اوباما بمقابلہ رومنی۔۔۔۔اگلا امریکی صدر کون

معیشت ، سوئنگ اسٹیٹس اور ہسپانوی ووٹ ایک بار پھر اہم کردار ادا کریں گے.


Muhammad Akhtar October 14, 2012
فوٹو: فائل

نومبر 2012ء قریب ہے۔یہ وہ مہینہ ہے جب امریکی عوام فیصلہ کریں گے کہ انھوں نے دوسری ٹرم یعنی اگلے چار سال کے لیے بھی ڈیموکریٹ اوباما کو ہی امریکا کا صدر رکھنا ہے جو کہ ملکی تاریخ کے پہلے سیاہ فام صدر ہیں۔ یا پھر وہ اوباما کے بجائے ری پبلکن مٹ رومنی کے سر پر صدر امریکا کا تاج سجائیں گے۔الیکشن مہم چل رہی ہے اور بظاہر دونوں میں سخت مقابلے کی فضا ہے۔

امریکا کے صدارتی الیکشن ہر چار سال بعد نومبر کے پہلے عشرے میں ہوتے ہیں۔ الیکشن کا عمل چار سے دس نومبر کے دوران مکمل ہوتا ہے۔اس سال الیکشن کا عمل 6نومبر سے شروع ہونا قرار پایا ہے جو اگلے چند دنوں میں مکمل ہوجائے گا ا ور اوباما یا رومنی میں سے ایک ان میں کامیاب قرار پائے گا۔اوباما کی کامیابی کی صورت میں یہ ان کی چار سال مدت کی دوسری اورآخری ٹرم ہوگی جبکہ رومنی کے فتح یاب ہونے کی صورت میں وہ اپنی پہلی ٹرم کا آغاز کریں گے۔ پری الیکشن سروے ، جائزوں ، مباحث اور تقاریر کا سلسلہ جاری ہے۔

اب تک کے رائے عامہ کے جائزوں میں اوباما کا پلڑا ہی بھاری ہے لیکن فرق بہت کم دکھائی دیتا ہے اور پنڈتوں کا کہنا ہے کہ اصل فیصلہ وہ عوامی موڈ کرے گا جو عین ووٹ ڈالتے ہوئے امریکی ووٹروں کا ہوگا۔دوسری جانب اوباما اور رومنی کے درمیان بدھ تین ستمبر کو ہونے والے پہلے ٹی وی مباحثے کے دوران مبصرین نے رومنی کو اس بحث میں فتح یاب قرار دیا۔مباحثے میں مٹ رومنی نے اوباما کی معاشی پالیسیو ںکو تنقید کا نشانہ بنایا جبکہ اوباما نے اپنے مدمقابل کو وعدہ خلافی کامرتکب قرار دیا۔

امریکی صدارتی الیکشنز کے جو ٹرینڈز سمجھے جاتے ہیں،ان کے مطابق کئی ریاستوں کے بارے میں یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ ایک مخصوص جماعت کو ہی ووٹ دیں گی لہٰذا ایک مرتبہ پھر صدارتی امیدواروں کا انحصار ان ریاستوں کے ووٹوں پر ہوگا جو ''سوئنگ اسٹیٹس'' (swing states)کہلاتی ہیں ۔ یہ وہ ریاستیں ہیں جنہیں الیکشن کا اصل میدان کہا جاتا ہے۔انتخابی جائزہ کے مطابق اس سال امریکی صدر کے عہدے کے لیے کانٹے دار مقابلے کی توقع ہے۔لیکن اصل بات یہ ہے کہ اوباما کو ان ریاستوں میں برتری حاصل ہے جنہیں مقابلے کا اصل میدان کہا جاتا ہے۔

امریکا میں ریاستوں کے الیکٹرل کالج ووٹ ان کی آبادی یا سینٹ اور ایوان نمائندگان کی نشستوں کے مطابق ہوتے ہیں اور یوں کچھ ریاستیں اپنی آبادی کے اعتبار سے زیادہ اہمیت اختیار کر جاتی ہیں جیسا کہ کیلی فورنیا ریاست ہے۔ کیلی فورنیا کی کل آبادی تین کروڑ ستر لاکھ سے زائد ہے اور یوں الیکٹرل کالج میں اس کے ووٹوں کی تعداد 55 ہے۔ اس کے مقابلے میں مونٹانا ریاست کی آبادی صرف دس لاکھ ہے اور اس کے پاس الیکٹرل ووٹوں کی تعداد صرف تین ہے۔صدر منتخب ہونے کے لیے 280 ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

اس بار بھی امریکا کے صدارتی الیکشن میں جو ریاستیں فیصلہ کن کردار ادا کریں گی ان میں وسکونس (10 ووٹ)، ورجینیا (13 ووٹ) ، پنسلوانیا (20 ووٹ)، اوہائیو (18 ووٹ)، شمالی کیرولینا (15 ووٹ)، نیومیکسیکو(5 ووٹ)، نیوہمپشائر (4 ووٹ)، نواڈا( 6 ووٹ)، مینی سونا (10 ووٹ)، مشی گن (16 ووٹ)، آئیوا (6 ووٹ)، فلوریڈا(29 ووٹ) اور کولوریڈو (9 ووٹ ) شامل ہیں۔

اس وقت امریکا کو جن بڑے بڑے مسائل کا سامنا ہے ، ان میں ملکی معیشت سب سے بڑا ایشو ہے ۔ ایک سروے کے مطابق اسی فیصد امریکی اسے سب سے بڑا مسئلہ کہتے ہیں۔گذشتہ لگ بھگ سو اتین سال کے دوران امریکا میں بیروزگاری کی شرح آٹھ فیصد تک رہی ہے اور معیشت کو سوا آٹھ ارب کا نقصان ہوچکا ہے۔ راسموسن کے سروے کے مطابق روزگار اس مسئلے کا ہی حصہ ہے ۔ اس سے نہ صرف بیروزگار متاثر ہوں گے بلکہ جو لوگ پہلے ہی ملازمت کررہے ہیں ان کو بھی ملازمتوں سے محروم ہونا پڑے گا۔راسموسن کے مطابق امریکیوں کو نہیں لگتا کہ ان کی حالت پہلے سے بہتر ہوئی ہے یا خراب ، اس لیے معیشت کا مسئلہ الیکشن میں اہم کردار ادا کرے گا۔

امریکا کے الیکشن میں ، جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ، کچھ ریاستیں ایسی ہیں جنہیں ''سوئنگ اسٹیٹس'' یا ڈانوا ڈول ریاستیں کہا جاتا ہے کیونکہ ان ریاستوں میں کسی مخصوص پارٹی کے لیے حمایت کے بجائے ووٹروں کے فیصلے بدلتے رہتے ہیںجس سے الیکشن پر گہرا اثر پڑتا ہے۔الیکشن میں امریکا دو حصوں میں بٹ جاتا ہے ۔ ایک وہ جہاں انتخابی سرگرمیاں حاوی رہتی ہیں اور دوسرا جہاں زندگی معمول کے مطابق چلتی ہے۔

دراصل امریکا کی زیادہ تر ریاستیں یا تو ری پبلکن یا ڈیموکریٹک پارٹی کی حامی ہیںلیکن دوسری طرف ایسی ریاستیں جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے یعنی سوئنگ ریاستیں،ان کے فیصلے بدلتے رہتے ہیں۔ اوہائیو اس کی اہم مثال ہے جہاں بیروزگاری کی شرح قومی شرح سے کم ہے۔اس ریاست کا ریکارڈ رہا ہے کہ اس نے جس امیدوار کو ووٹ دیا ، اسی نے الیکشن میں فتح حاصل کی۔اوہائیو کے کل اٹھارہ الیکٹرل ووٹ ہیں جس کی وجہ سے یہ الیکشن کے نتائج پر بطور خاص اثرانداز ہوتی ہے۔

ہرسال کی طرح اس سال بھی ہسپانوی ووٹ اہم کردار ادا کریں گے۔ امریکا میں ہرسال نئے پچاس ہزار ہسپانوی ووٹ بنتے ہیں جس کی وجہ سے یہ کمیونٹی بہت اہم ہے۔ اعدادوشمارکے مطابق امریکا میں ہسپانوی لوگوں کی آبادی پانچ کروڑ کے لگ بھگ ہے جو کہ امریکا کی آبادی کا تیرہ فیصد ہے اور آئندہ بیس سال تک یہ شرح بائیس فیصد تک پہنچ جائے گی۔ہسپانوی فیکٹر کے حوالے سے یہ امریکی تاریخ کا پہلا الیکشن ہے جس میں دونوں امیدواروں نے ہسپانوی ٹی وی کے امیگریشن سے وابستہ پالیسیوں کے پروگرا م میں حصہ لیا جس سے ہسپانوی ووٹ کی اہمیت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔

ایک لاطینی ماہر گیبرئل سانچز کا کہنا ہے کہ گذشتہ الیکشن میں اوباما کو اڑسٹھ فیصد ہسپانوی یا لاطینی ووٹ ملے تھے اور توقع ہے کہ اس بار بھی اتنے ہی ملیں گے۔مٹ رومنی امیگریشن کے حوالے سے سخت پالیسی رکھتے ہیں جس کی وجہ سے انھیں ہسپانوی ووٹ کے حوالے سے نقصان ہوسکتا ہے حالانکہ ری پبلکن پارٹی کے سرکردہ رہنمائوں نے انھیں کئی بار اشارہ کیا کہ وہ اس حوالے سے زیادہ بات نہ کریں لیکن رومنی یہ غلطی دہراتے رہے۔اس کے علاوہ خارجہ پالیسی کے معاملات بھی الیکشن پر اثرانداز ہوں گے ۔ جو لوگ اوباما کی خارجہ پالیسی سے اختلاف رکھتے ہیں یا اس کے بہت زیادہ خلاف ہوچکے ہیں ، ووٹ پر اثرانداز ہوں گے۔

حالیہ دنوں میں لیبیا میں امریکی سفیر کرسٹوفر سٹیونز کے مظاہرین کے ہاتھوں قتل کے بعد اوباما کو سخت تنقید کا سامنا ہے اور ان پرالزام لگایا جارہا ہے کہ ایران حامی اور اسرائیل مخالف ان کے رجحانات کے باعث ایسے نتائج بھگتنا پڑ رہے ہیں۔اس کے علاوہ مشرق وسطیٰ میں ''بہار عرب'' کے علاوہ افغانستان ، کیوبا ، وینزویلا اور کئی ملکوں کے حوالے سے امریکی پالیسیاں بھی الیکشن پراثرانداز ہوں گی۔اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پوری دنیا کی نظریں اس بات پر لگی ہوئی ہیں کہ امریکا کا اگلا صدر کون ہوگا کیونکہ امریکی صدر کی پالیسیوں کا اثر پوری دنیا پر ہوتا ہے۔

رائے عامہ کے جائزے کیا کہتے ہیں ؟

رائے عامہ کے اب تک کے جائزے اوباما کو رومنی سے آگے قرار دیتے ہیں ۔حالیہ سرویز کے ایک سلسلے کے مطابق امریکی صدر بارک اوباما اپنے ری پبلکن مدمقابل مٹ رومنی سے آگے جاتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ انھوں نے چند اہم ریاستوں میں اپنی پوزیشن کو بہتر بنالیا ہے۔

تاہم رومنی کے ساتھی ان جائزوں سے پریشان دکھائی نہیں دیتے اور ان کا کہنا ہے کہ وہ ان جائزوں سے قطعاً فکرمند نہیں۔گیلپ اور بلوم برگ کے حالیہ جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ اوباما رومنی سے چھ پوائنٹس آگے ہیں جبکہ نیشنل جرنل کے جائزے کے مطابق وہ رومنی سے سات پوائنٹ کی سبقت پر ہیں ۔ ایک اور پولیٹیکو نامی ادارے کے سروے کے مطابق امریکی صدر تین پوائنٹ آگے ہیں۔

صرف راسموسن کے سروے میں اوباما اور رومنی کے درمیان برابر کا مقابلہ دکھایا گیا ہے۔ان تمام جائزوں کا ریکارڈ مرتب کرنے والے ادارے رئیل کلیئر پولیٹکس کے مطابق اگر ان تمام جائزوں کی اوسط نکالی جائے تو اوباما رومنی سے صرف چار پوائنٹس آگے ہیں۔

لیکن اوباما کے لیے اصل مثبت پہلو ''فیصلہ کن'' ریاستوں میں ان کی مقبولیت کی شرح میں پچاس فیصد سے زائد اضافہ بیان کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے الیکشن میں ان کی مہم کو بھی فائدہ ہور ہا ہے۔ایک اور پرائیویٹ سروے میں کہا گیا ہے کہ فلوریڈا ریاست میں اوباما کو رومنی پر چوالیس کے مقابلے میں ترپن فیصد کی برتری حاصل ہے۔

دوسری جانب اوہائیو ریاست جس کے بغیر کوئی بھی ری پبلکن کبھی صدر نہیں بن سکا ، وہاں پر اوباما کو رومنی پر تینتالیس کے مقابلے میں ترپن فیصد کی شرح سے برتری حاصل ہے۔

امریکی اخبارات کے جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ اوباما رومنی پر اپنی برتری کو مسلسل بڑھا رہے ہیں اور ریاست میں تقریباً ہر بڑے ایشو پر رومنی کو پیچھے چھوڑ رہے ہیںحالانکہ سروے میں نصف کے قریب شرکاء کا کہنا ہے کہ وہ اوباما کی حکومت سے مایوس ہوئے ہیں۔

کوئنی پائک یونیورسٹی پولنگ انسٹی ٹیوٹ کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر پیٹر برائون کا کہنا ہے کہ دونوں امیدواروں کے درمیان بڑے فرق کی وجہ صرف گذشتہ ہفتے رومنی کی خراب پوزیشن نہیں ہے۔انھوں نے کہا کہ اوہائیو اور فلوریڈا میں ووٹر اس مخمصے میں پھنسے ہوئے ہیں کہ آیا ان کا ملک اور وہ اور ان کے خاندان گذشتہ چار سال کے مقابلے میں اب بہتر حالت میں ہیں یا ان کی حالت خراب ہوئی ہے۔

ادھر سی این این کو ایک انٹرویو میں رومنی کا کہنا ہے کہ وہ جائزوں سے خوف زدہ نہیں۔ان کاکہنا تھا کہ جائزے اوپر نیچے ہوتے رہتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ مجھے وہ سپورٹ حاصل ہے جو الیکشن ڈے کے موقع پر صدر بننے کے لیے درکار ہوتی ہے۔دوسری جانب رومنی کے پولیٹیکل ڈائریکٹر رچ بی سون کا کہنا ہے کہ جائزے تو صرف جائزے ہوتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ اوباما کے لوگ صرف جائزوں پرچلتے رہیں۔ لیکن وہ جائزوں پر نہیں چلیں گے۔انھیں اپنے اعدادوشمار پر بھروسہ ہے۔

امریکی عوام کی اکثریت نے یقین ظاہر کیا ہے کہ صدر اوباما رومنی کے مقابلے میں مڈل کلاس کے لیے زیادہ بہتر ہوں گے۔امریکا میں کیے جانے والے ایک سروے میں چھیاسٹھ فیصد امریکیوں نے یقین ظاہر کیاکہ اگر رومنی ملک کے صدر بنے تو یہ امیروں کے فائدے میں ہوگا۔سروے میں جب امریکیوں سے سوال کیا گیا کہ اوباما اور رومنی میں سے کون مڈل کلاس کے لیے بہتر ہوگا تو دو تہائی امریکیوں کا جواب تھا کہ کم آمدنی والے لوگوں کے لیے اوباما بہتر ہوں گے جبکہ صرف تیس فیصد امریکیوں نے رومنی کو بہتر قرار دیا۔اس طرح صرف بیس فیصد لوگوں نے جواب دیا کہ امیروں کے لیے اوباما بہتر ہوگا۔

علاوہ ازیں جب نسلی اور قومیتی اقلیتوں، نوجوانوں ، عورتوں اور سینئر شہریوں کے حوالے سے سوال کیا گیا کہ اقلیتوں کے لیے کون زیادہ مفید ہوگا تو ایک بڑے تناسب سے شرکاء نے اوباما کے حق میں رائے دی۔ اس طرح چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنے والوں کے لیے بھی اوباما کو ہی فائدے مند قرار دیا گیا۔شرکاء نے کہا کہ اوباما کا تعلق جاگیردار یا سرمایہ دار طبقے سے نہیں جو کہ ایک مثبت بات ہے۔

شرکاء کی اکثریت نے قرار دیا کہ ری پبلکن پارٹی مردوں کے لیے بہتر ہوگی جبکہ ستاسٹھ فیصد نے کہا کہ رومنی سرمایہ کاروں کے لیے فائدے مند ہوں گے۔سروے میں لگ بھگ ساڑھے چودہ سو افراد سے رائے لی گئی جس میں غلطی کی گنجائش مثبت یا منفی 'تین پوائنٹس رکھی گئی۔

پاکستانی نژاد امریکیوں اور مسلمانوںکی رائے

چارسال قبل صدر اوباما کی فتح کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ نوجوانوں نے انھیں بھاری تعداد میں ووٹ دیے تھے لیکن اس بار ان کی ڈیموکریٹک پارٹی کو نوجوان ووٹروں میں جوش وجذبہ پیدا کرنے میں دشواری کا سامنا ہے۔کچھ نوجوان شہری اگر ایک جانب ملک میں اقتصادی مسائل کی وجہ سے پریشان ہیں تو کچھ حال ہی میں منظر عام پر آنے والی اسلام مخالف فلم پر برہم ہیں مگر اس تمام صورت حال کے باوجود مسلمان نوجوان امریکی ڈیموکریٹس کو فیورٹ قرار دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ مسٹر اوباما کو ایک اور موقع دینے کی ضرورت ہے کیونکہ راتو ںرات تبدیلی ممکن نہیں۔

حالیہ اسلام مخالف فلم کی وجہ سے مسلم دنیا میں درجنوں لوگ ہلاک و زخمی ہوگئے اور بڑے پیمانے پر امریکا مخالف جذبات نے جنم لیا تاہم امریکا میں اکثر مسلمانوں نوجوانوں کا خیال ہے کہ اس ویڈیو کی وجہ سے مسلمان ووٹروں میں اوباما کی شہرت متاثر ہوسکتی ہے مگر صدارتی الیکشن پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔اس سلسلے میں پاکستانی اوردیگر مسلم نوجوانوں نے الیکشن کے حوالے سے گفتگو کی۔صدف شیروانی نامی پاکستانی خاتون نے کہا کہ انھوں نے دو ہزار آٹھ میں اوباما کو ووٹ دیا تھا اوراب بھی انھیں ووٹ دینے کا ارادہ ہے ۔ وہ سمجھتی ہیں کہ اوباما کو اپنی پالیسیوں پر عمل درآمد کے لیے ابھی مزید وقت ملنا چاہیے۔

افغان نژاد مسلمان جاوید آروبی نے کہا کہ وہ ورجینیا میں ایک پرائیویٹ کمپنی میں کام کرتے ہیں اور انھیں موجودہ اقتصادی صورت حال پر تشویش نہیں لیکن مسلمانوں اور اوباما حکومت کے درمیان بڑھتی ہوئی بداعتمادی پر پریشانی ہے۔ اس سے رومنی فائدہ اٹھاسکتے ہیں اورلوگ اس کے بارے میں سوچیں گے۔

سوڈانی نژاد خالد نور کا کہنا تھا کہ وہ ورجینیا کمیونٹی کالج میں بزنس ایڈمنسٹریشن کے طالب علم ہیں ۔ انھوں نے پچھلے الیکشن میں اوباما کو ووٹ دیا لیکن اس بار ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ انھوں نے کہا کہ انھیں ملک کی اقتصادی صورت حال اور بیروزگاری پر تشویش ہے۔ان کا موجودہ تعلیمی دور ختم ہونے والا ہے لیکن توقع نہیں کہ کوئی معقول ملازمت ملے گی۔

جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں مکینیکل انجینئرنگ کے طالب علم ایڈم عثمان کاکہنا تھا کہ وہ اس بار بھی اوباما کو ووٹ دیں گے لیکن اوباما حکومت کو مسلمانوں سے تعلقات بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔انھوں نے کہا کہ اگرچہ ان کے لیے امریکی مفادات مقدم ہیں لیکن انسانی پہلو بھی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ اوباما کو ایک اور موقع ملے۔

امریکا میں طویل عرصہ سے مقیم امریکی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ اوباما کو ووٹ دیں کیونکہ اوباما کا خاندانی پس منظر کسی حد تک اسلامی رہا ہے۔ وہ انڈونیشیا میں پلے پڑھے اوراسلامی معاشرے کو خاصا جانتے ہیں۔

ہیوگوشاویز اوباما کے حامی نکلے

امریکا کی کھلی مخالفت کی شہرت رکھنے والے ہیو گو شاویز، جو کہ الیکشن کے نتیجے میں ایک بار پھر وینزویلا کے صدر منتخب ہوچکے ہیں، وہ بھی امریکی صدر اوباما کے حامی ہیں اورانھوں نے امریکی صدارتی الیکشن میں اوباما کی حمایت کی ہے۔

ایک بیان میں شاویز نے کہا کہ وہ اوباما کو ترجیح دیتے ہیں۔اپنے دوبارہ صدر منتخب ہونے سے قبل ایک ٹی وی انٹرویو میں شاویز نے کہا کہ اگر وہ امریکی ہوتے تو اوباما کو ووٹ دیتے۔شاویز نے ازرہ تفنن کہا کہ اوباما ''اچھا بچہ'' ہے اور ان کا خیال ہے کہ اگر اوباما وینزویلا کا شہری ہوتا تو لازماً انھیں یعنی شاویز کو ووٹ دیتا۔ یاد رہے کہ وینزویلا کے کئی سالوں سے امریکا کے ساتھ تعلقات خراب رہے ہیں۔تاہم امریکا وینزویلا سے تیل خریدنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔

ادھر ایک انٹرویو میں ہیوگوشاویز نے کہا کہ ان کی خواہش ہے کہ ان کے امریکی حکومت کے ساتھ معمول کے تعلقات ہوں۔ اوباما اور شاویز کے درمیان 2009ء میں ملاقات ہوئی تھی لیکن اس کے بعد سے دونوں کے تعلقات میں سردمہری رہی۔یاد رہے کہ جولائی 2010 سے وینزویلا میں امریکی سفارت خانہ سفیر کے بغیر رہا ہے کیونکہ شاویز نے سفارت خانے کے لیے نامزد امریکی سفیر کے نام کو مسترد کردیا تھا اورالزام عائد کیا تھا کہ امریکی سفیر نے وینزویلا کی حکومت کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کیے تھے۔اس کے بعد امریکا نے بھی وینزویلا کے سفیر کے لیے اپنے ملک کے ویزے کو کالعدم کردیا تھا۔

امریکہ کے صدارتی الیکشن کیسے ہوتے ہیں؟

امریکی صدارتی انتخاب کو ایک پیچیدہ عمل سمجھا جاتا ہے لیکن عملی طورپر ایسا نہیں ہے۔امریکا کے صدر اور نائب صدر کا انتخاب ہر چار سال بعد بالواسطہ (indirect) طریقے سے ہوتا ہے۔ امریکی شہری اپنے ووٹوں کے ذریعے امریکی الیکٹرل کالج کے ارکان (حلقہ انتخاب کنندگان)کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر یہ ارکان بلاواسطہ یا براہ راست امریکی صدر اور نائب صدر کاانتخاب کرتے ہیں۔صدارتی الیکشن کے ساتھ ہی دیگر وفاقی ، ریاستی اور مقامی انتخابات بھی ہوتے ہیں۔ امریکا میں صدارتی انتخابات کا آغاز 1792ء میں ہوا تھا۔

انتخابی عمل وفاقی اور ریاستی قوانین کے ایک مجموعے کے مطابق چلتا ہے۔ہر ریاست کے لیے الیکٹرل کالج کے انتخاب کنندگان کی ایک تعداد مخصوص ہوتی ہے جو کہ متعلقہ ریاست کی آبادی کے تناسب یا اس ریاست کی امریکی کانگریس میں موجود سینیٹرز اور نمائندگان کی تعداد کے برابر ہوتی ہے۔ مزید براں واشنگٹن ڈی سی کو اتنے ہی انتخاب کنندگان الاٹ کیے جاتے ہیں جتنے کہ سب سے چھوٹی ریاست کے لیے مخصوص ہوتے ہیں۔ امریکی علاقہ جات کو الیکٹرل کالج میں کوئی نمائندگی نہیں دی جاتی۔

امریکی کانگریس کے ایوان نمائندگان میں نشستوں کی کل تعداد 435 جبکہ سینٹ میں 100 ہے جبکہ واشنگٹن ڈی سی ایریا کی تین نشستیں ہیں۔ اس طرح یہ کل 338 ہیں لہٰذا حلقہ انتخاب کنندگان کی تعداد بھی 538 ہوتی ہے جو آگے چل کر صدر اورنائب صدر کا چنائو کرتے ہیں۔

امریکی آئین کے مطابق ہرریاستی قانون ساز کے لیے انتخاب کنندگان کوچننے کا مخصوص طریقہ ہوتا ہے چنانچہ الیکشن کے موقع پر براہ راست وفاقی حکومت کے بجائے مختلف ریاستوں کی جانب سے پاپولر ووٹ کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ منتخب ہونے کے بعد الیکٹرز (انتخاب کنندگان) اپنی مرضی سے کسی کو بھی ووٹ دے سکتے ہیں جو عام طور پر اپنے نامزد کردہ امیدواروں کو ہی ووٹ دیتے ہیں جس کی تصدیق بعدازاں اوائل جنوری میں کانگریس کی جانب سے ہوتی ہے جو انتخاب کنندگان کے لیے حتمی جج کا درجہ رکھتی ہے۔بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ الیکٹرز بے وفائی کا ارتکاب کرتے ہوئے اپنی مخالف پارٹی کے امیدواروں کو ووٹ دیں۔امریکی انتخابات میں آخری مرتبہ کوئی سنجیدہ تنازعہ 2000ء کے الیکشن میں کھڑا ہوا تھا۔

امریکی انتخابات میں نامزدگی کا عمل بشمول پرائمری الیکشن اور نامزدگی کنونشن آئین کے پابند نہیں بلکہ ان کو ریاستوں اور سیاسی جماعتوں نے خود ہی وضع کررکھا ہے۔یہ بھی بالواسطہ انتخابات کے ذریعے عمل پذیر ہوتے ہیں جس کے تحت ووٹرز متعلقہ سیاسی جماعت کے نامزدگی کنونشن میں ڈیلی گیٹس کا چنائو کرتے ہیں جو آگے چل کر اپنی پارٹی کے صدارتی امیدوار کو نامزد کرتے ہیں۔

امریکی الیکشن اور وہ۔۔۔

امریکی صدارتی الیکشن میں ایک اور فریق بھی ہے جس کی اقتدار کی امریکی دوڑ میں دلچسپی واضح ہے۔یہ القاعدہ اور طالبان ہیں جو اس حوالے سے شش وپنج میں ہیں کہ آیا انھیں دہشت گردی بڑھا کر اوباما کی شکست کے لیے کام کرنا چاہیے یا نہیں۔

تجزیہ نگار بی رامن لکھتے ہیں کہ شمالی وزیرستان میں موجود القاعدہ اور جزیرہ نما عرب میں موجود القاعدہ کے علاوہ افغانی اور پاکستانی طالبان امریکا میں جاری صدارتی انتخابات کی مہم پر بغور نظر جمائے ہوئے ہیں۔ اگرچہ وہ اوباما کو تنقید اور الزامات کا نشانہ بنارہے ہیں 'لیکن اس کے باوجود وہ شش وپنج میں مبتلا ہیں کہ آیا کہ دوسری ٹرم میں اوباما ان کے لیے بہتر ہوسکتے ہیں یا نہیں اور انھیں ایسے کام (مثال کے طور پر افغانستان پاکستان اور عراق شام اور لیبیا میں دہشت گردی کاعمل تیز کرنا وغیرہ)کرنے چاہئیں یا نہیں جو اوباما کی حکومت پر منفی طور پر اثرانداز ہوں اور وہ دوسری ٹرم کے لیے امریکی صدارتی الیکشن میں کامیاب نہ ہوسکیں۔

القاعدہ اور طالبان میں اوباما کے خلاف شدید نفرت پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے اوباما حکومت کی جانب سے ان کے خلاف کارروائیوں میں تیزی لانا جیسے ڈرون حملوں میں اضافہ کرنا، ایبٹ آباد آپریشن میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت، ڈرون حملے میں القاعدہ کے مذہبی لیڈر ابویحییٰ اللبی کی ہلاکت، یمن میں کیے جانے والے ڈرون حملے میں یمنی نژاد امریکی اور القاعدہ کے انور اولاکی کی ہلاکت اور گستاخانہ فلم کے منظر عام پر آنے جیسے واقعات ہیں۔یہ تمام واقعات اوباما کی حکومت کے دوران ہی پیش آئے۔

اوباما کے لیے القاعدہ کی شدید نفرت تنظیم کے حالیہ پیغامات سے واضح ہے۔القاعدہ کے امیر ایمن الظواہری کی گذشتہ مہینے میں جاری ہونے والی ایک ویڈیو میں اوباما کو جھوٹا قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ اسے دنیا بھر میں مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لیے امریکا کا صدر چنا گیا لیکن بہرحال اسے افغانستان میں شکست کا سامنا ہے۔

گیارہ ستمبر 2012ء میں بن غازی لیبیا میں امریکی قونصلیٹ پر حملے میں لیبیا میں امریکی سفیر سمیت چار امریکیوں کی ہلاکت کے بعد جاری کیے جانے والے ایک بیان میں القاعدہ کی جانب سے کہا گیا کہ شیخ ابو یحییٰ کی شہادت کے نتیجے میں عمر مختار(لیبیائی حریت پسند) کے بیٹوں کے جوش و جذبے میں اضافہ ہوا ہے کہ ان افراد سے انتقام لیں جو ان کے نبیﷺ کی شان میں گستاخی کرتے ہیں۔لیبیا ، مصر اور یمن میں ہمارے لوگوں کی جانب سے امریکا اور اس کے سفارت خانوں کے خلاف بغاوت امریکا کے لیے اس بات کا اشارہ ہے کہ امریکا کی جنگ کسی گروپ یا تنظیم کے خلاف نہیں بلکہ ان مسلم قوموں کے خلاف ہے جنہوں نے ناانصافی کے خلاف بغاوت کردی ہے۔

بیان میں مظاہرین کو مزید ترغیب دی گئی کہ وہ مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں امریکی سفارت خانوں پر مزید پرتشدد حملے کریں جبکہ مسلمانوں کو چاہیے وہ اپنے اپنے ملکوں میں بھی امریکی مفادات کو حملوں کا نشانہ بنائیں۔شاید امریکی سفارت خانوں اور قونصل خانوں کے خاتمے سے سرزمین عرب کو امریکا کی بدمعاشی سے نجات مل جائے۔

درحقیقت القاعدہ کی جزیرہ نما عرب شاخ جسے AQAP کہا جاتا ہے، میں اوباما مخالف اور امریکا مخالف بیان بازی میں اضافہ ہوچکا ہے۔انھوں نے امریکا کے خلاف مظاہرے تیز کردیے ہیں جبکہ افغانستان اور پاکستان میں تشدد کے واقعات کو بھی بڑھا دیا ہے۔ گستاخانہ فلم کے ردعمل میں امریکا اور مغرب کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے ہورہے ہیں۔ساتھ ہی وہ یہ بھی سوچ رہے ہیں کہ آیا اوباما کا دوبارہ امریکا کا صدر منتخب نہ ہونا ان کے لیے مفید رہے گا یا نہیں۔اگرچہ وہ رومنی کو بھی ناپسند کرتے ہیں لیکن وہ اس حوالے سے غیریقینی سے دوچار ہیں کہ اگر رومنی امریکی صدر بن گئے تو ڈرون حملوں ، افغانستان میں امریکی افواج میں کمی کرنے اور آئندہ کے کابل کے سیاسی منظر نامے میں اعتدال پسند طالبان کی شمولیت کے حوالے سے ان کی پالیسی کیا ہوگی۔

ان کے لیے افغانستان سے امریکی فوج کو نکلوانے کے ہدف کے حوالے سے رومنی ایک نامعلوم اور ناقابل یقین عنصر کی حیثیت رکھتے ہیں۔امریکا افغانستان سے اپنے اضافی فوجی دستے پہلے ہی نکال چکا ہے جو اوباما کے صدر بننے کے بعد وہاں پر بھجوائے گئے تھے۔وہ اس بات کی امید کرنے میں حق بجانب ہیں کہ اگر اوباما دوبارہ امریکا کے صدر بن گئے تو افغانستان سے امریکی افواج واپس بلانے کے حوالے سے عمل میں تیزی لائیں گے جو کہ طالبان اور القاعدہ کے لیے فائدے کی بات ہوگی۔

القاعدہ جزیرہ نما عرب شاخ AQAP، جو کہ یمن ، سعودی عرب ، لیبیا اور شام میں بھی کاررائیوں کو کنٹرول کرتی ہے، کے لیے امریکا کی جانب سے ان ملکوں میں حکومتوں کو تبدیل کیے جانے کی پالیسی مفید ثابت ہورہی ہے کیونکہ اس کی وجہ سے القاعدہ کو ان ممالک میں اپنے قدم جمانے میں آسانی ہورہی ہے۔ان کے لیے واحد فکر اس بات میں ہے کہ اوباما دوبارہ یعنی دوسری ٹرم کے لیے صدر بننے کے بعد کہیں اسی طرح القاعدہ عرب شاخ پر بھی حملے تو تیز نہیں کردیں گے جس طرح کہ انھوں نے صدر بننے کے لیے افغانستان اور پاکستان میں تیز کردیے تھے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