پاک افغان تعلقات میں تاریخی پیشرفت

پاکستان کو اپنے قیام سے ہی اپنی سرحدوں پر مسائل کا سامنا رہا ہے جس کے نتیجے میں سٹرٹیجک اثاثے سامنے آئے


Zamrad Naqvi June 01, 2015
www.facebook.com/shah Naqvi

پاکستان کو اپنے قیام سے ہی اپنی سرحدوں پر مسائل کا سامنا رہا ہے جس کے نتیجے میں سٹرٹیجک اثاثے سامنے آئے لیکن سابق آرمی چیف جنرل کیانی نے تسلیم کیا کہ ملک کو بیرونی سے زیادہ اندرونی دہشت گردوں سے خطرہ ہے۔ اب اس ڈاکٹرائن پر موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی قیادت میں پوری قوت سے عمل ہو رہا ہے۔ جس کے مثبت نتائج شمالی وزیرستان میں نظر آ رہے ہیں۔ اس سلسلے میں پچھلے ہفتے وزیراعظم میاں نواز شریف اور آرمی چیف نے افغانستان کا دورہ کیا جہاں ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔ اس دورے میں یہ طے پایا کہ پاکستان افغانستان افغان اور پاکستانی طالبان کے خلاف مل کر آپریشن کریں گے۔

یہ پاک افغان تعلقات میں تاریخی اور حیرت انگیز پیش رفت ہے کہ دونوں ملک اپنے اپنے اسٹرٹیجک اثاثوں سے دستبردار ہو گئے ہیں جو طویل مدت سے دونوں ملکوں کی تباہی اور دونوں کے درمیان دشمنی کا باعث تھے۔ اسی دورے میں پاکستانی وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان کا دشمن پاکستان کا دوست نہیں ہو سکتا جو واضح اشارہ طالبان کی طرف ہے۔ اس موقعہ پر جنرل راحیل شریف نے کہا کہ افغانستان کے دشمنوں سے اپنے دشمنوں کی طرح نمٹیں گے۔ پاکستان افغانستان کی دہشت گردی کے خلاف یہ یک جہتی آخر کار دہشت گردوں کی کمر توڑ دے گی۔ کیونکہ اس سے پہلے یہ دہشت گردی کر کے افغانستان اور پاکستان میں چھپ جایا کرتے تھے۔ پاکستانی افغان طالبان کے خلاف مشترکہ آپریشن سے خیبرپختونخوا، پنجاب اور کراچی میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں اور ان کے سہولت کاروں کا خاتمہ لگتا ہے اب دور کی بات نہیں۔

اسی دور میں پاکستانی اور افغان خفیہ ایجنسیوں کے درمیان مفاہمت کی جس یادداشت پر دستخط ہوئے ہیں اس کی رو سے دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے خفیہ معلومات کے تبادلے اور اپنی اپنی سرزمین پر مشترکہ آپریشن کی شقیں شامل ہیں۔ افغان صدر اشرف غنی کے ترجمان اجمل عابدی نے افغانستان کے نشریاتی ادارے کو بتایا ہے کہ معاہدے کا مقصد دہشت گردی سے مشترکہ طور پر نمٹنا ہے۔ اس معاہدے کے تحت دونوں خفیہ ادارے دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں ایک دوسرے کو مدد فراہم کریں گے اور ملزمان سے مشترکہ تفتیش بھی کر سکیں گے۔ مزید یہ کہ آئی ایس آئی افغان خفیہ ادارے این ڈی ایس کو ضروری آلات فراہم کرے گی بلکہ افغان اہلکاروں کو تربیت بھی دے گی۔

ایک افغان سرکاری اعلیٰ عہدیدار نے کہا ہے کہ اس معاہدے سے دونوں ملکوں میں ہی نہیں بلکہ ان کی خفیہ ایجنسیوں کے درمیان نہ صرف شکوک و شبہات کا خاتمہ ہو گا جو ماضی میں برُے تعلقات کا باعث رہے۔ اس طرح دونوں ملکوں کی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان باہمی اعتماد کے نئے رشتے مستحکم ہوں گے۔ جس کے نتیجے میں ماضی کے شکوک و شبہات کا خاتمہ ہو گا۔ وہ شکوک و شبہات جس نے دونوں ملکوں کو بے پناہ نقصان پہنچایا اس حوالے سے آرمی چیف اور وزیراعظم کے اس دورے کو تاریخ ساز کہا جا سکتا ہے۔ امید ہے کہ دونوں برادر ملک ماضی کے برعکس امن و بھائی چارے کی راہ پر چل پڑیں گے۔

صورت حال اس قدر تشویشناک تھی کہ ان اچھی چیزوں کا وقوع پذیر ہونا شیخ چلی کے خواب کے مترادف تھا تو دوسری طرف دونوں ملکوں کی خفیہ ایجنسیوں کا باہمی اتحاد دونوں ملکوں کے دہشت گردوں اور بھارت کے لیے ڈراؤنا خواب ہے۔ یہ دونوں ملکوں کی خفیہ ایجنسیوں کے درمیان شکوک و شبہات ہی تھے کہ ان دونوں ملکوں میں دہشت گردوں کے سر کڑاہی میں اور انگلیاں گھی میں تھیں۔ اسی معاہدے سے ان دہشت گردوں کے خاتمے کے راستے میں تمام بڑی رکاوٹوں کا خاتمہ ہو جائے گا اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی یہ بات سچ ہونے جا رہی ہے جب انھوں نے اس سال کے شروع میں اپنے طویل دورہ امریکا میں کہا تھا کہ بہت جلد خطے میں تبدیلیوں کا سمندر آنے والا ہے۔ اس کے بعد افغان صدر اپنا منصب صدارت سنبھالنے کے بعد پہلے غیر ملکی دورے میں پاکستان پہنچے تو انھیں خصوصی طور پر جی ایچ کیو مدعو کیا گیا۔

آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد افغانستان نے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں مکمل تعاون کیا اور سرحد کے دونوں اطراف دونوں ملکوں کی مسلح افواج نے مشترکہ کارروائیاں شروع کیں۔ اسی طرح باہمی تعاون کا خوشگوار مظاہرہ اس طرح ہوا کہ افغان کیڈٹس کا پہلا بیچ تربیت کے لیے پاکستان ملٹری اکیڈمی آیا تو اس کی پاسنگ آؤٹ پریڈ میں افغان فوج کے سربراہ جنرل شیر محمد کریمی نے شرکت کی۔ حقیقت یہ ہے کہ سب کچھ خواب سا لگ رہا ہے۔ طویل مدت بعد پہلی مرتبہ امن و بھائی چارے کی اس راہ پر چلتے ہوئے پھونک پھونک قدم رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے ہمیں سازشوں کے بارے میں خبردار رہنا چاہیے کیونکہ دونوں ملکوں کا اتحاد ان طاقتوں کے مفادات کا خاتمہ کر دے گا جو طویل مدت سے اس خطے میں دہشت گردی کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔ پورا خطہ شدید عدم استحکام کا شکار ہے۔

مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب ہی ایک واحد ملک تھا جہاں استحکام تھا۔ اب وہ بھی بڑی تیزی سے غیر مستحکم ہو رہا ہے۔ سعودی عرب میں خودکش دھماکے ایک بہت بڑی سازش ہیں جس کا نتیجہ خدانخواستہ ایک ہولناک فرقہ وارانہ جنگ کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ ابھی تک وہاں مسجدوں میں ہی خودکش دھماکے ہو رہے ہیں۔ اگر مسلمان دشمن قوتوں نے یہ سلسلہ دیگر مقدس مقامات کی طرف بڑھایا تو پھر کیا ہو گا؟ ہمیں ان سازشوں کے بارے میں ابھی سے خبردار رہنا چاہیے کہ کوئی ہمارے مذہبی جذبات سے نہ کھیل سکے اور ہم اپنے ہاتھوں ہی ایک دوسرے کو قتل اور اپنے ملک کو آگ نہ لگانی شروع کر دیں۔ اللہ ہمیں اس وقت سے اپنے حفظ امان میں رکھے۔ دشمنوں نے اس وقت صرف مسلم دنیا میں آگ لگائی ہوئی ہے اور مسلمان اس فرقہ وارانہ آگ کو بجھانے کے بجائے بے خبری اور سادہ لوحی میں دونوں ہاتھوں سے اس آگ کو بھڑکا رہے ہیں۔۔۔ حالات انتہائی سنگین ہو چکے ہیں۔۔۔ ان حالات میں پاک افغانستان معاہدہ ان شعلوں سے بچائے گا جو مشرق وسطیٰ میں بھڑک کر ہماری طرف رخ کرنے والی ہے۔

...٭ آپریشن ضرب عضب جولائی اگست سے فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو جائے گا۔ جس کا آغاز جون کے تیسرے چوتھے ہفتے سے شروع ہو جائے گا۔

سیل فون:۔ 0346-4527997۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں