قسمت اور دعا

کہتے ہیں کہ چھوٹا سا عمل ایک لمبی چوڑی تقریر پر بھاری ہوتا ہے، تو لفظوں سے نکلیے اور اعمال کی طرف توجہ کیجیے


فرح ناز June 01, 2015
[email protected]

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ 'جوکچھ قسمت میں ہے وہ ضرور ملے گا ' کسی صحابی نے حضرت علیؓ سے پوچھا کہ اگر قسمت میں ہی جو لکھا ہے وہی ملے گا تو دعا مانگنے کا کیا فائدہ۔ پھر ہم کیوں دعا مانگیں۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ 'ہوسکتا ہے کہ دعا مانگ کر ہی ملنا آپ کے نصیب میں لکھا ہو۔'

تو شاید ہم سب کے نصیب میں بھی یہی لکھا ہوا ہوگا کہ ہم اپنے اپنے گناہوں کی بے تحاشا معافی مانگیں تب ہی ہم کو ایک باعزت ملک اور باعزت آزادی نصیب ہو اور تب ہی ہمیں باعزت حکمراں بھی نصیب ہو کہ جیسی قوم ویسے ہی حکمراں! لگتا ہے کہ ایک کے بعد ایک تہلکہ خیز اسکینڈل ہمیں سننے کو ملیں گے، ایان علی کے بعد ایگزیکٹ کا اسکینڈل ۔

اور ابھی آگے کیا کیا سننے کو ملے گا کوئی نہیں جانتا مگر عدل وانصاف کے تقاضے ہیں کہ قانون سب کے لیے برابر ہو اور تمام لوگوں کو مساوی حقوق ملیں۔ یہ باتیں صرف کتابوں تک یا آئین تک نہ محدود ہوں بلکہ ان کو شہروں اورگاؤں دیہاتوں تک ممکن بنایا جائے گوکہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں لوٹ کھسوٹ نیچے سے لے کر اوپر تک چھائی ہوئی ہے، قانون کا اطلاق مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔

کہتے ہیں کہ چھوٹا سا عمل ایک لمبی چوڑی تقریر پر بھاری ہوتا ہے، تو لفظوں سے نکلیے اور اعمال کی طرف توجہ کیجیے۔ اعمال ہی انسان اور جانور میں فرق بناتے ہیں۔ورنہ بھوکا تو اللہ کسی کو نہیں سلاتا کہ تمام تر رزق کے اختیارات اللہ ہی کے پاس ہیں۔

کراچی کا آپریشن اور ضرب عضب ہو یا بلوچستان ہو یا پھر کوئی بھی دہشت گردوں کی پناہ گاہ۔ عسکری قیادت آگے آگے نظر آرہی ہے، یقینا فوج کی ذمے داریوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ، یہ سلسلہ کب تک چلے گا؟ کیونکہ کمزوراداروں کی وجہ سے ملک کے بہت سے معاملات بھی کمزوری کا شکار ہیں۔ مضبوط سول ادارے ہی مضبوط ملک کی بنیادیں ہیں۔ سب سے ضروری ہے کہ پڑھے لکھے ایماندار لوگوں کو سامنے لایا جائے اور ان کے خلاف سازشوں کی بجائے ان کے ہاتھ مضبوط کیے جائیں۔

کمزور حکمرانی اورکمزور نظم و نسق نے بے تحاشا خلا پیدا کردیا ہے اور یہ خلا وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ سیاستدانوں کے خلاف چارج شیٹ اب ڈھکے چھپے راز نہیں رہے، اربوں روپے کی منی لانڈرنگ اللہ جانے وہ بھی کس کس ذرایع سے،کالے کرتوت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں مگر قبروں تک جانے تک شاید یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

مفاد پرستوں کا ٹولہ کبھی کسی کے گرد، کبھی کسی کے گرد نظر آتا ہے، اور جب تک شہد کی مکھیوں کی طرح ان کے گرد منڈلاتا رہتا ہے۔

فوجی قیادت اور وزیر اعظم بار بار اعلان کرتے ہیں کہ دہشت گردی کو ختم کرکے ہی دم لیں گے اور قوم متحد ہے، ناکامی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، شہروں اور بستیوں میں امن ہو اور بے روزگار، تعلیم یافتہ طبقہ بھی صبر و تحمل سے کام لے۔

اگر دہشت گردی کی بات کریں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے جب پڑھے لکھے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان اس میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ اور وہ اپنی ذہانت کو ان دہشت گردی کے کاموں میں استعمال کریں مگر ایک پل کے لیے تو سوچیے کہ آپ کے والدین اور آپ کی اولاد کس جرم کی سزا پائیں، جب آپ کے والدین کو دہشت گرد کے والدین کہا جائے، آپ کی اولاد کو دہشت گرد کی اولاد کہا جائے، یہ کون سا تاج ہے جس کو آپ فخرکے ساتھ ورثے میں چھوڑ کے جا رہے ہیں۔

آرمی چیف وارننگ بھی دے رہے ہیں کہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے والی غیر ملکی قوتیں اور ایجنسیاں اپنی کوششوں سے باز رہیں۔ ہر ذی شعور شہری کا فرض ہے کہ وہ وقت کی نزاکتوں کو سمجھے اورکسی بھی ملکی اور غیرملکی سازشوں کا حصہ نہ بنے لیکن جن کے منہ کو خون لگا ہوا ہو وہ اتنی آسانیوں سے کہاں سمجھتے ہیں اور جو نہیں سمجھتے تو صرف خدا ہی ان کو سمجھا سکتا ہے، خوف آتا ہے ان دہشت گردوں کے جسموں کو دیکھ کر جو بم سے اپنے آپ کو اڑا لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ جنت کا حصہ بن گئے، کاش اپنے منظر وہ مرنے کے بعد بھی دیکھ سکتے۔

بہت ہی ضروری ہے کہ ایک عام آدمی کو بنیادی ضرورتوں سے لیس کیا جائے، موٹر وے، یہ میگا پروجیکٹس بھی ضروری ہیں لیکن اگر ایک عام آدمی اپنی بنیادی ضرورتوں کے لیے ایڑیاں رگڑتا رہے گا تو کرپشن میں اضافہ ہوگا، میگا پروجیکٹس بھی ضروری ہیں مگر ملکی وسائل اور آبادی کو دیکھتے ہوئے آنکھوں کو موندھا نہ جائے محلات سے باہر آکر سوچیے اور وہ کیجیے جس کی آپ سے توقع رکھی جاتی ہے۔

آج کے دور میں انفارمیشن بے حساب، ذہیں بے حساب، ہنرمند اور مہارت کار ایسے ایسے کہ عقل دنگ رہ جائے، اس کے باوجود نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں تنزلی، ترقی سے زیادہ نمایاں نظر آتی ہے۔

گوتم بدھ کہتے ہیں کہ ''دنیا دکھوں کا گھر ہے'' اور شاید اس گھر کو بنانے والے ہم خود ہیں اور ایسے ایسے دکھ کہ جس کس پر انسان روئے اور کتنی مرتبہ مرے۔

عقل اور سمجھداری کا صحیح استعمال ہی ان دکھوں سے نجات دلا سکتا ہے، ایک آدمی کھائے اور دس صرف اس کو کھاتا دیکھیں تو کیسے امن کی فضا برقرار رہ سکتی ہے۔ انفارمیشن، بے ہنگم طوفان نہیں انسان کو عقل اور حکمت ضروری ہے جو یقینا بازار سے نہیں ملے گی اس کو حاصل کرنے کے لیے علم حاصل کرنا پڑے گا، تربیت لینی پڑے گی، بہت سارے سوالات کے جوابات ڈھونڈنے پڑتے ہیں، ہمارے معاشرے میں جذبات اور تعصبات کا غلبہ بے حساب ہے، کسی بھی شکل میں کسی بھی عہدے پر ہو مگر توازن کی کمی شدت سے محسوس کی جاتی ہے، گردنوں کے سریے ایسے فٹ ہوتے ہیں کہ قبر تک ساتھ جاتے ہیں اور پیچھے عبرت کی کہانیاں چھوڑ جاتے ہیں۔

مایوسی ہے کہ روز بروز بڑھتی ہی جا رہی ہے، زبانوں پر تالے لگا دیجیے اگر تالے لگانے سے امید کی کرنیں پھوٹنے کی امید ہو تو! نت نئے ڈرامے روزانہ اسٹیج ہوتے ہیں، نام نہاد اشرافیہ لگتا ہے کہ اب جرائم پیشہ افراد پر مشتمل ہوگی۔

نصیحت کے ساتھ ساتھ اگر اللہ کی ہدایت بھی ساتھ ہوجائے تو شاید بات بن جائے۔ چودہ سو سال پہلے ہی بتا دیا گیا تھا کہ جب لوگوں کے پاس ضرورت سے کہیں زیادہ وسائل جمع ہوجائیں تو جان لو کہ بے شمار لوگ بنیادی وسائل اور ضرورتوں سے محروم ہو رہے ہیں۔

یہاں تو کسی کو جھوٹ اور سچ کا پتہ نہیں چلتا جو جتنا بڑا جھوٹا اور چالباز ہے وہ اتنا ہی کامیاب ہے، پہلے تم پھر میں! اگر یہی پالیسی رہی تو بھی زیادہ دن تک کامیاب نہیں ہوسکے گی کیونکہ سارے اندھے، گونگے، بہرے نہیں، ایک نہ ایک دن تو حساب کا ہوتا ہے ہی اور کس لمحے میں آجائے یہ احتساب کا دن یہ تو صرف اللہ عالی شان ہی جانتا ہے۔ مگر حقیقت اٹل یہی ہے کہ برائی چھوٹی ہو یا بڑی انجام کو تو ضرور پہنچے گی۔

لیکن شدید تکلیف یہ ہے کہ پڑھے لکھے لوگ جب غلامی کی زندگی جینے لگیں، سب کچھ جانتے ہوئے انجان بن جائیں، دکھ و تکلیف میں ایک دوسرے کا ہاتھ نہ پکڑیں، یا اپنے آپ کو بہت زیادہ ہوشیار اور عقلمند سمجھتے ہوئے ایک کونے میں منجمد ہوجائیں توکیا کیا جائے؟ کس طرح اس عقل کل کی جہالت ختم کی جائے، وحی اللہ اتارے یا پھر ہم سب کو جنت کی بشارتیں مل جائیں، یا پھر ہم سب فرشتے ہوجائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں