بجٹ 201516 کیسا ہوگا
معیشت کی شرح نمو:رواں مالی سال کے اختتام پر معیشت کی شرح نمو4.2 فی صد رہنے کی توقع ظاہر کی جارہی ہے
بیرونی قرضوں سے نجات کے لیے حکمت عملی وضع کی جائے،بجٹ تجویز، فوٹو : فائل
مالی سال 2015-16 کا بجٹ چھے جون کو پیش کیا جارہا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ( ن ) کی حکومت کا یہ دوسرا بجٹ ہوگا۔ دو سال کے دوران ملکی معیشت میں نمایاں بہتری دیکھنے میں نہیں آئی۔ زمام اقتدار سنبھالنے سے پہلے حکم راں جماعت کے راہ نماؤں نے جو دعوے اور وعدے کیے تھے، ان میں سے بیشتر اب تک حقیقت نہیں بن سکے۔ معیشت کے اکثر شعبے زوال کا شکار ہیں، یا پھر ان کی صورت حال میں گذشتہ برس کی نسبت بہتری نہیں آئی۔ آنے والے بجٹ کے تناظر میں معیشت کے مختلف شعبوں کی رواں مالی سال کے دوران رہنے والی کارکردگی کا جائزہ پیش کیا جارہا ہے۔
٭ معیشت کی شرح نمو:رواں مالی سال کے اختتام پر معیشت کی شرح نمو4.2 فی صد رہنے کی توقع ظاہر کی جارہی ہے۔ حکومت نے مالی سال 2014-15 کے لیے اقتصادی شرح نمو کا ہدف 5.1 فی صد مقرر کیا تھا اس طرح معاشی ترقی کی رفتار ہدف سے خاصی نیچی رہی ہے، اگرچہ یہ گزشتہ برس کی شرح 4.0 سے قدرے بہتر ہے۔
اس طرح مسلسل دوسرے سال بھی نواز حکومت اقتصادی ترقی کی شرح کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہی، جو اس بات کی واضح علامت ہے کہ حکومتی دعوؤں کے برعکس معاشی صورت حال میں بہتری نہیں آرہی۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق پاکستانی معیشت کے پھیلاؤ کی شرح 7 سے 8 فی صد ہونی چاہیے اس صورت میں معیشت کے تمام شعبے بہتری کی جانب گام زن ہوسکتے ہیں اور ہر فرد کو روزگار مل سکتا ہے۔معیشت کی شرح نمو میں دو تہائی، 68 فی صد حصہ خدمات کے شعبے کا ہے جسے حکومت نظر انداز کرتی چلی آرہی ہے حالاںکہ یہ ملکی معیشت کا سب سے بڑا حصہ ہے۔ اس کے برعکس زراعت اور صنعت کی شرح نمو سست رہی جن پر حکومت سب سے زیادہ توجہ دے رہی ہے۔
٭ توانائی کی صورت حال: 2013ء میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل بجلی کی لوڈشیڈنگ سے نجات پاکستان مسلم لیگ ( ن ) کا سب سے اہم نعرہ تھا۔ شہباز شریف تین ماہ میں عوام کو لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے ہمیشہ کے لیے نجات دلانے کا مژدہ سناتے تھے۔ ان کے رفقا بھی عوام کو سبز باغ دکھانے میں کسی سے پیچھے نہ تھے۔ مگر تین ماہ تو کیا دو سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود لوڈ شیڈنگ کا عفریت اسی طرح عوام اور صنعتوں کو اپنے شکنجے میں لیے ہوئے ہے۔ حکومت نے قطر سے ایل این جی (مائع قدرتی گیس) کی درآمد کا معاہدہ کیا۔
حکومتی وزراء کا دعویٰ تھا کہ چار آئی پی پیز اور کوٹ ادو پاور پروجیکٹ کو یہ گیس فراہم کی جائے گی جس کے بعد بجلی کی پیداوار 10 فی صد بڑھ جائے گی اور موسم گرما میں لوڈ شیڈنگ نمایاں طور پر کم ہوجائے گی تاہم صورت حال میں کوئی بہتری دکھائی نہیں دے رہی۔ حکومتی دعوؤں کے باوجود بجلی کی پیداوار میں اضافہ نہیں ہوا۔ دوسری جانب ایل این جی کے درآمدی معاہدے کی شفافیت پر بھی سوالات اٹھائے گئے۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے صنعتوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ برآمداتی حجم وسیع نہ ہونے کا ایک اہم سبب لوڈ شیڈنگ بھی ہے۔ علاوہ ازیں آئی ایم ایف کے دباؤ پر حکومت آئندہ بجٹ میں بجلی پر دی جانے وال سبسڈی بھی ختم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
٭ زر مبادلہ کے ذخائر:یکم مئی 2015 کو زر مبادلہ کے ذخائر 12.51 ارب ڈالر تھے۔ آئی ایم ایف نے حکومت کو ہدایت کی ہے کہ رواں مالی سال کے اختتام پر زرمبادلہ کے ذخائر کا حجم 15.40 ارب ڈالر ہونا چاہیے۔
اس طرح حکومت کو زرمبادلہ کا ہدف حاصل کرنے کے لیے مزید 3 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ حکومت آئی ایم ایف سے 50 کروڑ ڈالر کی قرضے کی قسط حاصل کرے گی۔ اس کے علاوہ 1.40 ارب ڈالر ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے حاصل کیے جائیں گے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے توازن ادائیگیوں کے ضمن میں لگائے گئے تخمینوں کے مطابق آئندہ مالی سال کے اختتام تک پاکستان کے پاس 20.2 ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر ہونے چاہییں اس طرح ایک برس کے دوران 5 ارب ڈالر حاصل کرنے ہوں گے جوکہ انتہائی مشکل ہدف ہے۔
بیرونی سرمایہ کاری اور برآمدات میں اضافہ زرمبادلہ کے ذخائر میں مستحکم اضافے کے دو سب سے اہم ذرائع ہیں مگر حکومت کی حکومت ان دونوں ذرائع کو ترقی دینے میں ناکام رہی ہے۔ سعودی عرب کی جانب سے ' تحفتاً' ملنے والے 1.5 ارب ڈالر اور مختلف سرکاری اداروں کے حصص کی فروخت سے حکومت زرمبادلہ کے ذخائر کو 12.51 ارب ڈالر کی سطح تک لانے میں کام یاب ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ اس نے ایک ارب ڈالر سکوک بانڈز کی فروخت سے حاصل کیے۔ تاہم اقتصادی ماہرین کا کہناہے کہ حکومت نے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کے لیے غیر مستحکم اور مہنگے طریقے اختیار کیے ہیں۔
٭ مہنگائی اور افراط زر: پاکستان کے غریب عوام کا اہم ترین مسئلہ مہنگائی ہے۔ چوں کہ حکم راں اور با اختیار طبقہ مہنگائی کے نام کے سے ناواقف ہے لہٰذا ان کے لیے اشیائے صرف کی بڑھتی ہوئی قیمتیں کوئی معانی نہیں رکھتیں، افراط زر کی بلند شرح سے بھی انھیں کوئی سروکار نہیں۔ پاکستان میں مہنگائی اور افراط زر کی شرح ہمیشہ بلندی کی جانب گام زن رہی ہے۔
خوانچہ فروش سے لے کر صنعت کار تک سب اپنی مرضی کے نرخوں پر اشیا فروخت کرنے کے لیے آزاد ہیں۔ کسی کو کوئی پوچھنے والا نہیں اس معاملے میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں سب ہی ناکام ہیں نومبر اور دسمبر میں تیل کی قیمتیں تقریباً30 فی صد تک کم ہوئیں مگر اشیا صرف کے نرخ نیچے نہ آسکے یوں تیل کے نرخوں میں گراوٹ کا فائدہ صنعت کاروں اور تاجروں کو ہوا غریب عوام ہنوز منہگی اشیا خریدنے پر مجبور ہیں۔
بہر حال عوام کو حکومت کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ تیل کے نرخ کم ہونے کے بعد اگر روز مرہ اشیا کی قیمتیں نیچے نہیں آئیں تو ان میں اضافہ بھی نہیں ہوا ہے!
٭ کرنٹ اکاؤنٹ اور تجارتی خسارہ:بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی بڑھتی ہوئی ترسیلات زر اور پٹرولیم مصنوعات کی عالمی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے رواں مالی سال کے ابتدائی دس ماہ کے دوران تجارتی خسارہ 1.364 ارب کی سطح تک محدود رہا۔ تاہم تجارتی خسارہ جولائی تا اپریل 2014-15 کی مدت میں 13.84 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے، گزشتہ برس کی اسی مدت میں تجارتی خسارہ 13.71 ارب ڈالر تھا اس طرح تجارتی خسارے کا حجم 13.6 کروڑ ڈالر زیادہ ہے تیل کے نرخوں میں نمایاں کمی کے باوجود تجارتی خسارے کے بجائے کم ہونے کے بڑھ جانا حکومتی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے۔
تیل جو پاکستان کی سب سے بڑی در آمد ہے کا نرخوں میں کمی اور یورپی یونین کی جانب سے جی ایس پی پلس کا درجہ مل جانے کے باوجود حکومت درآمدات اور برآمدات کے مابین فرق کم نہ کرسکی جو اس کی معاشی پالیسیوں پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔
٭ گرتی ہوئی برآمدات:یورپی یونین نے یکم جنوری 2014 سے پاکستان کو جی ایس پی پلس کا درجہ دیا تھا۔ جی ایس پی پلس حاصل کرنے کے بعد پاکستان یورپی یونین کے 27 ممالک میں برآمدات 5.6 سے 9.6 فی صد کے بجائے 2.5 سے 5.6 فی صد ڈیوٹی کی ادائیگی پر کرسکتا ہے۔ جی ایس پی پلس کا درجہ رکھنے والے ممالک کی مصنوعات، رعایتی ڈیوٹی کی وجہ سے یورپی یونین کے رکن ممالک میں دوسرے ملکوں کی مصنوعات کی نسبت سستی ہوتی ہے، کم نرخ ہونے کی وجہ سے مصنوعات زیادہ خریدی جاتی ہیں، نتیجتاً یورپی یونین کو ان ممالک کی برآمدات بڑھ جاتی ہیں۔
یورپی یونین بہت بڑی برآمدی مارکیٹ ہے اس لحاظ سے پاکستانی برآمدات کا حجم وسیع ہوجانا چاہیے تھا مگر بجائے بڑھنے کے برآمداتی حجم سکڑگیا ہے۔ مالی سال 2014-15 میں جولائی تا مارچ نان ٹیکسٹائل برآمدات گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کی برآمدات کے مقابلے میں 11.29 فی صد کم رہیں۔ ان کا برآمداتی حجم 7.72 ارب ڈالر رہا گذشتہ مالی سال میں اس عرصے کے دوران 8.703 ارب ڈالر مالیت کی نان ٹیکسٹائل برآمدات کی گئی تھیں۔ اسی طرح ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات بھی 19.07 ارب ڈالر کی سطح سے گر کر 7.930 ارب ڈالر کی سطح پر آگئیں اس سے واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت جی ایس پی پلس کا کوئی فائدہ نہ اٹھاسکی۔
٭ محصولاتی آمدنی:محصولاتی آمدنی میں اضافے اور ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کی باتیں برسوں سے ہوتی چلی آرہی ہیں، بڑی مچھلیوں سے ٹیکس وصول کرنے کے دعوے بھی ہوتے رہے ہیں جو ماضی کی طرح رواں مالی سال کے دوران بھی محض خواب ہی رہے۔ نواز حکومت بھی تمام تر دعوؤں کے باوجود نہ تو ٹیکس نیٹ کو وسعت دے سکی اور نہ ہی محصولاتی ہدف حاصل ہوسکا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ جولائی تا اپریل 2014-15 کے دوران محصولاتی ہدف پر تین بار نظر ثانی کی گئی، اسے نیچے لایاگیا مگر یہ سہ بار نظر ثانی شدہ ہدف بھی حاصل نہیں کیا جاسکا۔
اپریل کے اختتام تک محصولاتی آمدنی کا ہدف 2.075 کھرب روپے رکھا گیا تھا مگر فیڈرل بورڈ آف ریونیو 1.975 کھرب روپے ہی جمع کرسکا۔ آئی ایم ایف نے ایف بی آر کو جولائی تا مارچ کے لیے 1.846 کھرب روپے وصول کرنے کا ہدف دیا تھا مگر ٹیکس وصولیاں1.775 ٹریلین ڈالر رہیں۔
اپریل کے اختتام شارٹ فال بڑھ کر 101ارب روپے تک پہنچ گیا حکومت رواں مالی سال کے بجٹ کا اعلان کرتے ہوئے ٹیکس وصولیوں کا ہدف 2.810 ٹریلین روپے مقرر کیا تھا۔ جو بعد ازاں 2.756 اور پھر 2.691 ٹریلین روپے کردیا گیا، نظر ثانی شدہ ہدف کو حاصل کرنے کے لیے حکومت نے دس ماہ کے دوران پانچ منی بجٹ بھی پیش کیے اس کے باوجود ٹیکس وصولیوں کا ہدف حاصل نہ کیا جاسکا۔ جولائی تا مارچ کے دوران ٹیکس وصولیوں کا شارٹ فال جی ڈی پی کا 3.6 فی صد تھا۔ محصولاتی آمدنی کا ہدف حاصل کرنے میں ناکامی کی وجہ سے حکومت بجٹ خسارے کا ہدف بھی ایک بڑے فرق سے حاصل نہیں کرسکے گی۔
