ہڈیوں کی فصیل
صبح کے اجالے میں بستی والوں نے گھروں کے باہر دیواروں پرمختلف طرح کے نعرے لکھے ہوئے پائے۔
QUETTA:
یان تھی(Yan Thei)برماکا ایک چھوٹاسا گاؤں ہے۔یہ اراکان(Arakan)ریاست میں واقع ہے۔ گاؤں میں ایسی خاص بات نہیں کہ اسے اہم سمجھا جائے۔ مگر یہاں کے باسیوں پرڈھائی جانے والی قیامت نے اس بستی کوقابل ذکربناڈالا۔روہنگیا قوم مسلمان ہے اوریہی ان کا ناقابل معافی جرم ہے۔یان تھی میں ان پسماندہ لوگوں کاایک کیمپ ہے جسے مراک یوٹاؤن شپ (Marak u) کہاجاتا ہے۔
صبح کے اجالے میں بستی والوں نے گھروں کے باہر دیواروں پرمختلف طرح کے نعرے لکھے ہوئے پائے۔ان میں انھیں حکم دیاگیاکہ وہ برما کے جائز شہری نہیں لہذاوہ کہیں اوردفع ہوجائیں کیونکہ یہ جگہ ان کے رہنے سے ناپاک ہوچکی ہے۔بستی کے روہنگیا مسلمانوں میں کوئی بھی پڑھالکھاشخص نہیں تھا۔ انھوں نے مقامی انتظامیہ اورپولیس کواطلاع دی کہ ان کی جان خطرے میں ہے۔ انتظامیہ نے پولیس اور چند فوجی وہاں بھجوا دیے۔
بدقسمت لوگوں کوبتایاگیاکہ اب وہ محفوظ ہیں۔ ایک فوجی افسرنے تمام لوگوں سے لاٹھیاں، چاقو اورہر قسم کی نوکدار چیز جمع کروالی۔جب مقامی پولیس کویقین ہوگیاکہ اب یہ افراد بالکل بے دست وپاہوچکے ہیں تووہ گاؤں سے دور چلے گئے اور ایک خاص اشارہ کیا۔جنگل میں چھپے ہوئے مسلح بدھ جھتوں نے مراک یوٹاؤن شپ پر یلغار کردی۔ ان کے پاس جدید اسلحہ تھا۔
مگرانھوں نے کوئی گولی ضایع نہیں کی۔جھتے کے پاس تلواریں،برچھیاں اور نیزے بھی تھے۔انھوں نے روہنگیا مسلمانوں کوذبح کرناشروع کیا۔ صبح سے شام تک بدھ مت جھتے نے بڑے آرام سے اپناکام کیااوراطمینان سے واپس چلے گئے۔ پوری بستی میں ایک بھی انسان زندہ نہیں رہا۔یہ واقعہ دوسال پہلے 23اکتوبرکوپیش آیا۔برما حکومت نے اس قتل عام کاکوئی نوٹس نہیں لیا ۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پوری دنیامیں روہنگیا مسلمان سب سے زیادہ ظلم کاشکارہیں۔برماکی حکومت نے صرف یہ بیان دیا کہ یہ مغربی پروپیگنڈا اور جھوٹ ہے۔ لیکن اس رپورٹ کاایک ایک لفظ سچ ہے۔ دنیا کے سامنے یہ حقیقت لانے والے وہ محققین ہیں جنہوں نے ان بستیوںمیں جاکرٹھوس شواہداکھٹے کیے اورپھرانھیں بین الاقوامی پریس میں شایع کیا۔ان مظلوم لوگوں کے حق میں آوازاٹھانے والوں میں کسی کابھی تعلق مسلمان ممالک سے نہیں۔ہیومن رائٹس واچ (Human Rights Watch) کسی تعصب کے بغیرپوری دنیامیں انسانی حقوق کی صورت حال کو شواہدکی بنیادپر پرکھتا رہتا ہے۔
ایشیاء ڈیسک کے ڈپٹی ڈائریکٹر فل روبرٹسن(Phil Robertson) نے 153 صفحوں کی ایک رپورٹ شایع کی ہے جو انٹرنیٹ پرموجود ہے۔ اس میں برماکے مسلمانوں کے خلاف تمام اقدامات کوتفصیل سے بیان کیا گیاہے۔ رپورٹ کے مطابق ڈیڑھ لاکھ مسلمانوں کو بے گھر کردیا گیا ہے۔
