ایک تھا جنگل
عمومی طور پر ببرشیر کے اکثرفیصلے انصاف پر مبنی ہوتے تھے۔
صدیوں پہلے کاقصہ ہے کہ ایک بہت بڑاجنگل تھا۔یہ اس قدرگھنااورسرسبزوشاداب تھاکہ دوردورتک اس کی مثال نہیں ملتی تھی۔ تن آوردرخت،ہرقسم کے پھل،میٹھے پانی کے چشمے اورخوف کے بغیرجانوروں کی زندگی۔اس خطہ میں ہرطرح کے جانوراورپرندے رہتے تھے۔ ہاتھی، چیتے، ببرشیر، بھیڑیے اورچندلائق فائق اُلو۔جانوروں اورپرندوں کی خوش قسمتی تھی کہ وہ اس محفوظ جنگل میں زندگی گزاررہے ہیں۔ مگر اس جگہ چندعجیب سے درباری معاملات بھی تھے۔ویسے تو سارا اقتدار ببرشیر کے پاس تھا لیکن اسکاایک نوجوان درباری بھیڑیا چالاکی اورعیاری میں اپناثانی نہیں رکھتا تھا۔ ببرشیر اس کو اپنا قابل ترین مصاحب سمجھتا تھا اور اس کے بغیرکوئی فیصلہ نہیں کرتا تھا۔
عمومی طور پر ببرشیر کے اکثرفیصلے انصاف پر مبنی ہوتے تھے۔ وہ کمزورجانوروں کاخودبھی شکارنہیں کرتاتھااورنہ ہی کسی اورجانورکوکرنے دیتاتھا۔ جس علاقہ میں چارہ کم ہو جائے، وہ دوسرے جنگلوں سے گھاس منگواکروہاں لگوادیتا تھا، تاکہ ہر چوپائے کواس کے مزاج کے مطابق سبزہ ملتا رہے۔ مگر اس میں خودپسندی کمال تھی۔ بھیڑیا یہ سب کچھ جان چکا تھا۔ وہ بہت آہستہ آہستہ طاقتورجانوروں میں اپناگروہ بناچکا تھا۔ مثلاً ہاتھیوں کواس نے جنگل کاوہ حصہ الاٹ کردیا تھا، جس میں ان کی غذاکے لیے وافردرخت تھے۔چیتوں کے لیے اس نے ایک الگ نظام ترتیب دیدیا تھا۔ اس کے ساتھی بھیڑیے رات کے اندھیرے میں کمزورجانوروں کو مارکرچیتوں کے حوالے کر دیتے تھے۔چیتوں کوگوشت کے لیے تگ ودونہیں کرنی پڑتی تھی، لہذاوہ بہت آرام طلب ہوچکے تھے۔وہ اس قابل ہی نہیں رہے تھے کہ دوڑ کر خود شکار کرلیں۔مطلب یہ کہ جنگل کا واجبی حدتک بادشاہ تو شیر تھا، مگر آہستہ آہستہ حکمرانی بھیڑیے کے ہاتھ میں جاچکی تھی۔
اب عیار بھیڑیے نے فیصلہ کیاکہ حکومت بھی اسی کی ہونی چاہیے۔اسکوصرف اپنے رشتہ داربھیڑیوں پراعتماد تھا۔ انھوں نے ملکر ایک خفیہ جھتہ بنالیا۔یہ رات کی تاریکی میں نکلتے تھے۔انتہائی عیاری سے علیحدہ علیحدہ ہرطاقتورشیرکوکہتے کہ وہ اسے بادشاہ بناناچاہتے ہیں۔پھر اسے اکیلا کرکے آسانی سے مار کر اسکاگوشت تک کھالیتے تھے۔ببرشیرپریشان تھاکہ اس کے سارے ساتھی کہاں غائب ہورہے ہیں۔بھیڑیا جو طاقتور وزیر تھا،اسکاجواب یہی ہوتاتھاکہ وہ سارے برابر والے جنگل میں شکار پرگئے ہیں۔
ببرشیر کو مارنا مشکل تھا کیونکہ وہ بہت زورآورتھااورجنگل کے عوام میں اس کے لیے بہت پسندیدگی تھی۔بھیڑے نے چیل سے مشورہ کیااورسات سمندرپارسے اسے ایک خطرناک سانپ لانے کاحکم دیا۔ سانپ آیا تو بھیڑیا کس اس سے دوستی ہوگئی تو ایک شام اسے کہا گیاکہ چپ کے سے جائے اورببرشیرکو ڈس لے۔چنانچہ ایسے ہی ہوا۔ببرشیرسانپ کے زہرسے چندلمحوں میں مرگیا۔ اب بادشاہت صرف اورصرف بھیڑیے اوراس کے ساتھیوں کے پاس آگئی۔ الواسکا وزیر باتدبیر تھا۔ چیل اور زہریلا سانپ اس کے معتمد خاص تھے۔
اب جنگل میں ظلم کادورشروع ہوگیا۔وزیرباتدبیرنے اسے ایک خاص جادوسکھادیا۔اس عمل سے بھیڑیاجنگل کے ہر جانور کا روپ دھارسکتاتھا۔وہ چیتوں کے ساتھ چیتا،خرگوش کے ساتھ خرگوش،ہاتھیوں کے ساتھ ہاتھی اورزیبرے کے ساتھ زیبرہ بن جاتا تھا۔ مگراس کے اندربھیڑیے کی چالاکی، مکاری اورجھوٹ ہمیشہ غالب رہتاتھا۔وہ معصوم سے ہرن کا روپ دھارکررات کو خاموشی سے ڈار میں چلا جاتا تھا۔ پھر اچانک ایک کمزورہرن کوگراکرماردیتاتھا۔اس کے درباری جھتے اورنزدیکی دوست تاک میں رہتے تھے۔وہ بھی اس مالِ مفت پرخوب ہاتھ صاف کرتے تھے۔آہستہ آہستہ جانور اور پرندوں کی تعدادکم ہونی شروع ہوگئی۔
بھیڑیے نے دربار خاص میں اپنے مصاحبین سے مشورہ کیا۔اُلوکیونکہ سب سے جہان دیدہ تھا،لہذااس کی دوتجاویزبہت سراہی گئیں۔ پہلی یہ،کہ بھیڑیے کو دنیاکاسب سے امیرحاکم ہوناچاہیے اوراس کے لیے جنگل میں زیرزمین ہیروں کونکال کرخزانہ میں جمع کرناچاہیے۔دوسرایہ کہ جنگل کے تمام مکینوں کی آمدنی و خرچ کا حساب ہونا چاہیے اور ان پر ٹیکس لگنا چاہیے۔ لیکن بادشاہ اوراس کے درباریوں کو رعایت حاصل ہوگی اور امیر ہونے کا اختیار حاصل رہے گا۔ بھیڑیا اب بہت خوش تھا۔ اسے یہ معلوم نہیں تھاکہ وزیر با تدبیر یعنی اُلوکی ڈگری جعلی ہے۔
بھیڑیے نے جنگل کے زیرزمین خزانے اورہیرے نکالنے کاایک جامع پروگرام بنایا۔ایک فورس بنائی گئی۔جنگل میں موجود تمام کمزوراوربے سہاراجانوروں کواس میں شامل کر لیاگیا۔یہ وہ بدقسمت جانورتھے جوکسی طرح کے ظلم یازیادتی کے خلاف کچھ نہیں کرسکتے تھے۔اس کے علاوہ بھیڑیے نے تمام جانوروں کوآپس میں لڑانے کی جامع منصوبہ بندی کر ڈالی۔ اس کے پھیلائے ہوئے جاسوس،ہروقت مختلف گروہوں کوایک دوسرے کے خلاف جھوٹی باتیں سناکر بھڑکاتے رہتے تھے۔ جاسوسوں میں سانپ اورچیلیں سرِفہرست تھیں۔ مثلاًوہ چند سرکش ہاتھیوں کوبتاتے تھے کہ نزدیک والے جنگل سے کچھ طاقتور ہاتھی ان کی چراگاہ پر قبضہ کرنے کی سازش کررہے ہیں لہذا فوری طورپرانکاخاتمہ کرناچاہیے۔
جیسے ہی وہ سرکش ہاتھی جنگل سے باہرجاتے تھے،توانھیں ایک صحراسے گزرنا پڑتا تھا۔ اس میں نہ کھانے کی کوئی چیز ہوتی تھی اورنہ پانی۔ تھوڑے دنوں میں وہ ہاتھی کمزورہوکرگرجاتے تھے۔ان کمزورلمحوں پر، جب وہ اپنادِفاع نہیں کرسکتے تھے۔ بھیڑیوں کے غول انھیں آسانی ماردیتے تھے۔ہاتھیوں کے دانت نکال کربادشاہ وقت کے خزانے میں جمع کروادیے جاتے تھے۔غول کی سربراہی ہمیشہ بادشاہ خود کرتا تھا۔
اب عیاربھیڑیے کی تشکیل شدہ مزدورفورس سارادن زمین کھودکرہیرے نکالنے کاکام کرتی تھی۔اُلوان تمام ہیروں کو گنتا تھا۔ چند جانوروں کوتربیت دی گئی تھی کہ وہ ہیرے اور قیمتی جواہرات کوصاف کریں اورانھیں گن کرحفاظت سے بادشاہ کے خزانے میں جمع کردیں۔خزانے کی حفاظت گینڈوں کاایک لشکرکیاکرتاتھا۔جوجانورزیادہ ہیرے نکالتاتھا،اسے خصوصی مراعات دی جاتیں تھیں۔اگرکوئی گیدڑہیرے کی کان سے زیادہ ہیرے نکالنے میں کامیاب ہوجائے تواسے انعام میں چندبے سہارا خرگوش کھانے کے لیے دیے جاتے تھے۔
اگر کوئی گدھا اسطرح کامعیاری کام کرنے میں کامیاب ہوجائے تواسے دودن کاچارہ مفت میں دیاجاتاتھا۔ دوتین سال کی اس جبری اور ظالمانہ مشقت سے بھیڑیابہت امیرہوگیا۔مگراسے شک تھاکہ کوئی اس کی کمائی ہوئی ناجائز دولت پرقبضہ نہ کرلے۔ لہذاایک دن اس نے چیل،سانپ اوراُلوکوساتھ لیااوراپناتمام خزانہ ایک بیرونی جنگل میں منتقل کردیا۔وہاں اسے ایک غار میں بندکرکے پتھرسے سیل کردیا گیا۔اب بادشاہ اپنے آپکو محفوظ سمجھتاتھا۔کسی پرندے یا جانور کومعلوم نہیں تھاکہ ان کے جنگل کی دولت کوکس بے دردی سے لوٹاجارہاہے۔
وزیرباتدبیرکے مشورہ پربادشاہ نے جنگل کامیزانیہ بنا ڈالا۔ اس میں ہرجانورپرٹیکس لگا۔مگربادشاہ اور درباریوں کی مراعات میں بے پناہ اضافہ کردیاگیا۔ محصولات بڑھانے کے لیے تمام بوجھ کمزوراوربے کس جانوروں پرڈال دیاگیا۔ جو جانور کمزور ہوجاتے تھے،ان کو رات کی تاریکی میں خونخوار دوستوں کے حوالے کردیا جاتا تھا۔ جو بھی چرند یا پرند، بادشاہ کاحکم نہیں مانتا تھا،یاحصہ دینے کے لیے انکار کرتا تھا،ریاست کے قانون کے مطابق سخت سزادیجاتی تھی۔ اس سزاکوقانون کی حکمرانی اورمیرٹ کانام دیا گیا تھا۔
یہ تمام ظالمانہ نظام چندسال توآرام سے چلتا رہا۔ مگر اس کے بعدجنگل میں صحت منداورتواناجانوراتنے کم ہوگئے کہ زمین سے ہیرے نکالنے کاکام تقریباًبندہونے لگا۔کئی نوجوان جانور،رات کے اندھیروں میں چھپ کرساتھ والے محفوظ جنگلوں اور چراہ گاہوں میں منتقل ہوگئے۔کمزورجانوربھی نہ ہونے کے برابررہ گئے۔ بھیڑیے کا بیرون جنگل میں خزانہ بڑی تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ شروع میں ایک غارمیں اس کے ہیرے جواہرات اورموتی آجاتے تھے۔مگرچند سالوں میں اب اس طرح کے تیس غاربھی کم پڑتے تھے۔مگربھیڑیے کی دولت کی ہوس کم نہیں ہورہی تھی۔بلکہ بڑھتی جارہی تھی۔وہ اپنے اس لالچ کوقومی مفاد کا اعلیٰ نام دیتا تھا تاکہ جانورمسلسل بے وقوف بنتے رہیں۔مگراب حالات تیزی سے تبدیل ہورہے تھے۔
اس کے درباری زہریلے سانپ اورچیل نے آپس میں اتحادکرلیا۔ان دونوں نے فیصلہ کیاکہ بھیڑیے کواب بادشاہت سے نکال دینا چاہیے اوراس کی تمام دولت پر خود قبضہ کر لیناچاہیے۔مگرکیسے!کیونکہ بھیڑیے کے ساتھ اسکا پورا گروہ تھا۔خیر،ان دونوں نے بھیڑیے کومشورہ دیاکہ بادشاہ سلامت،آپکواپناخزانہ خودجاکردیکھناچاہیے تاکہ آپکی خوشی میں اضافہ ہو۔بھیڑیامان گیا اور اپنے ساتھی بھیڑیوں کے ساتھ دوسرے جنگل میں چلاگیا۔دولت اس قدرزیادہ تھی کہ اسکوایک دن کی قلیل مدت میں دیکھا نہ جاسکتا تھا۔ چنانچہ ان تمام نے رات کواسی غیرملکی جنگل میں رہنے کا فیصلہ کیا۔آدھی رات کوجب بادشاہ اوراس کے ہم نوا بھیڑیے سوگئے توچیل نے اپنی ساتھی چیلوں کوحکم دیاکہ بادشاہ کے علاوہ تمام بھیڑیوں کی آنکھیں نکال لو۔
سانپوں کوحکم ملاکہ وہ بادشاہ کے علاوہ سب کوڈس کر مار دیں۔ ایسے ہی ہوا۔چندمنٹوں میں بھیڑیاکسی بھی محافظ کے بغیر تنہارہ گیا۔اب چیل نے جھپٹ کراس کی آنکھیں باہر نکالیں اورسانپ نے اس کی داہنی ٹانگ پردانت گاڑ کر پورازہربادشاہ کے جسم میں منتقل کردیا۔بھیڑیازمین پر گر گیا۔مرتے ہوئے کہنے لگاکہ اے سانپ!میں نے تجھے بے تحاشہ دودھ پلایا۔ اور اے چیل! میں تجھے ہروقت گوشت کھلاتارہا۔یہ تم دونوں نے میرے ساتھ کیامحسن کُشی کی۔سانپ نے پھنکار کر جواب دیاکہ جودودھ تم مجھے پلاتے تھے،وہ تمہارے حواری جبرسے اکھٹاکرتے تھے۔ چیل نے چلا کر کہا، جوگوشت تم مجھے کھلاتے تھے، وہ کمزور اور مظلوم جانوروں کاہوتاتھا۔محسن کُش ہم نہیں بلکہ تم ہو،جس نے جنگل میں اپنی تمام رعایاکوناانصافی اور لالچ کی بھینٹ چڑھا دیا۔ جب سانپ اورچیل یہ فقرے کہہ رہے تھے تو بھیڑیا مرچکاتھا!
یہ ایک فرضی کہانی ہے!اس کاہمارے ملک کی سیاست سے کسی قسم کاتعلق نہیں۔پتہ نہیں کبھی کبھی میں ایسی جھوٹی کہانی کیوں لکھتاہوں؟