٭ غیر ملکی سرمایہ کاری:کسی بھی ملک کی معاشی ترقی میں غیرملکی سرمایہ کاری بہت اہمیت رکھتی ہے۔ رواں مالی سال کے ابتدائی نو ماہ کے دوران ملک میں 710.1 ملین ڈالر کی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری ہوئی۔
گذشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے دوران بھی فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ کا حجم تقریباً اتنا ہی تھا۔ البتہ فارن پورٹ فولیو انویسٹمنٹ میں 182.5 فی صد اضافہ ہوا اور یہ 35.6 ملین ڈالر سے بڑھ کر 100.6 ملین ڈالر تک پہنچ گئی، اس طرح مجموعی بیرونی سرمایہ کاری میں نو ماہ کے دوران 118.7 فی صد اضافہ ہوا اور یہ 1.765 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔ گزشتہ مالی سال کی اس مدت کے دوران مجموعی بیرونی سرمایہ کاری کا حجم 807.2 ڈالر رہا تھا۔
مجموعی طور پر بیرونی سرمایہ کاری کے حوالے سے صورت حال بہتر نہیں ہوئی۔ ماہرین اقتصادیات کے مطابق بیرونی سرمایہ کاری کی مد میں 810.7 ملین ڈالر نفع بخش بینکوں، تیل و گیس کی تلاش کرنے والے یونٹس کی نج کاری سے حاصل ہوئے، مرکزی بینک کی رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال میں جولائی تا مارچ کے دوران ملک سے 1.181 ارب ڈالر کا سرمایہ باہر چلا گیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ لگانے سے ہنوز کترارہے ہیں، ان کی ہچکچاہٹ کا اہم ترین سبب ملک میں امن و امان کی صورت حال ہے جس میں اگرچہ بہتری آئی ہے مگر اسے ہنوز تسلی بخش نہیں کہا جاسکتا۔
٭ قرضوں کا بوجھ: پاکستان پر واجب الادا غیرملکی قرض 65 ارب ڈالر سے تجاوز کرگیا ہے۔ اب ہر پاکستانی ایک لاکھ روپے کا مقروض ہے، جب کہ گذشتہ مالی سال میں ہر شہری کے ذمے 82000 روپے واجب الادا تھے۔ اس سے ظاہر ہے کہ پاکستان پر غیرملکی قرضوں کا بوجھ بڑھتا جارہا ہے۔ مالیاتی خسارہ پورا کرنے کے لیے حکومت کا مقامی قرضوں پر انحصار بھی بڑھ گیا ہے۔ مارچ کے اختتام پر اندرونی قرضے 12281 ارب روپے تھے۔ 31مارچ 2014ء کو اندرونی قرضوں کا حجم 11064 ارب روپے تھا۔
٭ لارج اسکیل مینو فیکچرنگ: بڑے پیمانے کی پیداوار معاشی صورت حال کو جانچنے کا ایک اہم پیمانہ ہوتی ہے۔ مستحکم معیشتوں میں لارج اسکیل مینو فیکچرنگ کی شرح نمو بلندی کی جانب گامزن رہتی ہے۔ پاکستان میں رواں مالی سال کے دوران لارج اسکیل مینو فیکچرنگ شرح نمو 2.49 فی صد رہی ہے گزشتہ مالی سال میں جولائی تا مارچ یہ شرح 5.48 فی صد تھی اس سے واضح ہوتا ہے کہ ملکی معیشت زوال کا شکار ہے۔
بجٹ تجاویز
٭ بیرونی قرضوں سے نجات کے لیے حکمت عملی وضع کی جائے۔
٭ ٹیکس دہندگان کی تعداد بڑھانے کے بجائے ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ بڑی مچھلیوں سے بھی ٹیکس وصول کیا جائے۔
٭ بجلی کی پیداوار میں مستقل بنیادوں پر اضافے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔
٭ ترقیاتی اخرجات میں کٹوتی کے بجائے غیرترقیاتی اخراجات کم کیے جائیں۔ اراکین اسمبلیوں کی تنخواہیں بڑھانے کے بجائے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں پندرہ سے بیس فی اضافہ کیا جائے۔
٭ مزدور کی کم از کم تنخواہ اٹھارہ سے بیس ہزار روپے مقرر کی جائے۔
٭ تعلیم اور صحت کے لیے زیادہ رقم مختص کی جائے۔
٭ نفع بخش اداروں کی نج کاری سے گریز کیا جائے۔
٭ عوام کو روزگار مہیا کرنے کے لیے منصوبے قرض لے کر شروع نہ کیے جائیں۔
٭ کرپشن اور بدعنوانی کے خاتمے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
٭ منہگائی اور افراطِ زر میں کمی کے لیے ٹھوس نظام وضع کیا جائے۔