اب بھی ہم شرمندہ نہیں ہیں
ہرکامیاب آدمی ایک ہی بات کہتا سنائی دیتا ہے کہ میں برابر اپنے آپ کو تبدیل کرنے کی کوشش میں مصروف رہتا ہوں
KARACHI:
ہرکامیاب آدمی ایک ہی بات کہتا سنائی دیتا ہے کہ میں برابر اپنے آپ کو تبدیل کرنے کی کوشش میں مصروف رہتا ہوں کبھی کامیاب ہوتا ہوں کبھی ناکام۔ لیکن کوشش کرنا کبھی نہیں چھوڑتا کیونکہ کوشش میں ہی کامیابی چھپی ہوتی ہے کامیابی صرف آپ کے صبرکو آزماتی ہے ،یاد رہے محنت کرنے والوں کی ہار نہیں ہوتی یہ کوشش ہی ہے جو مجھے ورغلاتی رہتی ہے لیکن اکثر لوگ جیت کی لکیر سے چند قدم کے ہی فاصلے پر ہار مان لیتے ہیں حالانکہ جیت ان کے سامنے ہوتی ہے ہار مان لینا اعتراف شکست ہے، یہ اس بات کا اعلان ہے کہ ہاں میں کمزور، ڈرپوک، بزدل اورنکما ہوں ہاں مجھ میں ہمت کی کمی ہے ہاں میں جیت سے ڈرتا ہوں اور اس سے خوفزدہ ہوں ۔
ہمارے معاملے میں یہ ہی منفی رویہ انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی ہے ،اس معاملے میں ہم سب یکساں ہیں اور ایک ہی قطار میںکھڑے ہیں ہم ہار مان کر اپنی کمزوری، نااہلی،کم ہمتی اور اپنے بزدل اورڈرپوک ہونے کا فخر سے اعلان کرتے پھرتے ہیں، حالانکہ قریب ہی جیت چلا چلا کرکہہ رہی ہوتی ہے کہ میں یہاں ہوں ، میں یہاں ہوں اور ہم ساری زندگی بہر ے اور اندھے بن کر گذار دیتے ہیں اور بار بار قسمت ، نصیب اورمقدرکو برا بھلا کہتے رہتے ہیں اور قسمت،نصیب اور مقدر ہکا بکا منہ پھاڑ ے ہمیں تک رہے ہوتے ہیں۔ ہم ساری زندگی نجومیوں اور دست شناساؤں کے گھروں اوردکانوں کے اردگرد منڈلاتے رہتے ہیں اور اکثر سڑک پر بیٹھے طوطا فال نکالنے میں مصروف رہتے ہیں۔
اخبارات اور رسائل میں موجودہ ہفتہ کے دوران آنے والے واقعات پڑھ کرکبھی خوش اورکبھی فکرمند ہوتے رہتے ہیں، کباڑیوں کی دکانوں میں الہ دین کا چراغ ڈھونڈنے کے لیے مارا مارا پھرنا ہمارا پسندیدہ مشغلہ بن کے رہ گیا ہے نصیحت کرنے والوں اور سیدھا راستہ بتلانے والوں کو برابھلا کہہ کر ہی ہمیں تسکین ملتی ہے اور تو اور سیدھے راستے پر چلنے والوں کو بھٹکانے کی اپنی سی پوری کوشش کرتے رہتے ہیں کامیابی اور خوشحالی کی سیڑھی پر اوپر جانے والوں کے پاؤں پکڑ پکڑ کر انھیں نیچے گھسیٹنے کی پوری طاقت سے کوشش کرتے رہتے ہیں اور ناکامی کی صورت میں انھیں خوب برا بھلا کہنا شروع کردیتے ہیں ہرکامیاب اور خوشحال شخص سے ہمیں ازلی بیر ہے اگر ہمارا بس چلے تو انھیں بھی اپنا ہی جیسا بنا لیں ۔
غیبت ،حسد ،جلن اور رکاوٹیں کھڑی کرنے کا رویہ ہمارے خون میں دوڑتا پھر رہا ہے۔ دوسروں میں کیڑے نکالنا ہماری عادت بن گئی ہے، دوسروں کی اچھائیاں سننے سے ہمیں نفرت ہوگئی ہے، سچ بولنے والوں کو مارنے کے لیے دوڑ پڑتے ہیں ہر اچھی بات پرآگ بگولہ ہونا ہماری فطرت بن کے رہ گیا ہے، ایک سوتے شخص کو جگانا بہت آسان ہے لیکن جاگتے کو جگانا بہت مشکل ہے ہم کبھی وہ نہیں بن پائے جو چاہتے تھے اور وہ بن گئے ہیں جو نہیں چاہتے تھے اب ہم صرف شکو ے کرنے والی قوم بن چکے ہیں اور ساتھ ساتھ معجزوں کے انتظار میں بیٹھی قوم بھی ۔
کسی دور دراز گاؤں میں ایک ایسے دانا بزرگ رہتے تھے جنہوں نے اپنی زندگی علم اور غورو فکرکے لیے وقف کی ہوئی تھی ۔ ان کی حکمت ودانش کا چرچا دور دور تک پھیلا ہوا تھا ہرخاص وعام اپنی الجھنیں سلجھانے ان ہی کے پاس جاتا اور وہ ہرمسئلے کا حل فوراً بتا دیتے۔ اسی گاؤں میں چند شریر اورکھلنڈرے لڑکے بھی رہتے تھے وہ بھی کبھی کبھار کسی سوال کا جواب پانے بزرگ کے پاس جاتے اور وہ ہرمرتبہ انھیں ایسا صحیح جواب دیتے کہ لڑکے حیران رہ جاتے بارہا سوال کرنے اور ہر بارصحیح جواب پانے سے تمام لڑکوں نے بزرگ کو غلط ثابت کرنے کا منصوبہ بنایا، بڑی سوچ بچار کے بعد ایک لڑکے کو ایک چال سوجھی کہ وہ اپنی مٹھی میں ایک چڑیا لے جا کر ان بزرگ سے یہ پوچھے گا کہ آیا یہ چڑیا زندہ ہے یا مردہ۔ اگر بزرگ نے کہاکہ چڑیا زندہ ہے تو وہ فوراً اپنی مٹھی زور سے دبا کر چڑیا کو مار دے گا اور اگر انھوں نے جواب دیا کہ چڑیا مردہ ہے تو وہ فوراً اپنی مٹھی کھول کر چڑیا کو اڑا دے گا، یو ں دونوں حالت میں بزرگ جھوٹے ثابت ہوجائیں گے۔
تمام لڑکے بزرگ کی دانش مندی آزمانے ان کے پاس گئے اور ایک لڑکے نے کہا۔ بزرگ میری مٹھی میں ایک چڑیا ہے آپ بتائیے کہ یہ زندہ ہے یا مردہ ۔ بزرگ نے بات سن کر ایک نگاہ لڑکوں کے چہروں پر ڈالی ہلکا سا مسکرائے اورکہنے لگے بیٹا پرندہ تمہارے اپنے ہاتھ میں ہے اور تمہیں اختیار حاصل ہے کہ تم اسے ماردو یا زندہ رکھو وہی کچھ ہو گا جو تم چاہو گے ''آج ہمارے ساتھ بھی وہی کچھ ہو رہا ہے جو ہم نے چاہا تھا ورنہ کیا ہم وہ فیصلے اورغلطیاں کرتے جو ہم نے کی ہیں یاد رہے کامیابی یا ناکامی انتخاب ہوتی ہے کبھی بھی کامیابی یا ناکامی یکایک وقوع نہیں ہوتی بلکہ ہمارے کیے گئے ان گنت فیصلوں کا نتیجہ ہوتی ہے ۔
آئیں ...ایسا کرتے ہیں کہ آزادی کے پہلے روز سے لے کرآج تک کیے گئے تمام فیصلوں اور اقدامات پر نظر دوڑاتے ہیں تو آج جو نتیجہ منہ پھاڑ ے ہم پر ہنس رہا ہے کیا اس کے علاوہ کوئی اور نتیجہ نکل سکتا تھا، آپ اپنے آپ سے خود پوچھ کر دیکھ لیں اس لیے ہماری ناکامی ہمارا خود اپنا انتخاب ہے ورنہ کیا ملک اس طرح چلتے ہیں جس طرح ہم نے چلایا ہے کیا ملکی فیصلے اور اقدامات ایسے ہوتے ہیں جیسے ہم نے کیے ہیں۔
معاف کیجیے گا معمولی آدمی بھی ہم سے زیادہ سمجھ رکھتا ہوگا۔ ہٹ دھرمی کی انتہا تو یہ ہے کہ اب بھی ہم شرمندہ نہیں ہیں،اب بھی اپنے آپ کو قصور وار نہیں ٹھہراتے ہیں اور بے شرموں کی طرح سارا کا سارا الزام غیر ملکیوں پر تھوپ دیتے ہیں۔ ہم سمجھے بیٹھے ہیں کہ پوری دنیا ہمیں مٹانے پر تلی بیٹھی ہے، بدنام کرنے میں لگی ہوئی ہے اور وہ چاہتی ہے کہ ہم کسی بھی صورت میں کامیاب،خوشحال،آزاد، ترقی یافتہ نہ ہوسکیں اس سوچ پر اگر عقل کا ماتم نہ کیاجائے تو پھر کیا کیا جائے آپ ہی بتلا دیں ۔