جب سے تو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے
میری بات سن کر حکیم ناصر نے ہنستے ہوئے کہا تھا یونس میاں! یہ فلمی دنیا ہمارے نصیب میں کہاں۔
SUKKUR:
معروف شاعر حکیم ناصر جن کی ایک غزل نے پاکستان اور ہندوستان میں اپنی دھوم مچادی تھی جوکہ میرے کالم کا عنوان بھی ہے ۔ شاعر حکیم ناصر، استاد امیر احمد خان کے ایک شاگرد رئیس احمد کے بہنوئی تھے اور شجاع جیولرز والوں کے داماد تھے، رئیس احمد کے گھر واقع کلفٹن میں اکثر و بیشتر موسیقی کی خوبصورت محفلیں سجائی جاتی تھیں۔
ایک دن ایک ایسی ہی موسیقی کی محفل میں میری ملاقات شاعر حکیم ناصر سے ہوئی تھی، جب انھیں یہ پتہ چلا کہ میرے والد صاحب بھی حکیم ہیں تو پھر یہ پہلی ملاقات بے تکلفی میں بدل گئی اور پھر دوستی کا روپ دھار گئی۔ اور جب انھوں نے مجھے کچھ غزلیں سنائیں تو میں ان کی ایک غزل پر بے تحاشا داد دیے بغیر نہ رہ سکا اور وہ غزل تھی:
جب سے تو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے
سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے
اور پھر بعد میں یہ غزل جب گلوکارہ عابدہ پروین نے گائی تو لاکھوں دلوں کی دھڑکن بن گئی تھی ۔ یہ ان دنوں کا قصہ ہے جب حکیم ناصرکو ابھی شہرت حاصل نہیں ہوئی تھی اور ان کی شاعرانہ شخصیت ابھی کھل کر منظر عام پر نہیں آئی تھی۔ میں نے ایک ملاقات میں شاعر حکیم ناصر سے بڑے کھلے دل کے ساتھ کہا تھا ناصر میاں! آپ کی چند غزلیں جی چاہتا ہے میں چرا لوں اگر آپ کی یہ غزلیں فلموں کی زینت بن جائیں تو دیوانگی کی حد تک پسند کی جائیں گی۔
میری بات سن کر حکیم ناصر نے ہنستے ہوئے کہا تھا یونس میاں! یہ فلمی دنیا ہمارے نصیب میں کہاں۔ ہمارے لیے تو بس یہی بات خوشی کا باعث ہے کہ ہمارا ایک پیارا دوست فلمی دنیا میں پہنچ گیا ہے۔ پھر حکیم ناصر بولے یونس میاں! ہماری تو بس اب یہی ایک خواہش ہے کہ ہم اپنا دیوان مرتب کرکے منظر عام پر لے آئیں۔ میں نے کہا میں نے اب تک جتنی آپ کی غزلیں سنی ہیں وہ سب دیوان کا حصہ بن سکتی ہیں بس تھوڑی محنت اور توجہ کی ضرورت ہے پھر میں نے ایک مشورہ دیتے ہوئے کہا میری ایک بات مانیں تو اپنی دو چار غزلیں کسی سنگر کو دے دیں۔
ان خوبصورت غزلوں کی وجہ سے کچھ اور اس کی قسمت چمک جائے گی۔ یہ سن کر حکیم ناصر کہنے لگے یونس میاں! میری موسیقی کی محفلوں میں گلوکارہ عابدہ پروین سے اکثر ملاقات رہی ہے اور وہ کئی بار مجھ سے میری غزلوں کی فرمائش کرچکی ہیں تاکہ وہ میری غزلیں اپنے پروگراموں میں گا سکیں۔ لیکن اکثر یہ سوچ کر ٹال جاتا ہوں کہ زیادہ تر فنکار لوگ منہ دیکھے کی باتیں کرتے ہیں۔
میں چند غزلیں دے بھی دوں اور پھر ان سے پوچھتا رہوں کہ میری غزلوں کا آپ نے کیا کیا۔ یونس میاں! یہ میرے مزاج کے خلاف ہے ۔میں نے ان کی بات سننے کے بعد کہا ۔ناصر میاں! یہ ٹھیک ہے آپ ایک حساس اور خوددار شاعر ہیں لیکن جیساکہ میں عابدہ پروین کو جانتا ہوں وہ ایک صوفی منش خاتون ہیں۔ میں ان کے گھر بھی جاچکا ہوں اور وہ میرے پروگرام کیسٹ میلوڈی ایوارڈ میں بھی آچکی ہیں۔ وہ سب سے منفرد اور مختلف گلوکارہ ہیں آپ انھیں اپنی چند غزلیں ضرور دے دیں مجھے یقین ہے آپ کو ان سے دوبارہ پوچھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
پھر حکیم ناصر سے کچھ دیر تک باتیں ہوتی رہیں اور میں چند روز کے بعد واپس لاہور چلا گیا۔ جب میں دو سال کے وقفے کے بعد کراچی آیا تو کراچی کے ایک صنعت کار کے بیٹے کی شادی میں ایک موسیقی کی محفل میں شاعر حکیم ناصر سے بھی ملاقات ہوگئی۔ اس محفل میں عابدہ پروین کو بلایا گیا تھا۔ کچھ دیر کے بعد جب عابدہ پروین اپنے سازندوں کے ساتھ اسٹیج پر نمودار ہوئیں تو انھوں نے صوفیانہ کلام سے اپنے پروگرام کا آغاز کرنے کے بعد پھر خود اناؤنسمنٹ کرتے ہوئے کہا کہ اب میں آپ کی خدمت میں شاعر حکیم ناصر کی غزل پیش کرتی ہوں۔ اور وہ غزل تھی:
جب سے تُو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے
میں نے مسکراتے ہوئے شاعر حکیم ناصر کو دیکھا تو وہ بھی مسکراتے ہوئے کہنے لگے یونس میاں! آج کل ساری کراچی میں میری اس غزل کے بڑے چرچے ہیں۔ اور کیا گاتی ہیں عابدہ پروین ۔ ان کی آواز نے تو میری غزل میں چار چاند لگا دیے ہیں۔ غزل کے اختتام پر بے تحاشا تالیوں کی گونج نے یہ ثابت کردیا تھا کہ حکیم ناصر کی یہ غزل کتنی مقبول ہوچکی ہے۔ شاعر حکیم ناصر کی اس غزل کا ہر شعر سامعین کے دل کو چھو رہا تھا میں نے حکیم ناصر کے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں لے کر کہا تھا ناصر میاں! میں نہ کہتا تھا کہ آپ کی غزلوں میں بڑا دم ہے اور پھر عابدہ پروین کی دلنشیں آواز نے اس غزل کے حسن کا نشہ دو آتشہ کردیا ہے۔
پھر اس غزل کو کراچی کے دیگر کئی گلوکاروں نے بھی گایا اور ایک گلوکار سجاد حسین تو صرف اس ایک غزل کی شہرت کی وجہ سے موسیقی کی محفلوں میں بلایا جاتا اور پسند کیا جاتا تھا۔ اب میں آتا ہوں شاعر حکیم ناصر کی شخصیت کی طرف۔ یہ بات بہت کم لوگوں کو پتا ہوگی کہ حکیم ناصر ہندوستان کی مایہ ناز گلوکارہ لتا منگیشکر کو دل و جان سے چاہتے تھے اور اس کے گیتوں کے نوعمری کے زمانے سے بڑے رسیا تھے ان کے پاس لتا منگیشکر کے پرانے سے پرانے گیت کے ریکارڈز تھے اور نئے گیتوں کے کیسٹ بھروا کر وہ اپنے پاس رکھتے تھے اور اپنی تنہائیوں میں صرف لتا کے گیت ہی سنتے تھے حکیم ناصر کو لتا کی آواز سے عشق ہوگیا تھا اور جس بلڈنگ میں (صدر الیکٹرونک مارکیٹ) ان کا دواخانہ تھا اسی بلڈنگ میں ایک چھوٹا سا کمرہ خاص انھوں نے تعمیر کرایا تھا جس کا بلڈنگ کے گھروں سے کوئی تعلق نہیں تھا یہ چھوٹا سا کمرہ حکیم ناصر کی تنہائیوں کا ساتھی تھا اس کمرے کی صرف ایک ہی چابی تھی اور وہ چابی شاعر حکیم ناصر کے پاس ہی رہتی تھی۔ حکیم ناصر گھر سے صبح ناشتہ کرنے کے بعد مطب جانے سے پہلے اپنے اس کمرے میں آتے تھے اور شام مطب کے وقت سے پہلے تک سارا وقت اپنے اسی کمرے میں گزارتے تھے ان کے چند خاص دوست ہی ان کے اس کمرے کے راز سے واقف تھے۔
اب میں ایک اور دلچسپ بات کی طرف آتا ہوں جس طرح لوگوں کو ڈاک کے ٹکٹ، پرانے سکے، پرانی کتابیں اور اینٹیکس جمع کرنے کا شوق ہوتا ہے شاعر حکیم ناصر کو لتا منگیشکر کی تصویریں جمع کرنے کا شوق تھا۔ اور اس شوق کا اظہار بھی انھوں نے اس طرح کیا تھا کہ اپنے کمرہ خاص کی دیواروں پر چاروں طرف لتا منگیشکر کے فوٹوز تھے اور اخبارات اور رسائل میں چھپی ہوئی تصویریں بھی دیواروں پر چسپاں تھیں جو شاعر حکیم ناصر کا لتا منگیشکر کی شخصیت سے ازحد متاثر ہونے اور لتا سے گہرے لگاؤ کا احساس اجاگر کرتی تھیں اس کمرے میں اکثر اگربتی کی خوشبو بھی بکھری ہوتی تھی۔
میں جن دنوں لاہور میں تھا تو مجھے اخبارات کے ذریعے پتا چلا کہ عابدہ پروین نے ہندوستان میں بھی جہاں جہاں اپنے پروگرام کیے اور حکیم ناصر کی غزل گائی تھی اس غزل نے وہاں بھی لوگوں کے دل موہ لیے تھے اور حکیم ناصر کی اس غزل کا نشہ ہندوستان کی موسیقی کی محفلوں میں بھی سر چڑھ کر بول رہا تھا اور ان کی یہ ایک غزل ہندوستان کے سیکڑوں فلمی گیتوں پر سبقت لے گئی تھی۔ حکیم ناصر کو ہندوستان کی ایک ادبی تنظیم نے دہلی بلاکر ان کی خوبصورت غزل پر انھیں ایوارڈ سے بھی نوازا تھا۔ میری جب ایک آخری ملاقات حکیم ناصر سے ان کے مطب میں ہوئی تھی تو وہ مطب سے اٹھ کر اپنے کمرہ خاص میں آگئے تھے اور بہت دیر تک مجھ سے باتیں کرتے رہے وہ ان دنوں کچھ بیمار سے رہنے لگے تھے۔
میں نے کہا تھا حکیم صاحب اپنے مریضوں کے ساتھ ساتھ کچھ اپنا بھی خیال رکھا کرو تو انھوں نے ہنستے ہوئے کہا تھا یونس میاں! یہ زندگی کسی کی بھی کبھی ایک جیسی نہیں رہتی۔ کبھی زندگی میں چھاؤں ہے تو کبھی دھوپ، پھر مجھے ایک دن امریکا ہی میں اخبارات کے ذریعے ان کے انتقال کی خبر ملی تھی۔ وہ ایک اچھے شاعر اور بہت ہی اچھے انسان تھے۔