امن کی جانب ایک اور قدم
افغان خفیہ ادارے کے وابستگان کی تربیت بھی کرے گی اور اسے جدید آلات سے لَیس بھی کیا جائے گا۔
14 مئی 2015ء کو جب پاکستان کے سیکیورٹی اداروں نے 29 افغانیوں کو، جنھیں ''ضربِ عضب آپریشن'' کے دوران ناپسندیدہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے گرفتار کیا گیا تھا، شمالی وزیرستان کے مقام غلام خان میں افغان بارڈر پولیس کے حوالے کیا تو عالمی اداروں نے افغانستان کے لیے اسے پاکستان کی طرف سے شاندار اور صُلح جُو اقدام قرار دیا۔ یہ واقعہ اس امر کا بھی مظہر ہے کہ پاک، افغان حکومتیں باہمی فاصلوں کو تیزی سے کم کرنے کی سعی کر رہی ہیں۔
جب سے پاکستان اور افغانستان میں محمد نواز شریف اور اشرف غنی برسرِ اقتدار آئے ہیں، طرفین کی طرف سے دانستہ کوششیں کی گئی ہیں کہ دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان اخوت اور محبت کی فضا پھر سے قائم کی جائے۔ نواز شریف اب تک افغانستان کے دو دورے کر چکے ہیں اور افغان صدر جناب اشرف غنی نے بھی بھارت یاترا سے قبل پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ وہ راولپنڈی میں جی ایچ کیو بھی گئے تھے جسے ساری دنیا میں حیرت انگیز نظروں سے دیکھا گیا۔ بارہ مئی 2015ء کو وزیراعظم پاکستان دوسری بار افغانستان گئے تو ان کے ساتھ جنرل راحیل شریف اور آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر بھی تھے۔ (رضوان اختر کا بھی اپنے باس کی طرح یہ چوتھا دورئہ افغانستان تھا) میاں صاحب کا دوسری بار کابل میں اترنا پاکستان اور افغانستان کے لیے نہایت مفید ثابت ہوا ہے، خصوصاً اس پس منظر میں جب افغان دارالحکومت میں کھڑے ہو کر نواز شریف اور اشرف غنی نے بیک زبان یہ کہا: ''پاکستان کے دشمن افغانستان کے دشمن اور افغانستان کے دشمن پاکستان کے دشمن سمجھے جائیں گے۔''
دنیا بھر کے امن پسندوں نے ان الفاظ پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ گزشتہ دو برس سے پاکستان اور افغانستان نہایت سنجیدگی اور متانت سے کوششیں کرتے رہے ہیں کہ سارے اختلافات سے جان چھڑاتے ہوئے دونوں مل کر دہشت گردوں کا قلع قمع کر دیں۔ ان کوششوں کا ایک نتیجہ 20 مئی 2015ء کو نکلا جب پاکستان کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی اور افغانستان کی انٹیلی جنس ایجنسی ''این ڈی ایس'' کے درمیان ایک معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اس معاہدے یا ایم او یو میں کہا گیا ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے یہ دونوں سیکیورٹی ادارے متحد ہو کر امن کے دشمنوں اور دونوں ممالک کے بے گناہ عوام کا بے دردی سے خون بہانے والوں کا خاتمہ کریں گے اور انھیں کہیں بھی جائے پناہ فراہم نہیں کی جائے گی۔ یہ بھی طے پایا ہے کہ پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی، افغان خفیہ ادارے کے وابستگان کی تربیت بھی کرے گی اور اسے جدید آلات سے لَیس بھی کیا جائے گا۔ شنید ہے کہ پاکستان نے دہشت گرد فضل اللہ کی حوالگی پر بھی زور دیا ہے۔
آئی ایس آئی اور این ڈی ایس (نیشنل ڈائریکٹریٹ آف سیکیورٹی) کے درمیان ہونے والے معاہدے کو قیامِ امن کی جانب پاکستان کی ایک بڑی کامیابی قرار دیا جانا چاہیے۔ یقینا اس معاہدے سے بھارت کو بڑی ذہنی اذیت پہنچی ہے اور دنیا کے ان کئی اداروں کو بھی جو بوجوہ پاکستان اور افغانستان کو یک جہت دیکھنا چاہتے ہیں نہ یہاں قیامِ امن کے خواہاں ہیں۔ مثلاً، 20 مئی 2015ء کو برطانوی اخبار ''دی گارڈین'' میں شایع ہونے والی ایک شرانگیز خبر جس کا عنوان تھا: Afghan backlash over security deal with Pakistan. اس رپورٹ میں کابل میں بیٹھے بعض نام نہاد تجزیہ نگاروں کے ایسے الفاظ درج کیے گئے ہیں جن میں پاکستان کے خلاف فساد اور عناد کا عنصر خاصا نمایاں ہے۔ بھارتی اخبار ''ہندوستان ٹائمز'' نے بھی ''گارڈین'' ایسی شرارت کی ہے۔ یہ غیر ملکی میڈیا چاہتا ہے کہ پہلے کی طرح اس بار بھی پاکستان اور افغانستان کے خفیہ اداروں میں طے پانے والا معاہدہ خراب کر دیا جائے۔ (واضح رہے کہ 2006ء میں بھی اسی طرح کے ایک معاہدے پر پاکستان اور افغانستان نے دستخط کیے تھے مگر بداعتمادی پیدا کرنے والے عالمی مفسد عناصر نے اسے کامیاب نہ ہونے دیا تھا)
