سِکاڈا ڈرون ’’مشینی ٹڈے‘‘ فضا سے دشمن کی فوج پر گرائے جائیں گے

یہ مشینی ٹڈے میدانِ جنگ میں دشمن کی نقل و حرکت پر نظر رکھ سکیں گے۔


شاہد علی June 04, 2015
ان مشینی ٹڈوں کو بلندی سے زمین پر بھی پھینکا جاسکتا ہے۔ فوٹو : فائل

مستقبل میں امریکی فوج دورانِ جنگ دشمن پر 'ٹڈوں' کی برسات کرسکتی ہے۔ یہ دراصل ڈرون جہاز ہوں گے جنہیں فضا سے دشمن پر گرایا جائے گا۔ یہ ڈرون اتنے چھوٹے ہوں گے کہ آسانی سے ہتھیلی پر رکھے جاسکتے ہیں۔ ان کا حجم ایک عام موبائل جتنا ہو گا۔

امریکی فوج سے وابستہ ڈرون ٹیکنالوجی کے ماہرین نے ٹڈے نما ڈرون کی تیاری کے بعد تجرباتی پرواز میں اسے ہر لحاظ سے کام یاب پایا ہے۔ اس ڈرون کو 'سکاڈا' کا نام دیا گیا ہے، جو 10 مختلف حصوں پر مشتمل ہے۔ اس میں کوئی موٹر نہیں لگائی گئی بلکہ یہ کاغذ کے جہاز کی طرح ہے جس میں ایک سرکٹ بورڈ موجود ہے۔ اس چھوٹی سی ہوائی گاڑی کو بلندی سے زمین پر بھی پھینکا جاسکتا ہے۔

جو فضا میں تیرتے ہوئے ہدف تک پہنچے گی۔ ماہرین کے مطابق یہ ڈرون دنیا میں عام پائے جانے والے کیڑے یعنی ٹڈے سے متاثر ہو کر تیار کیا گیا۔ آپ نے سنا ہو گا کہ ٹڈے لشکر کی شکل میں زمین پر فصلوں، خوراک کے ذخیروں یا کسی بستی پر بھی حملہ کردیتے ہیں اور وہاں موجود غذائی اجناس کو گویا چٹ کر جاتے ہیں۔ سائنس دانوں کی اس ایجاد کا محور ٹڈوں کی یہی خصوصیت رہی۔

یہ ڈرون امریکی بحریہ کی ریسرچ لیبارٹری کے ماہرین نے تیار کیا ہے۔ اس پروجیکٹ سے منسلک ایرون کاہن کے مطابق ہم ان چھوٹی مشینوں کے ذریعے دشمن کو انتہائی مشکل میں ڈال دیں گے۔ ہم انہیں اتنی بڑی تعداد میں دشمن کے علاقے میں گرائیں گے کہ اس کے لیے انہیں چننا اور ختم کرنا ممکن نہیں ہو گا۔

ماہرین کے مطابق جب کسی طیارے، غبارے یا کسی بڑے ڈرون کو فضا سے گرایا جاتا ہے تو یہ اپنے جی پی ایس سسٹم کو استعمال کرتے ہوئے ہوا میں تیرتا ہوا اپنے ہدف تک پہنچتا ہے۔

یہ ڈرون بھی دیگر مشینوں کی طرح اسی صلاحیت کو استعمال کرے گا۔ ایک آزمائش کے دوران جب سکاڈا ڈرون کو 57600 فٹ کی بلندی سے فضا میں چھوڑا گیا تو یہ ہوا میں تیرتا ہوا اپنے ہدف سے محض 15 فٹ کی دوری پر جا گرا۔ سکاڈا ڈرون 74 کلو میٹر فی گھنٹا کی رفتار سے پرواز کرسکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق چوں کہ اس میں کوئی انجن یا موٹر نہیں ہے لہذا اس کی کوئی آواز بھی نہیں سنائی دیتی اور بڑی تعداد میں دشمن پر گرنے والی یہ چھوٹی مشینیں اسے پریشان کر دیں گی۔ نیول ریسرچ لیبارٹری کے ایک انجینیئر ڈینیل ایڈورڈز کے مطابق یہ ایک اڑتے ہوئے پرندے کی طرح لگتا ہے اور یہ اتنا چھوٹا ہے کہ قریب آنے سے پہلے اسے دیکھنا بھی مشکل ہے۔

ڈرون دراصل بغیر ڈرائیور کے روبوٹ ہیں، جو جدید آلات سے لیس ہوتے ہیں۔ ڈرون طیاروں کے ذریعے ہدف کو نشانہ بنانے اور مطلوبہ نتائج کے حصول میں کام یابی کے بعد سائنس دانوں نے ڈرون ٹینک بھی تیار کر لیا ہے۔ یہ کارنامہ بھی امریکی فوج کے ٹیکنالوجی کے شعبے سے منسلک ماہرین نے انجام دیا ہے۔ ان کا تیار کردہ ٹینک اپنے جدید نظام کی بدولت خود کار طریقے سے ہتھیار لوڈ کرسکتا ہے۔

اس ٹینک کا نام Ripsaw رکھا گیا ہے۔ اسے آزمائش کے دوران ایک کلومیٹر کی دوری سے کنٹرول کیا گیا۔ ایک بکتر بند گاڑی میں موجود فوجی اہل کار نے اس دوری سے ٹینک کے ذریعے اپنا ہدف پورا کیا۔ امریکی فوج اس ٹینک کو بارودی سرنگوں سے بھرے ہوئے علاقے میں داخل کر کے اپنے سپاہیوں کے لیے راستہ بنانے میں مدد لے گی۔ اس ڈرون ٹیکنالوجی پر مشتمل پہلا ٹینک 2009 میں تیار کیا گیا تھا، لیکن آزمائش اور مزید تجربات کے بعد اسے منظرِعام پر لایا گیا ہے۔ یہ ٹینک مکمل طور پر خود کار نہیں ہو گا بلکہ آپریٹر کے ذریعے اس ٹینک سے فائرنگ اور کسی بھی نوعیت کا دھماکا کیا جاسکے گا۔

سکاڈا پر مختلف سینسرز نصب کرنے کے بعد آزمائش کے لیے فضا میں چھوڑا گیا۔ آزمائش کے لیے اس پر موسم کے بارے میں معلومات فراہم کرنے والے سینسرز نصب کیے گئے تھے۔

اس تجربے میں پرواز اور ہدف تک پہنچنے کی صلاحیت کا اندازہ کرنے کے ساتھ ماہرین نے درجۂ حرارت، ہوا کا دباؤ اور نمی کی شرح وغیرہ کا ڈیٹا بھی اکٹھا کیا۔ اس طرح یہ ڈرون فقط جنگی مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ نہیں رہا بلکہ اس کے ذریعے مختلف معلومات بھی حاصل کی جاسکیں گی۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس ننھے ڈرون میں ایسے سینسرز اور مائیکرو فون بھی نصب کیے جاسکتے ہیں جو میدانِ جنگ میں دشمن کی نقل و حرکت پر نظر رکھ سکیں گے اور تمام ڈیٹا اپنے کنٹرول روم تک پہنچا سکیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں