آئی سی سی کی صدارت کا ہما اب ظہیر عباس کے سر بیٹھے گا

ظہیر عباس کو کبھی رنز بنانے کی مشین کہا گیا تو کبھی ایشین بریڈ مین کے نام سے پکارا گیا۔


Mian Asghar Saleemi June 07, 2015
بھارت کے مایہ ناز بلے باز سنیل گواسکر بھی ظہری عباس سے متاثر تھے۔ فوٹو: فائل

سنیل گواسکر وہ ممتاز بھارتی بیٹسمین ہیں جنہیں ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے زیادہ رنز بنانے کا عالمی اعزاز حاصل رہا ہے، وہ جب میدان میں بیٹنگ کے لئے آتے تو بڑے سے بڑے بولر کے بھی چھکے چھڑوا دیتے، اپنے عمدہ کھیل کی وجہ سے کروڑوں دلوں میں گھر کرنے والے یہ عظیم بیٹسمین خود بھی ایک پاکستانی بلے باز سے خاصے متاثر رہے۔

گواسکر کے مطابق جب وہ بیٹنگ کے لئے آتے تو کریز پر جم جاتے اور بولرز کی خوب دھلائی کرتے ہوئے تیزی سے رنز بنانا شروع کر دیتے، جب ہماری ٹیم انہیں پویلین واپس بجھوانے میں ناکام ہو جاتی تو ہمارے پلیئرز ان کے پاس جا کر کہتے اب بس کرو، اب بس بھی کر دو،ایک اور بھارتی کھلاڑی بشن سنگھ بیدی نے ان کے بارے میں کہا کہ جب ہمارا گرین شرٹس کے ساتھ میچ پڑتا تو ہم کہتے کہ کل ہماری ایک بڑے بیٹسمین کے آگے پیشی ہے، انہیں دنیا بھر کے ممتاز کرکٹرز، مبصرین اور شائقین نے مختلف الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا، کبھی انہیں رنز بنانے کی مشین کہا گیا تو کبھی ایشین بریڈ مین کے نام سے پکارا گیا۔

کبھی ان کی بیٹنگ تکینکس کو سراہا گیا توکبھی ان کے جاندار سٹروکس کا چرچا عرصے تک شائقین کرکٹ کے لبوں پر رہتا۔ وہ ماضی کے عظیم کرکٹر تو تھے ہی لیکن ان کے شریف الفنس مزاج اور مصالحت پسند پالیسی نے بسا اوقات ان کے لئے خاصی مشکلات بھی پیدا کیں، نجم سیٹھی کے انکار کے بعد پی سی بی نے اس سٹائلش بیٹسمین کو آئی سی سی کی صدارت کے لئے نامزد کیا ہے توان کا نام ایک بار پھر موضوع بحث بن گیا ہے۔

جی ہاں، ماضی کے عظیم بیٹسمین ظہیر عباس اب کرکٹ کی عالمی باڈی میں پاکستانی کرکٹ کا کیس لڑیں گے، سابق کپتان نالاں ہیں کہ ان کی ملکی خدمات کے پیش نظر انہیں وہ عزت نہیں دی گئی جس کے وہ اصل حق دار تھے اور ہمارے سینئر ساتھی اور ایڈیٹر سپورٹس سلیم خالق سے ملاقات میں وہ دل کی بات زبان پر لے ہی آئے، دلبرداشتہ سابق ٹیسٹ کرکٹرکا کہنا تھا کہ موجودہ نوجوان نسل یہ نہیں جانتی کہ ظہیر عباس کون ہے، اس کے کرکٹ کے میدان میں کیا کیا کارنامے ہیں۔

انہیں رنز بنانے کی مشین کیوں کہا گیا؟ ایشین بریڈ مین کے خطاب سے کیوں نوازا گیا؟ ماضی کے سٹائلش بیٹسمین کے بارے میں مزید لکھنے سے پہلے قارئین کی معلومات کے لئے انہیں 1960-70ء کی دہائی میں واپس لے جانا چاہوں گا تاکہ وہ جان سکیں کہ ظہیر عباس کے ملکی کرکٹ پر کیا کیا احسانات ہیں۔ سید ظہیر عباس کرمانی المعروف ظہیر عباس 24 جولائی 1947ء میں شہر اقبال سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ 24 اکتوبر1969ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف کراچی میں ٹیسٹ کیریئر کا آغاز کیا، پہلے ٹیسٹ میں بیٹنگ کے کھل کر جوہر دکھانے میں ناکام رہے تومخالفین نے ان کی مخالفت میں زمین آسمان ایک کر دیا، عالمی مبصرین نے بھی تبصرے کئے کہ ان کی بیٹنگ تکنیک ہی ٹھیک نہیں ہے ۔

تاہم برمنھگم میں انگلینڈ کے خلاف شیڈول اپنے کیریئر کے دوسرے ہی ٹیسٹ میں انہوں نے 544منٹ کریز پر ٹھہر کر 274 رنز کی تاریخ ساز اننگز کھیلی تو تنقید کے نشتر چلانے والے ان کی بیٹنگ کے گن گانے لگے۔22 اگست 1974ء انگلینڈ ہی کے خلاف اوول کے مقام پر وہ ایک بار پھر انگلش بولرز پر خوب برسے اور 240 رنز بنائے اور گورے تماشائی ہکا بکا رہ گئے۔ 27اکتوبر1978ء میں ظہیر عباس کی لاہور میں بھارت کے خلاف 235رنز اورچار سال بعد 215 رنز کی پٹائی بھارتی کرکٹرز ابھی تک فراموش نہیں کر پائے، ٹیسٹ میں مسلسل3 سنچریاں بنانے اور فرسٹ کلاس میں سنچریوں کی سنچریاں بنانے کے منفرد اعزازات بھی انہیں کے حصہ میں آئے۔ ماضی کے عظیم بیٹسمین کے کارناموں کی مکمل تفصیل بیان کی جائے تو شاید صفحات کم پڑ جائیں۔

بلاشبہ کرکٹ کے میدانوں میں ظہیر عباس کے کارناموں سے انکار نہیں کیا جا سکتا تاہم ان کی شخصیت پر ہمیشہ تنقید کی جاتی رہی ہے، ان کے بارے میں کہا جاتا رہا ہے کہ یہ مضبوط قوت ارادی کے مالک ہیں اور نہ ہی ان میں قائدانہ صلاحیتں موجود ہیں۔1992ء کے ورلڈ کپ کے فاتح کپتان عمران خان کے مطابق میں نے اپنی زندگی میں ظہیر عباس سے زیادہ بہتر تکنیک والا بیٹسمین آج تک نہیں دیکھا، میرے اس دوست کو ٹائمنگ کے فن میں صاحب کمال سمجھا جاتا تھا۔

اس میں یہ صلاحیت قدرتی طور پر موجود تھی،1978ء میں اس نے پاکستان کا دورئہ کرنے والی بھارتی ٹیم کا بولنگ اٹیک تباہ کر کے رکھ دیا تھا، محض ایک برس کے بعد جب ہم بھارت گئے تو شائقین نے اس سے بے پناہ امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں، صاف دکھائی دے رہا تھا کہ وہ ان امیدوں کے بوجھ تلے دبا جا رہا ہے، ناکامی کے خوف کا تدارک کر کے اپنے کھیل کو بہتر انداز میں آگے بڑھانے کی بجائے اس نے دوسری سمت میں دیکھنا شروع کر دیا، سب سے پہلے اس نے اپنی بیٹنگ تکنیکس کے ساتھ چھیڑ خوانی کی، کچھ روز بعد وہ آنکھوں کا معائنہ کروا رہا تھا، اس کے خیال میں کسی نے اس پر کالا جادو کر دیا تھا، آخر کار اس بلے باز کو ٹیم سے الگ ہونا پڑا، سالہا سال کے مشاہدے سے میں نے یہ سیکھا ہے کہ بہت سے لوگ محض اس لئے نامرادی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں اور اپنی ناکامی اور درست تجزیہ کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں کیونکہ وہ اپنی صلاحیتوں کے مطابق بروقت درست فیصلہ نہیں کر پاتے۔