انٹیلی جنس شیئرنگ کے لیے پاکستان اور افغانستان کے سیکیورٹی اداروں کے درمیان یہ جو تازہ معاہدہ ہوا ہے، پاکستان کے سیاسی اور دانشور حلقوں میں اس کی بازگشت کم کم سنائی دی گئی ہے لیکن افغانستان میں اس بارے میں خاصی بحث ہو رہی ہے۔ اکثریتی افغانوں نے اس کی زبردست حمایت بھی کی ہے اور اسے افغانستان اور افغان عوام کے لیے نہایت مفید قرار دیا ہے۔ مثال کے طور پر سید احمد گیلانی۔ گیلانی صاحب افغانستان کی ایک سیاسی پارٹی ''حزبِ محاذِ ملّی'' کے مرکزی رہنما بھی ہیں اور افغان پارلیمنٹ کے رکن بھی۔ ان کا کہنا ہے: ''پاکستان ہمارا دشمن ملک نہیں ہے۔ ہم دونوں ہمسایہ اور برادر اسلامی ملک ہیں اور ہمیں ایک دوسرے سے تعاون بھی کرنا چاہیے۔
خصوصاً رواں لمحات میں جب کہ دہشت گردی اور دہشت گردوں نے افغانستان اور پاکستان، دونوں کو بے سکونی اور اور بربادی کا ہدف بنا رکھا ہے، اس لیے اس عفریت کے خاتمے کے لیے آئی ایس آئی اور این ڈی ایس کے درمیان ہونے والے معاہدے کو دونوں ممالک اور ان کے عوام کے لیے فائدہ مند ہی سمجھنا چاہیے۔ یہ اچھا اقدام ہے۔ امید رکھنی چاہیے کہ اس کے مثبت اثرات اور نتائج برآمد ہوں گے۔'' افغانستان میں ایک دوسرے رکنِ پارلیمنٹ محمد اکبری نے کہا کہ پاکستان کی طرف سے ہماری خفیہ ایجنسی سے جو معاہدہ ہوا ہے، توقع رکھنی چاہیے کہ پاکستان کے خفیہ ادارے اور حکومت افغان عوام کے خلاف دہشت گردوں کے خاتمے میں اپنی توانائیاں صَرف کریں گے اور ہمیں کسی شکوہ شکایت کا بھی کوئی موقع نہیں ملے گا۔ افغانستان کی قومی اسمبلی، جسے ''وولسی جرگہ'' بھی کہا جاتا ہے، اس معاہدے کے حوالے سے منقسم نظر آتی ہے لیکن زیادہ تر ارکانِ اسمبلی نے اس معاہدے پر اطمینان ہی کا اظہار کیا ہے۔
لیکن افغانستان اور پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے درمیان طے پانے والے اس معاہدے کی (افغانستان میں) مخالفت بھی کی جا رہی ہے۔ مثال کے طور پر افغانستان کی سینیٹ کے سربراہ فضل ہادی مسلم یار نے اس پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ سمجھ نہیں آ رہا افغانستان نے کن بنیادوں پر پاکستان کے خفیہ ادارے پر اعتبار کر لیا ہے۔ واضح رہے کہ مسلم یار صاحب نے بھارت سے تعلیم حاصل کر رکھی ہے اور وہ افغانستان میں ''بھارت کے سچے دوست'' کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔ ان کی اتباع میں این ڈی ایس کے سابق سربراہ اسد اللہ خالد اور امراللہ صالح بھی اس معاہدے کی مخالفت کرتے نظر آ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ''آئی ایس آئی اور این ڈی ایس کے درمیان طے پائے جانے والے معاہدے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اور افغانستان مل کر علیحدگی پسندوں کا مقابلہ کریں اور ان کا ٹیٹوا دبائیں گے لیکن افغانستان میں تو علیحدگی پسندی کا وجود ہے ہی نہیں، اس لیے سوال یہ ہے کہ پھر افغان حکمرانوں نے پاکستان سے مل کر اس معاہدے کے بارے میں سوچا بھی کیوں؟
مجھے تو آئی ایس آئی اور این ڈی ایس کے درمیان طے پائے جانے والے معاہدے میں افغانستان اور افغان عوام کے لیے کوئی فائدہ نظر نہیں آ رہا۔'' ایک افغان نیوز ایجنسی بھی مخالفین میں شامل ہے جس نے مذکورہ معاہدے پر بات چیت کے دوسرے ہی روز یہ خبر چلا دی کہ این ڈی ایس کے سربراہ چھیالیس سالہ رحمت اللہ نبیل اس کے مخالف ہیں اور یہی وجہ ہے کہ جب انھیں افغانستان کی قومی اسمبلی میں بعض ارکان کے مطالبے پر اس معاہدے کے حوالے سے اٹھنے والے بعض سوالوں کے جوابات دینے کے لیے بلایا گیا تو انھوں نے جانے سے انکار کر دیا۔ پاکستان اور افغانستان کے سیکیورٹی اداروں میں برسوں سے جو غلط فہمیاں رہی ہیں، اس پس منظر میں تازہ معاہدے کے حوالے سے اگر بعض اطراف سے مخالفت ہوئی ہے تو یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔
لیکن ان مخالفانہ آوازوں کے باوجود افغان صدر جناب اشرف غنی اس معاہدے پر جس طرح ڈٹے ہوئے ہیں، ان کا یہ عزم اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ مسائل اور مشکلات کی موجودگی میں بھی پاکستان اور افغانستان میں پائیدار امن کے خواہاں ہیں۔ جنرل راحیل شریف بھی اس خواہش میں عمل کے سارے رنگ بھرنے کے لیے بھاگ دوڑ کر رہے ہیں۔ سابق افغان صدر حامد کرزئی بھارت جا کر پاکستان کے خلاف گند پھیلانے کی کوششوں سے باز آ جائیں تو پاک افغان سیکیورٹی معاہدے کے لاتعداد ثمرات سمیٹے جا سکتے ہیں۔