کوئی پرسان حال نہیں
گرمی کی شدت زوروں پر ہے سورج راجا اپنی آب و تاب دکھا رہے ہیں اور اس پر کراچی الیکٹرک کا ستم جاری ہے
KUALA LUMPUR:
گرمی کی شدت زوروں پر ہے سورج راجا اپنی آب و تاب دکھا رہے ہیں اور اس پر کراچی الیکٹرک کا ستم جاری ہے کہ لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بڑھتا جا رہا ہے، اس حساب سے بل بھی مائل بہ پرواز ہیں بھلے لوگوں کا دم نکل جائے مرے کو مارے شاہ مدار مگر کوئی پرسان حال نہیں ہے پھر دھڑا دھڑ نچلے متوسط علاقوں میں کراچی الیکٹرک کا آپریشن جاری ہے پکڑ دھکڑ کا سلسلہ چل رہا ہے۔
اب کوئی بھلا بتائے تو سہی یہ بے چارے جن کے پاس کھانے کے لیے پیسے نہیں ہیں، جن کو جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں ، ماہانہ آمدنی ہزاروں میں ہو وہ لاکھوں کا بل کیسے جمع کرسکتے ہیں وہ بڑے مگرمچھ جو اربوں روپے ہڑپ کرگئے اربوں کھربوں کے قرضے معاف کروا لیے مگر اس عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہے جن کے گھروں میں بلاجواز لاکھوں کے بل بھیج دیے گئے اور نہ جمع کروانے پر کنکشن منقطع کیے جا رہے ہیں کرپشن کیسز میں پھنسے ہوئے ہزاروں سیاستدان پاک و صاف ہوکر نکل گئے مگر ان بے چاروں کے لیے کوئی معافی نہیں، جو صرف ایک دو بلب دو چار پنکھوں اور ایک ٹی وی ہی کل کائنات ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جس طرح فیکٹریوں کے مالکان، سیاستدان، لیڈران اور دیگر کو ہر معاملے میں چھوٹ دی گئی ہے اسی طرح عوام الناس کے ساتھ بھی یہ کیا جاتا کہ پچھلے تمام بل معاف کرکے ان کو پابند کیا جاتا کہ اب ماہانہ بل پابندی سے ادا کریں۔
کنڈا سسٹم ختم کریں اور بل بھرنے والوں کے دھارے میں شامل ہوجائیں تو ہمارا یہ خیال ہے کہ زیادہ تر عوام کنڈا سسٹم کو ختم کردیں گے مگر ناجائز بھیجے گئے بلوں پر اگر کنکشن ختم کیے جائیں گے تو عوام الناس میں بے چینی بڑھے گی اور حکمرانوں کے خلاف نفرت پیدا ہوگی۔ ایک طرف تو یہ حال ہے دوسری طرف نچلے اور متوسط طبقے کی خواتین پر عجیب وقت آپڑا ہے جن کی کل کائنات ان کا کچن ہے اور اپنی اس راج دھانی میں وہ اپنا راج قائم رکھے ہوئے ہیں اور اچھے اچھے کھانے پکا کر معدے کے راستے اپنے مردوں کے دلوں پر راج کر رہی ہیں مگر حکومتوں نے اپنی راج دھانی قائم کرنے کے لیے تو ہزاروں ہتھکنڈے قائم کیے اپنے اللّوں تللّوں پر اربوں کھربوں کو کوڑیوں کی طرح خرچ کیا مگر روزمرہ کی اشیا پر قیمتوں کو بے لگام کردیا کہ جس کا دل چاہے وہ قیمت وصول کرے جس کی وجہ سے گھروں میں رہنے والی خواتین جن کی دنیا ہی کچن تک محدود ہے جو کوئی تہوار ہو پکاکر کھلا کر خوش ہوتی ہیں مگر اب ان کا چولہا بند پڑا ہے۔
مسز سلیم ایک گھریلو خاتون ہیں ان کا کہنا ہے کہ عید و بقر عید ہو یا رمضان ،شب برات پہلے شروع سے تیاریاں شروع ہوجاتی تھیں ہم اپنے بچوں، مردوں، مہمانوں، آس پڑوس والوں کے لیے مختلف پکوان بناکر خوش ہوتے تھے مگر اب تو بھائیں بھائیں کرتا خالی کچن اور بجھا ہوا چولہا ہمیں آٹھ آٹھ آنسو بہانے پر مجبور کرتا ہے کیونکہ ایک عورت کے لیے کتنے دکھ کی بات ہے کہ وہ اپنے پیاروں کی صحت کا خیال نہیں رکھ سکتی۔ بجٹ آنے والا ہے خدارا ممبران اسمبلی مراعات ضرور حاصل کریں جو دل چاہے کریں ہمیں اس سے کوئی مطلب نہیں مگر ہمارے لیے روزمرہ کی اشیا کو قابل حصول بنادیں تاکہ ہمارے گھروں میں بھی خوشیوں کی لہر دوڑ جائے، واقعی اب تو یہ حال ہوگیا ہے کہ متوسط طبقہ نچلے طبقے میں اور نچلا طبقہ غربت کی لکیر کے نیچے ہی تبدیل ہو رہا ہے، رمضان آنے والے ہیں مگر اس سے پہلے ہی قیمتوں کا رخ آسمان کی طرف ہوگیا ہے ،ہر ٹھیلے والا ہر دکاندار من مانی قیمتیں وصول کر رہا ہے۔
لگتا ہے کسی نے ان کے کانوں میں پھونک دیا ہے کہ پھلوں اور سبزیوں کو عوام الناس کی پہنچ سے دور رکھیں اور یہی نظر آرہا ہے خربوزہ 80 اور ٹماٹر 100 روپے کلو ہوں تو کون ہے جو اس کو خریدے گا؟ مشرف دور میں یوٹیلیٹی اسٹور پر رمضان پیکیج کی بدولت اکثریت مستفید ہوتی تھی مگر اب کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ بجٹ آنے والا ہے اور رمضان بھی، عوام کو باعزت زندگی فراہم کرنا، حکومت کا فرض ہے اس لیے ایسے اقدامات کریں جن کی بدولت گھروں میں چولہے جل سکیں۔