پیدائش سے پہلے علاج
مسلمان ممالک میں نہ ختم ہونے والاعلمی جموداورلامتناہی سناٹاہے
آئس لینڈ یورپ کابہت چھوٹاساملک ہے۔مگریہ حیرت انگیزحدتک ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں آتاہے۔ 1994ء میںاس کے تین سائنسدانوں نے ایک حیرت انگیز فیصلہ کیا۔انھوں نے اپنے ملک کی تمام آبادی کاجین بینک (Gene Bank)بنانے کااعلان کرڈالا۔اس مقصد کے حصول کے لیے انھوں نے ایک نجی کاروباری کمپنی بھی کی تشکیل کی۔کمپنی کانام ڈی کوڈ(De Code) رکھا گیا۔ ادارے نے پورے ملک کے لیے ایک ڈیٹابینک بناناشروع کردیاجس میں انسان کی جین کے مطابق اس کی تمام معلومات موجود تھیں۔ قدامت پسندلوگوں نے اس پربے انتہاتنقیدبھی شروع کردی۔کمپنی کے تین شراکت دار تھے۔
ارنر،کاری اورکسٹوفر۔ انھوں نے میڈیااورسائنسی تحقیق کے ذریعے لوگوں کو بتانا شروع کردیاکہ دراصل وہ جین بینک کو انسانی صحت کی بہتری کے لیے استعمال کرناچاہتے ہیں۔ان کی ریسرچ کے مطابق اگربیماری کی جینزکوانسان کے جسم سے کسی بھی مرحلہ پرنکال دیاجائے تووہ ایک صحت مندزندگی گزار سکتا ہے۔معاملے کی سنجیدگی کومدِنظررکھتے ہوئے یہ تمام تحقیق اور سائنسی دعوے آئس لینڈکی پارلیمنٹ میں1998ء میں پیش کردیے گئے۔پارلیمنٹ میں طویل بحث ہوئی۔
قانونی، اخلاقی،دینی اورسماجی پہلوؤں پر بحث اور تجزیہ کے بعدڈی کوڈکمپنی کوانسانی جین کے ڈیٹابینک بنانے کی قانونی اجازت دے دی گئی۔ دراصل یہ ریسرچ سائنس اورٹیکنالوجی کی دنیامیں ایک ایسے انقلاب کی بنیاد بن رہی تھی، جس کااندازہ کسی کوبھی نہیں تھا۔میری دانست میں انقلاب کالفظ بھی اس تبدیلی کی صحیح عکاسی نہیں کر سکتا۔مستقبلِ قریب میںہم انسانی تاریخ کو دراصل دوحصوں میں تقسیم کرینگے۔ایک اس نادرسائنسی تکمیل سے پہلے اورایک اس کے بعد!سولہ سال قبل یہ محض دیوارکی پہلی اینٹ یابارش کا پہلاقطرہ تھا۔
کمپنی نے2007ء تک ریاضت اورمحنت سے انسانی جین اورڈی این اے پرعبورحاصل کرلیا۔ انھوں نے اعلان کردیاکہ کوئی بھی شہری اپنے آپکومستقبل میں ہونے والی بیماریوں کوپہلے سے جان سکتاہے اورپھران سے بچ بھی سکتا ہے۔ڈی کوڈنے جین سکین (Gene Scan) ترتیب کرنا شروع کردیا۔یہ کسی بھی انسان کے ڈی این اے اورحیاتاتی خلیوں کامکمل اورمستندنقش تھا۔اس مقصدکے لیے مریض کوان کی لیبارٹری میں آنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔وہ اپنانمونہ (Swab)بھجواتاتھا۔تھوڑی دیرمیں اس کے ڈی این اے کامکمل تجزیہ بذریعہ ای میل اسکوموصول ہوجاتاتھا۔
اس انقلاب سے 45مہلک بیماریوں کی نشاندہی ممکن ہوچکی تھی جن سے آپ پہلے ہی سے بچ سکتے ہیں۔دل کی بیماریاں، شوگر، کینسر اور دیگرمہلک بیماریاں اس فہرست میں شامل تھیں۔دوسرے مرحلہ میں اس جین سکین کے بعدآپ بیماری کے جینزکواپنے جسم سے نکلوانے کااختیاربھی رکھتے تھے۔یعنی اب آپکوکینسرنہیں ہوسکتاکیونکہ اس بیماری کی جین آپکے جسم سے نکال دیے گئے ہیں۔
تمام صورتحال میں ایک پہلونظراندازہوچکاتھا۔وہ یہ کہ ہرانسان کے سکین کوکس طرح مکمل طورپرکسی غیرمتعلقہ شخص کی دسترس سے محفوظ رکھاجائے۔یعنی تمام معلومات کی سیکیورٹی اوراس کی حفاظت کاٹھوس نظام!ڈی کوڈکمپنی کواندازہ نہیں تھاکہ ان کاتحقیقی کام اس قدرمقبول ہوجائیگااورانھیںہرشہری کی نجی معلومات کی بھرپورحفاظت کرنی پڑیگی۔
چندغلطیوں کے ارتکاب کے بعدکمپنی نے تمام حفاظتی تدابیرپرمشتمل ایک مربوط نظام بنالیااوریہ ڈیٹابالکل محفوظ ہوگیا۔یہ ایک نجی تحقیقی ادارہ تھااوراس کے اخراجات بہت زیادہ تھے۔لہذایہ کمپنی مالی مشکلات کاشکارہوگئی۔مگراس قلیل وقت تک دنیاکے اعلیٰ تحقیقی ادارے اس نایاب اوراچھوتے کام کوبھانپ چکے تھے۔ لہذا امریکا میں اس کام کوآگے بڑھانے پراربوں ڈالرخرچ کیے گئے۔
نجی شعبہ اس عظیم کام میں پیش پیش رہااوربالاخرکامیاب ہوگیا۔نتائج بے پناہ انقلابی نوعیت کے تھے۔انسان کوہونے والی تمام بیماریوں کوپیدائش سے پہلے ختم کیاجاسکتاہے۔یہ وہ اصول ہے جس نے میڈیسن کی بنیاداوراس پرتحقیق کومکمل طور پربدل کررکھ ڈالا۔شائداکثرلوگوں کے لیے ناقابل یقین بھی! بچے کی پیدائش سے پہلے سے مستقبل میں ہونے والی تمام بیماریوں کاتعین کیاجاسکتاہے۔علاج بہت سادہ تھا۔بیماری کی جینزکوپیدائش سے پہلے بچے یابچی کے ڈی این اے نکال دیا جائے۔میں میڈیکل کے مشکل الفاظ استعمال نہیں کرنا چاہتا۔ مگریہ کام پیدائش سے آٹھ مہینے پہلے سرانجام دیاجاتا ہے۔ اس اَمرسے آپکواندازہ ہوجائیگاکہ اس نازک کام کے لیے کتنی مہارت کی ضرورت ہے!
اسی تحقیق کے بطن سے ایک نئی اور مکمل سائنس نے جنم لیا۔اسکامرکزجین اوراسکومکمل یاقدرے طورپرتبدیل کرنا تھا۔ یہ طب کی وہ شاخ ہے جسکے پنپنے سے انسان کی زندگی پر محیرالعقول اثرات پڑینگے۔اب امریکا اوربرطانیہ میں لاتعدادادارے جین تھراپی(Gene Therapy) کو باقاعدہ مریضوں کے لیے استعمال کررہے ہیں۔اس شعبہ کے ماہرین اس چیز پر قادرہوچکے ہیں کہ اگرکوئی جین بیماری پیداکرچکی ہے تووہ اسے غیرموثرکرسکیں۔وہ اس مقام تک بھی پہنچ چکے ہیں کہ اگرکوئی بیماری دوائیوں سے قابومیں نہیں آرہی تووہ انسان کے بدن میں ایک نئی اور تواناجین ڈال سکیںجواس بیماری سے لڑے اوراسے ختم کردے۔امریکا کی یوٹایونیورسٹی میں Genetic Scienceکوسیکھنے کاایک مرکز موجود ہے۔
آپ وہاں جائیے، وہ آپکوجین تھراپی کے تمام اثرات اور جزئیات سے آگاہ کرینگے۔لندن میں نیشنل ہیلتھ سروس (National Health Service)نے جین تھراپی کے متعلق تمام معلومات ہرشہری کے لیے کمپیوٹرپرفراہم کردی ہیں۔ آپ اپنے کمرے میں بیٹھ کرتمام معلومات لے سکتے ہیں۔ یہ ایک نئی سائنس ہے لہذاحکومتی سطح پراسکوکنٹرول کرنے کے لیے مختلف ادارے بنائے گئے ہیں جواس کے غلط استعمال کوروکنے کے تمام قانونی اختیاررکھتے ہیں۔وہ کسی بھی کلینک کی کارروائی یاکسی ایسے تجربہ کوروک سکتے ہیں جوان کی نظرمیں انسانی صحت کے لیے مضرہے۔جین تھراپی مستقبل میں انسانی صحت پرکیااثرات ڈالے گی،ابھی اسکاادراک تک نہیں کیا جاسکتا۔ممکن ہے کہ کسی قسم کے اسپتالوں اورڈاکٹروں کی ضرورت ہی نہ رہے۔
اب میں اس تحقیق کے عملی پہلوکی طرف آتا ہوں۔ ڈاکٹرالزبتھ پری ایٹنر(Elizabath Preatner)امریکا میں مقیم ہیں۔وہ بچوں کی جینز اورڈی این اے میں ڈاکٹریت کی ڈگری رکھتی ہیں۔انھوں نے اس نازک کام کے لیے اپنا کلینک شروع کیاہے۔اسکانام(Gene Choice) ہے۔ آپ اس کلینک سے انٹرنیٹ پربھی استفادہ کرسکتے ہیں۔یہ بچوں کی پیدائش سے پہلے والدین کواسکین کے ذریعے بتادیتی ہیں کہ ان کے لختِ جگریانورِچشمی کومستقبل میں کون کون سی بیماریاں ہوسکتی ہیں۔وہ آسانی سے بتاتی ہیں کہ چالیس سال بعدان کی اولادشوگر،بلڈپریشریاڈپریشن جیسے مہلک مرض کاشکار ہوسکتی ہے۔
والدین کی اجازت سے وہ ان بیماریوں کو پیدا کرنے والی تمام جینزکونکال دیتی ہے۔مگروہ والدین سے ایک اورسوال بھی کرتی ہے،کہ وہ اپنی اولادکوجسمانی اورذہنی طور پر کس طرح کادیکھناچاہتے ہیں۔مثلاًکیابیٹے کاقدچھ فٹ ہو، بال سنہری ہوں۔کیابیٹی کی آنکھیں نیلی ہوں اوراس کے بال ایک خاص رنگ کے ہوں!اس طرح کی تمام خواہشات، ڈاکٹر الزبتھ پیداہونے والے بچوں میں جین کی تبدیلی (Gene Replacement)کے ذریعے ممکن بنادیتی ہیں۔
ڈاکٹر الزبتھ کے بقول آپکی اولادکاحق ہے کہ آپ انھیں دنیا میں ہر بہترین چیزاورماحول مہیاکریں!اوریہ تمام کام اولادکے پیدا ہونے سے قبل کردیاجاتاہے۔اس طرح کے لاتعدادکلینک اب امریکا کے ہربڑے میڈیکل سینٹر میں موجودہیں اوروہ آنے والی انسانی نسل کومختلف بیماریوں سے محفوظ رکھنے کی سرتوڑکوشش کررہے ہیں۔یہ ایک مہنگاعلاج ہے اورابھی تک عام آدمی کی دسترس سے تھوڑا سا دور ہے۔مگردس بارہ سال میں اس علاج کے اخراجات اتنے کم ہوجائینگے کہ مغربی دنیا کا ہر والدہ اوروالد اپنی اولادکومستقبل میں آنے والی بیماریوں سے بچاسکے گا۔
اب آپ دنیاکے اس حصے میں آئیں جہاں ہم لوگ رہتے ہیں۔دنیامیں46ممالک میں مسلمان اکثریت میں ہیں۔اس کے علاوہ پچیس سے تیس ممالک میں وہ مختلف شرح فیصدمیں موجودہیں۔مسلمانوں کی مکمل آبادی1.7بلین افراد پرمشتمل ہے۔یہ انگولاسے لے کرنیپال تک،امریکا سے لے کربلجیئم تک،ہرجگہ موجودہیں۔ان میں کویت،سعودی عرب، یو اے ای اورقطرجیسے امیرترین ممالک بھی شامل ہیں۔ مگر جدیدعلوم اورسائنس میں عالم اسلام کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے۔
تحقیق اوروہ بھی اعلیٰ درجہ کی جدیدتحقیق، ان کے بس سے باہر ہے۔شائدان کے حکمرانوں کے تخیل کی پروازسے بھی!مختلف مسلمان ممالک کے پاس بے انتہا سرمایہ موجودہے مگروہ اسے جدیدعلوم اورتحقیق پرصَرف کرنے کے لیے بالکل تیارنہیں۔جین تھراپی جیسے نوزائیدہ علم پرتوشائدابھی تک مسلمان ممالک میں شعوری اوردلیل پرمبنی بحث تک ممکن نہیں!یہ الگ بات ہے کہ تمام مسلمان ممالک کے امیرخاندان امریکا میں اس سائنس سے بھرپور مستفید ہورہے ہیں۔وہ اپنے آنے والی اولاد کو ہر طرح کی بیماریوں سے مکمل طورپرمحفوظ رکھناچاہتے ہیں۔
رہے عام شہری،توانھیں مقدراورناانصافی کی بیماری کا سامنا کرنے کے لیے کھلاچھوڑدیاگیاہے!مسلمان ممالک میں نہ ختم ہونے والاعلمی جموداورلامتناہی سناٹاہے!شائداب اس خاموشی کوختم کرناکسی کے بس کی بات نہیں۔