میں نوکری نہیں دی جاتی ہے۔ سرکاری نوکریوں کیلئے تو بالحاظ آبادی مسلمانوں کا کوٹہ بھی بہت کم ہے اور وہ بھی مخصوص منظور نظر افراد کو ہی نوازا جاتا ہے۔

یہ کیسی سیکولر ریاست ہے جہاں پر ہندووں کے تعصب سے بچنے کیلئے مسلمان اداکار خود کو ''ہندو 'مسلم'' کا مجموعہ کہتے ہیں۔ جہاں پر شوبز کی نامور مسلمان جوڑی کو صرف مسلمان ہونے کی بنیاد پر ممبئی میں گھر نہیں لینے دیا جاتا ہے۔ یہ کیسا سیکولر بھارت ہے جہاں پر پراپرٹی لینے کی شرائط میں شامل ہوتا ہے کہ اگر آپ مسلمان ہیں تو پھر آپ کو پراپرٹی فروخت نہیں کی جائے گی۔ گزشتہ دنوں بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر نے پھر سے ہرزہ سرائی کی ہے کہ 'دوسرے ملکوں' کی جانب سے 'ممکنہ' ہشت گردی روکنے کیلئے بھارت بھی دہشت گردی کا سہارالے گا۔

سری لنکن ٹیم پر حملے کے حوالے سے اہل دانش آج بھی بھارت کی جانب شک کی انگلیاں اٹھاتے ہیں اور بھارتیوں نے اپنے بیانات سے اس شک کی ہنڈیا میں مزید جوش دیا ہے۔ حال ہی میں چھ سال کے بعد پاکستان میں کرکٹ کی بین الاقوامی سرگرمیاں دوبارہ سے شروع ہوئی ہیں اور اُمید ہے کہ پاکستان کے ویران میدان آباد ہوجائیں گے۔ دنیا نے اس امر پر مسرت کا اظہار کیا ہے تاہم ہمارے پڑوسی نے غم ہی دکھایا ہے اور تو اور سنیل گواسکر نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر پاکستان کے ساتھ کرکٹ سیریز ہوتی ہے تو چوٹی کے بھارتی کھلاڑی پاکستان نہیں جائیں گے۔

مقام افسوس ہے ہمارے ہمسائیوں کیلئے جو چاہتے ہیں کہ پاکستان کی جانب سے گلاب آئیں لیکن ہمیں ہمیشہ اُن کی طرف سے کانٹے ہی ملے ہیں۔ یہ کس قسم کا رویہ ہے؟ بھارت خود ہی فیصلہ کر لے کہ وہ ہندو اسٹیٹ ہے یا پھر سیکولر اسٹیٹ ہے؟ اگر تو سیکولر اسٹیٹ ہے تو پھر مذہب کے معاملات کو ایک طرف رکھ کر ریاستی معاملات پر توجہ دے۔ اپنے ملک میں دیگر مذاہب کے لوگوں کو عزت دے، اُن کی املاک اور جائیدادوں کی حفاظت کرے، اُن کی مساجد، چرچ، گرد واروں کی حفاظت کرے، اور سب سے بڑھ کر اُن کی جانوں کی حفاظت کرے۔ انٹرنیٹ کے عام ہوجانے کے بعد دنیا حقیقی معنوں میں 'عالمی گاوں' کا درجہ اختیار کرچکی ہے اِس لیے اصل چہرہ چھپانا تقریباً ناممکن ہوچکا ہے لہذا فیصلہ بھارت کو ہی کرنا ہے کہ وہ ایک سیکولر ریاست ہے یا پھر ہندو ریاست۔

[poll id="444"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