ظہیر عباس پر یہ بھی اعتراض کیا جاتا ہے کہ اوول ٹیسٹ تنازعہ میں وہ برابر کے ذمہ دار تھے، اگر وہ ٹیم منیجر کی حیثیت سے اپنے فرائض احسن طریقے سے انجام دیتے تو پاکستانی ٹیم انگلینڈ کے خلاف نہ صرف ٹیسٹ جیت سکتی تھی بلکہ عالمی سطح پر ملکی جگ ہنسائی سے بھی بچا جا سکتا تھا۔ نجم سیٹھی نے انہیں اپنا مشیر خاص بنایا تو بھی وہ تنقید کا نشانہ بنائے گئے، ایک وقت میں ان کا نام چیئرمین پی سی بی کے لئے بھی لیا جاتا رہا تاہم عین موقع پر کرکٹ بورڈ کی پرکشش نشست نجم سیٹھی نے سنبھال لی۔

نجم سیٹھی کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ بڑے دانا، دور اندیش اور جوڑ توڑ کے ماہر ہیں، کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتے، مستقبل میں انہیںخسارے کا اندیشہ ہو تو ان کی ''چڑیا'' انہیں اس نقصان کی پیشگی اطلاع دے دیتی ہے۔

نجم سیٹھی کو آئی سی سی کا صدر بنانے کے لئے سب تیار تھے تاہم انہوں نے یکدم یوٹرن لے کر سب کو حیران کر دیا ہے، شاید ان کی چڑیا نے انہیں بتا دیا ہو کہ کرکٹ کی عالمی باڈی کی صدارت ان کے لئے سراسر گھاٹے اور خسارے کا سودا ہے اور وہ پی سی بی کی طرف سے ملنے والے تمام اختیارات کھو دیں گے جس کے بعد آئی سی سی کی صدارت کا قرعہ ظہیر عباس کے نام نکالا ہے۔

ظہیر عباس کے ماضی کا باریک بینی کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو ان کی زندگی نشیب وفراز کا مجموعہ نظر آتی ہے،ابتداء میں جو لوگ ان کی شدید مخالفت کرتے ہیں، کچھ عرصہ کے بعد وہی ان کے لئے تالیاں بجا رہے ہوتے ہیں۔

پی سی بی نے انہیں آئی سی سی کے صدر کے لئے نامزد کیا ہے تو یہ آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں کہ نسبتا کمزور شخصیت کے مالک ظہیر عباس کو صدر نامزد کر کے بورڈ حکام نے ایک اور بڑی غلطی کی ہے، کرکٹ کی عالمی باڈی کے اہم عہدہ کے لئے ماجد خان، رمیز راجہ، عبدالقادر یا جاوید میانداد کا انتخاب کیا جاتا تو زیادہ مناسب ہوتا۔گو کہا جا رہا ہے کہ آئی سی سی کی صدارت کا عہدہ رسمی ہے تاہم ظہیر عباس پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی مکمل بحالی، آئی سی سی میں بھارت کی اجارہ داری، پیسے کی ریل پیل کی وجہ سے بی سی بی آئی کا ہمسایہ ملکوں بنگلہ دیش، سری لنکا اور دنیا کے دوسرے ملکوں پر بے جا دباؤ، آئی پی ایل میں پاکستانی کھلاڑیوں کی عدم شرکت سمیت دوسرے اہم مسائل سے بخوبی نبرد آزما ہوکر اپنے مخالفین کو باور کروا سکتے ہیں کہ وہ نہ صرف اچھے کرکٹرہیں بلکہ انتظامی معاملات میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں