تہذیبوں کے کھنڈر نئی تباہی کے دہانے پر
داعش کے ناوک‘ خدا کی پناہ۔ ارے جانی پہچانی صدیاں عبور کر کے اب اس نے کہاں دھاوا بولا ہے۔
TORONTO:
کسی ظالم نے کیا شعر کہا ہے ؎
ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں
داعش کے ناوک' خدا کی پناہ۔ ارے جانی پہچانی صدیاں عبور کر کے اب اس نے کہاں دھاوا بولا ہے۔ ماقبل تاریخ میں گم قدیم تہذیبوں پر۔ سو اب بابل و نینوا کی اُجڑی پُجڑی تہذیبیں لرزہ براندام ہیں۔ اور اہرام مصر سے لے کر برج بابل تک شور پڑا ہوا ہے کہ اب تو ہم اپنے ویرانوں میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ داعش کا ناوک ہمارے تعاقب میں ہے۔ شام کے قدیم شہر پامیر میں اس کے سبز قدم پہنچ گئے۔ اب دنیا بھر کے قدیمیات کے شناور اور اجڑی تہذیبوں کے محققین کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا سانس نیچے ہے۔ دیکھیں اب وہاں عہد قدیم کے بچے کھچے آثار پر کیا قیامت ٹوٹتی ہے۔
لیجیے علامہ اقبال کا کیا عبرت بھرا شعر اس وقت یاد آیا ہے ؎
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ
مگر اہل علم کو ہم نے اب یہ کہتے سنا کہ ہمارے علم کے موتی اہل یورپ جس طرح بھی لے گئے ہوں اب وہ وہاں خیریت سے تو ہیں۔ ادھر ہماری دنیائے اسلام میں جو علم و حکمت کے موتی ہیں ان کے تو سمجھو کہ دن گنے گئے۔ بامیان میں جو مہاتما بدھ کا مجسمہ کھڑا تھا اس پر جب طالبان کی یلغار ہوئی تو قدیم تہذیبی آثار کے علما و محققین ہا ہا کار کرتے رہ گئے مگر طالبان نے اس مجسمہ کو مسمار کر کے اطمینان کا سانس لیا کہ کفر کے اس بڑے نشان کو مٹا دیا مگر پھر داتا دربار پر دھاوا بولا گیا۔ وہ کس عذر پر۔ اس عذر پر کہ وہ بدعت ہے۔
تو یہ مت سمجھئے کہ صرف ٹیکسلا میں جو بدھ تہذیب کے اثر آثار ہیں وہ خطرے میں ہیں۔ اسلامی تاریخ کے جانے مانے مقبرے' روضے' درگاہیں' خانقاہیں' علما کے مزار' صوفیا کے مقابر' سب زد میں ہیں۔ ایک خبر کہتی ہے کہ اب سے بہت پہلے ٹمبکٹو میں اسلامی مطالعے کا ایک بڑا مرکز قائم ہوا تھا۔ علما و محققین نے کہاں کہاں سے نادر کتابیں اور نایاب مخطوطات ڈھونڈ ڈھونڈ کر جمع کیے تھے۔ اب اسلام کے نام پر جہاد کرنے والوں نے انھیں نذر آتش کر دیا۔ کتابیں اپنے آبا کی' موتی علم و حکمت کے۔ ان کا انجام کیا ہوا۔
اور یہ برصغیر بھی تو بڑی تہذیبوں کا گہوارہ بنا رہا ہے۔ آریاؤں کی آمد سے پہلے کون لوگ تھے۔ انھوں نے کیسے کیسے شہر بسائے' موہنجوداڑو۔ ہڑپا۔ ٹیکسلا۔ ٹیکسلا سے یعنی اس پورے علاقے سے بدھ تہذیب کی روایات وابستہ رہی ہیں۔
مہاتما بدھ کے ارد گرد فنون لطیفہ کی ایک پوری روایت پروان چڑھی جیسے اب گندھارا آرٹ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس کے زیر اثر یہاں کیسے کیسے نقش ابھارے گئے اور کیسے کیسے مجسمے تراشے گئے۔ وہ دولت اب بھی کتنی یہاں بکھری پڑی ہے۔ ابھی تک تو یہاں اسمگلر اپنی کارستانی دکھا رہے تھے۔ اب اس دولت کو طالبان اور داعش کی طرف سے خطرات لاحق ہیں۔ طالبان نے مقدور بھر تو یہاں کارروائی کی ہے۔ اب داعش کی نمود کے ساتھ ایک بڑی یورش کے امکانات پیدا ہو چلے ہیں۔
مگر دنیا میں اور خطے بھی ہیں جہاں قدیم تہذیبوں کے اثر آثار ہیں۔ وہاں تو انھیں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اور وہ قومیں ان کے سرکاری اور غیر سرکاری ادارے انھیں کتنا فروغ دے رہے ہیں۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ آخر اتنی صدیوں سے مسلمان ان علاقوں میں کوس لمن الملکی بجاتے رہے ہیں۔ ان اثر آثار کو ان کی طرف سے کوئی اندیشہ نہیں تھا۔ اب ہمارے زمانے میں آ کر ان علاقوں پر کیا افتاد پڑی کہ باہر سے آنے والوں کی طرف سے نہیں خود مسلمانوں میں ایسے رجحانات نے پرورش پائی اور ایسے گروہ پیدا ہو گئے کہ انھوں نے تہذیبی آثار سے دشمنی باندھ لی۔ اور داعش کا تو کچھ ایسا طور ہے جو قدیم وحشی قبائل کا ہوتا تھا کہ وہ شاد آباد تہذیبی گہواروں کو تباہ و برباد کر دیتے تھے۔
مگر ابھی ہم عرفان حسین کا کالم انگریزی اخبار میں پڑھ رہے تھے وہ کچھ اور کہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ طالبان کی نمود سے پہلے مسلمانوں میں خاص طور پر عربوں میں ایسی فکر نے نمود پا لی تھی اور خود اسلامی اثر آثار کو مٹانا شروع کر دیا تھا۔ انھوں نے لندن میں قائم ایک اسلامی تحقیقاتی ادارے کا حوالہ دیا ہے جس کا پورا نام ہے اسلامک ہیریٹیج ریسرچ فاؤنڈیشن۔ اس ادارے کی تحقیق یہ کہتی ہے کہ سعودی عرب میں یہ کام بہت پہلے سے جاری ہے۔ 1985ء سے لے کر اب تک کتنے اسلامی اثر آثار مٹ چکے ہیں۔ عجب ثم العجب۔ کیا واقعی ایسا ہوا ہے ع
یہ قصہ ہے یا کچھ کہ افواہ ہے
بہر حال اب داعش کی نمود کے ساتھ جو کچھ ہونے لگا ہے ویسا تو کبھی نہیں ہوا تھا۔ بابل شہر کب سے چلا آ رہا تھا۔ اپنے ویرانوں کے بیچ سویا پڑا تھا۔ قدمائے اسلام سے لے کر صدام حسین تک کسی فاتح' کسی خلیفہ' کسی مجاہد کو یہ خیال نہیں آیا کہ ارے یہ بابل' یہ تو نمرود کا شہر ہے۔ مٹی ہوئی تہذیب پر ایسا وار کرو کہ اس کے سارے اثر آثار مٹ جائیں۔ یہ سارے اثر آثار اپنے ویرانوں میں مگن تھے۔ کتنے مسلمانوں کے لیے یہ درس عبرت کا سامان لیے کھڑے تھے۔ انھیں دیکھو اور عبرت حاصل کرو۔ کتنوں کے لیے وہ انسانی تاریخ کے قدموں کے نشانات تھے۔
اس اعتبار سے وہ انسانی تاریخ کی ملکیت تھے اور تحقیق و تفتیش اور مطالعہ کے مستحق تھے بلکہ دعوت دیتے تھے کہ کھدائی کرو اور ایسے آثار برآمد ہوں گے۔ ہندوستان میں یہی کچھ تو ہوا تھا جس کے نتیجہ میں پہاڑوں کو کھود کر ایسے غار دریافت کیے گئے جن کے اندر پوری پوری عمارتیں اور مجسمے کھڑے تھے۔ مغل بھی جاتے جاتے ایسا مقبرہ تعمیر کر گئے کہ اب وہ تاج محل ہے اور دنیا کے عجائبات میں شامل ہے۔ ایسے عجائبات کا تحفظ کیا جاتاہے۔ بدعت کہہ کر برباد نہیں کیا جاتا۔