حق کی آمد اور باطل کا فرار
یہ کیسے طالبان ہیں جو مومن کی میراث کو تباہ کرتے چلے جا رہے ہیں
پُر عزم ارادوں سے مزین خوبصورت آواز' معصوم لیکن ملک کا مستقبل روشن دیکھنے اور بہت کچھ کر دکھانے کا متمنی پرُامید چہرہ
جس نے کروڑوں پاکستانیوں کو جھنجھوڑ کر مایوسی کی دلدل سے نکالنے کے لیے نعرۂ حق بلند کیا اور اسکول لیول تک کے بچوں میں علم کی طاقت کی جوت جگا دی۔ لیکن تاریکی اور جہالت، موت اور کفر کے علمبرداروں نے گزشتہ دنوں اس کے دمکتے چہرے کو لہولہان اور اس میں جڑی ستارہ آنکھوں کو بجھانے کی ناکام و مذموم کوشش کی۔ ملالہ یوسف زئی نے اپنے علاقے سوات میں گمراہ دہشت گردوں کے ہاتھوں تعلیمی اداروں اور خصوصاً لڑکیوں کے اسکولوں کی مسماری و بربادی کے مناظر دیکھے تو اس نے سوچا، یہ کیسے طالبان ہیں جو مومن کی میراث کو تباہ کرتے چلے جا رہے ہیں۔
وہ تعلیم اور امن کی سفیر بن کر منظر عام پر آ گئی اور اپنے عزم کا برملا اظہار کرنے لگی، اسے اپنے پیغمبرؐ کا فرمان یاد تھا کہ علم کی جستجو کے لیے سرحدیں پار کر کے چین جیسے دور دراز علاقے میں جانے سے بھی گریز نہ کرو۔14 سال کی کمسن بچی کا ارادہ مصمم اور انداز ایسا تھا کہ اس کی آواز سات سمندر پار تک سنی گئی اور اس کا پیغام تو صرف امن اور حصول علم کے اصرار تک محدود تھا جو نہ صرف مبنی برحق تھا بلکہ بقائے انسانی کے لیے اور ہر مذہب بشمول دہریوں کی تعلیمات سے بھی متصادم نہیں تھا البتہ اس نے اپنے آیندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں ملکی سیاست میں آ کر حق اور سچ پر عمل پیرا ہونے کا بھی اظہار کیا تھا تو یہ کس مذہب میں واجب القتل جرم ٹھہرا؟ملکی سیاست کو منافقت، فریب، کرپشن، بدانتظامی اقربا پروری، دہشت گردی، ہیرا پھیری، ناخواندگی، افلاس اور جھوٹ کی غلاظتوں سے کون سا اچھا انسان ہے جو پاک نہیں کرنا چاہے گا۔
لیکن ایک Vicious Circle ہے جو ہر کسی کو اپنی لپیٹ میں لیے اس میں سے نکلنے نہیں دے رہا۔ ہر کوئی دوسرے سے پہل کرنے کی توقع میں گندگی کے ڈھیر سے خود کو الگ کرنے میں مشکل پاتا ہے اور ہر شخص بقدر استطاعت دوسرے کا گوشت نوچ رہا ہے اور یہ سوچ کر اپنے خون آلود ناخن صاف نہیں کرتا کہ دوسرے اس کا خون پی جائیں گے۔ جس قدر کوئی صاحب اختیار و اقتدار ہے اسی سائز کا خون میں نچڑتا نوالہ توڑتا ہے اور خود غرضی میں دوسروں پر سبقت لے جانے میں مگن ہے۔ چھوٹے چھوٹے انسان نما کیڑے بھی اپنے حصے کی ہڈی چبا رہے ہیں کیونکہ زندگی تو انھیں بھی عزیز ہے۔
عمران خان نامی اسپورٹس مین نے بھی اپنی جوانی میں زن، زر اور زمین کو اپنے بہت قریب سے دیکھا ہو گا اور پھر اس نے دھن دولت اور اقتدار کو اپنی منزل بنانے کے بجائے اپنی ماں کی یاد میں فلاحی کام کرنے میں سکون پانے کا ارادہ کیا۔ ایک اسپتال، ایک یونیورسٹی، کھرب پتی فیملی میں شادی، جنرل مشرف کا اقتدار میں آ کر سیون پوائنٹ ایجنڈا، اسپتال کی Endowment Fund تقریب میں جنرل مشرف کی اپنی والدہ اور گورنر خالد مقبول سمیت موجودگی۔ ہم نے بھی اس تقریب میں شمولیت کر کے حالات کا جائزہ لیا۔
لیکن اندازہ ہوا کہ مشرف کو اس کے سات پوائنٹ کے ساتھ کوئی سیاسی جماعت قبول نہیں کرے گی اور عمران خان کو ان سات پوائنٹس ایجنڈے کے بغیر مشرف قبول نہیں ہو گا۔ مشرف کے ابتدائی دنوں میں دو کتیّ ان کی اخباری تصویروں میں ان کے ہمراہ ہوتے تھے۔ ان کی بیگم ساڑھی زیب تن کرتیں اور ان کا ہیرو کمال اتاترک تھا۔ پھر یہ تینوں چیزیں غائب ہو گئیں اور پھر وہی پرانی لین دین کی سیاست اور عمران خان نے بھی جنرل مشرف کو خدا حافظ کہہ دیا۔ مشرف کے جانے کے بعد حالات اتنے دگرگوں ہوئے کہ محترمہ کے قتل کے حوالے سے کسی کو سچ کہنے کی ہمت نہیں ہوتی۔
حالانکہ فوجداری جرم میں جج یا مجسٹریٹ استغاثہ کی شہادتیں نہ ہونے کے باوجود یہ ضرور سوچتا ہے کہ جرم کےbeneficiaries کون کون ہیں۔ شاید کبھی یہ آنے والا وقت بتا دے۔اس وقت عمران خان کی تحریک انصاف کے سوا تمام سیاسی کھلاڑی وہی ہیں جنہوں نے کئی کئی بار حکومت کرنے کے باوجود ملک کو بد سے بدتر حالات سے دوچار کیا ہے، اگر کسی سے بہتری کی توقع تھی تو وہ مرکز اور تین صوبوں کی پارٹنر پارٹیاں ہیں جن کے پاس بلا شرکت غیرے بھر پور مینڈیٹ ہے اور وہیں ہر قسم کی بد نظمی لا قانونیت اور کرپشن عروج پر ہے جب کہ پنجاب کا ون مین شو بھی مثالی نہیں۔
پاکستان تحریک انصاف نئی اور نو آموز پارٹی ہے جب کہ سوات سے اٹھنے والی نو عمر بچی ملالہ یوسف زئی کی جرأت و صداقت کی گرج اور چمک سے بھر پور آواز دراصل جوان اور بیدار ہوتی ہوئی پاکستان کی اس نسل کی عزم و ہمت کی کڑک ہے جس کے آگے باطل کی یلغار کو منہ کی کھانی پڑے گی۔ ملالہ جو اب ہر شہر گلی کوچے بازار اور گھر کی آواز ہے اس نے تو ابھی امن اور تعلیم کی بات ہی کی تھی کہ باطل ظلم نفرت گمراہی اور حیوانی عفریتوں کی صفوں میں بھگدڑ مچ گئی اور انھوں نے سچ کی آواز پر خوفزدگی سے حملہ کر دیا۔ اسی آواز کو عمران خاں سیاسی آہنگ میں عوام تک پہنچا رہا ہے۔ آج ہر دفتر، اسکول، تنظیم، مارکیٹ، مسجد اور مکان سے کروڑوں کی تعداد میں سسکیوں بھری دعائیں رب زمان و مکاں کی طرف جاتی سنی جا سکتی ہیں کہ اے مالکِ کُل ملالہ کی عمر دراز کر اسے جسمانی اور دماغی صحت و سلامتی بخش تا کہ ملک کی خیر ہو اور اس کے کروڑوں عوام حق و باطل میں تمیز کرنے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہو جائیں۔