انھیں غیرمحفوظ اورغلیظ کیمپوں میں رکھاگیاہے۔ان کیمپوں تک کوئی غیرملکی امداد نہیں پہنچائی جاسکتی۔بین الاقوامی اداروں کی طرف سے دی جانے والی امدادکو راستے میں روک لیا جاتاہے۔تمام مقامی مساجدکو حکومتی اداروں نے مسمار کر ڈالاہے۔کیمپ میں اگرکوئی آدمی نماز پڑھنے کی جرات کرے، تواس پربے پناہ تشددکیا جاتا ہے۔
1982ء کے قانون کے مطابق روہنگیا لوگوں کے لیے برماکی شہریت نہیں ہے۔وہ سیکڑوں سال سے ان علاقوں میں رہ رہے ہیں مگرانھیں مقامی شہری تسلیم نہیں کیا جاتا۔ان پر تعلیم، کاروبار یانوکری کے تمام دروازے بند ہیں۔خلائی سیارے سے لی گئی تصاویرنے ثابت کیاہے کہ مسلمانوں کی 13 بستیوں میں ہرجگہ پرتباہی لائی گئی۔ 4862گھر اور عمارتیں مسمارکردی گئیں۔ 348 ایکٹر پرپھیلے ہوئے ان مظلوم لوگوں کے تمام گھرجلادیے گئے۔
برماحکومت کاتعصب اس درجہ بھیانک ہے کہ بیان سے باہرہے۔ان کی فوج،بحریہ،ایلیٹ فورس اور بارڈر فورس کے تمام اہلکاراس طرح کے مظالم کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ایک مسلمان شخص نے جب ایک فوجی سے ہاتھ جوڑکراپنی زندگی کی بھیک مانگی،توقتل کرنے سے پہلے اسکاجواب تھا کہ "تم دعاکروکہ تمہاری زندگی بچ جائے۔ مگرتمہاری دعاقبول نہیں ہوگی"۔ اراکان ریاست میں دو تشددپسندگروہ موجود ہیں۔ ایک بدھ مت راہبوںپرمشتمل ہے اسے"سانگھا" (Sangha) کہا جاتاہے۔
دوسراگروہ مقامی نیشلسٹ ہیں۔ ان کی سیاسی جماعت ہے جس کانام رکھنی نیشلسٹ پارٹی(Rakhni Nationalities Development Party) ہے۔ یہ 2010ء میں قائم کی گئی۔تمام قتل عام ان دونوں گروہوں کی ایما اور تعاون سے ہوتاہے۔مرکزی حکومت ان کی پشت پناہی کرتی ہے۔ روہنگیامسلمانوں پر ہرجگہ آزادانہ آنے جانے پربھی پابندی ہے۔وہ بازار جاکر کوئی چیزنہیں خریدسکتے۔ حکومتی اجازت کے بغیرشادی نہیں کر سکتے۔اگرکوئی روہنگیا مردکسی غیرروہنگیالڑکی سے شادی کرنا چاہے،تویہ قانوناً سنگین جرم ہے۔بچے پیداکرنے پر پابندی ہے۔
اس کے لیے بھی ایک مخصوص ریاستی قانون موجود ہے۔ ان بدنصیبوں کے لیے کوئی اسپتال نہیں۔کیمپوں میں پینے کے لیے گنداپانی دیا جاتاہے۔برمامیں آئین کے مطابق آٹھ قومیں آباد ہیں۔ روہنگیاان میں شامل نہیں۔ان کی تحقیرکے لیے انھیں "بنگالی"کہا جاتاہے جوایک قسم کی مقامی گالی ہے۔بنگالی کا مقامی زبان میں ترجمہ کالار(Kalar) ہے۔ظلم کی حدیہ ہے کہ ماں اوربچہ کے تعلق کوثابت کرنا پڑتاہے۔ماں کوحکم دیاجاتاہے کہ سب کے سامنے بچے کواپنی چھاتی سے دودھ پلائے۔اس سے زیادہ اس مقدس رشتے کی کیاتضحیک ہوسکتی ہے۔
میتھیو اسمتھ(Mathew Smith) "مضبوط حقوق" (Fortify rights)نامی تنظیم کاسربراہ ہے۔اس نے 73صفحے کی رپورٹ شایع کی ہے جس میں حکومت کے جاری کردہ مختلف حکم نامے موجودہیں جوان لوگوں کو ہرطرح کے انسانی حقوق سے محروم کرتے ہیں۔اس میں ریاستی اورمرکزی دونوں حکومتوں کے حکم نامہ نقل کیے گئے ہیں۔ان بدنصیب مسلمانوں کی تعداد13لاکھ ہے۔یہ ایک اورطرح کے ظلم کابھی شکارہیں۔انسانی اسمگلرپیسے وصول کرکے انھیں ملائشیاء، انڈونیشیا،تھائی لینڈ اور دیگر ممالک میں منتقل کرنے کاجھانسا دیتے ہیں۔
پھرسمندرمیں انھیں مرنے کے لیے چھوڑکرغائب ہو جاتے ہیں۔کشتی میں بیشترلوگ بھوک پیاس سے مرجاتے ہیں۔کئی کشتیوں کو منصوبہ بندی کے ذریعے ڈبودیا جاتا ہے۔ جوزندہ بچ جائے،اس کی حالت بھی قابل رحم ہوتی ہے۔کوئی بیرونی ملک انھیں پناہ دینے کے لیے تیارنہیں ہوتا۔برماکی جمہوریت پسندنوبل انعام یافتہ خاتون،آنگ سان سوچی بھی خاموش ہے۔کبھی کبھی اسکامذمتی بیان زیب داستان کے لیے آجاتا ہے۔
یہاں ایک بدھ بھکشوراہب آشین وراتھو کا ذکر بہت ضروری ہے۔وہ پورے ملک میں سب سے طاقتور مذہبی رہنماہے۔وہ تمام روہنگیا مسلمانوں کوواجب القتل قرار دیتا ہے۔اپنی عبادت گاہ کے اندر لوگوں کو امن کی تلقین کرتا ہے۔ لیکن اس کی عبادت گاہ کے باہردیوارں پرروہنگیا مسلمانوں کے خلاف پوسٹراور پُرتشدد نعرے درج ہیں۔ ان میں ایسے نعرے بھی ہیں جن کے مطابق مسلمانوں کوقتل کرنے سے بدھ مت کے پیروکاروں کو ثواب ملتا ہے۔ وراتھوکے انتہاپسند خیالات کے باوجود 2012ء میں اس کے خلاف تمام مقدمات واپس لے لیے گئے۔اب وہ پورے برمامیں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف تقاریرکرتاہے اوران کے خلاف تشددکو جائز قراردیتاہے۔اس کے جلسوں کانام 969 رکھا گیاہے۔
دراصل یہ ان نیکیوں کا شمارہے جوگوتم بدھ نے اپنی زندگی میں کی تھیں۔ ہرجلسے کااختتام ایک جنگی گیت پرہوتاہے۔اس گیت میں ان بدقسمت روہنگیا مسلمانوں کاان الفاظ کاذکر ہوتا ہے "جو برماکی زمین پررہتے ہیں،وہیں سے پانی پیتے ہیں،مگروہ ناشکرے کے ناشکرے رہتے ہیں۔آخرمیں تمام لوگ قسم اٹھاتے ہیں کہ ہم ان لوگوں کے خلاف ایک فصیل بنائینگے اوراسکے لیے پتھراستعمال نہیں ہوں گے۔یہ فصیل ہم جسم کی ہڈیوں سے بنائیں گے"۔تمام مسلمان ممالک اس بھیانک ظلم پر خاموش ہیں۔ کوئی بامعنی بیان تک جاری نہیں ہوتا۔
حجازاورقم بھی چپ ہے۔ اگرآوازاٹھتی ہے توصرف مغربی دنیاسے،جوہمارے نزدیک ہماری دشمن ہے اور کافر بھی۔ سوال یہ ہے کہ مسلم دنیاکے بادشاہ اور رہنما کیا کر رہے ہیں؟ دراصل ان ممالک کے رہنما تواپنی ہی رعایاکاخون چوسنے میں مصروف ہیں! ان کے پاس ان بے سہارا اور غریب روہنگیا مسلمانوں کے لیے کوئی وقت نہیں۔وہ اپنی رعایاکی ہڈیوں کے بنے ہوئے محلوں میں امن اور چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔بدنصیب روہنگیا توصرف نیزوں اور برچھیوں سے مرنے کے لیے پیداہوئے ہیں!