سرمایہ داری کا گورکھ دھندا
پاکستان سے چین نے46ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا معاہدہ کیا، اس سے عوام کو کیا فائدہ ہو گا اس کا پتہ بعد میں چلے گا
ایک جانب 12 سمندروں میں 68 امریکی جنگی بحری بیڑوں کا موجود ہونا تو دوسری جانب امریکا کی 30 کروڑ کی آبادی میں 3 کروڑ بے روزگار۔ دنیا کی بلند ترین عمارت دبئی میں ''برج الخلیفہ'' بنانے والی کمپنی اپنے مزدوروں سے 12/12 گھنٹے کام لیتی ہے اور گزشتہ ماہ اس کمپنی کے مزدوروں کو 100 ڈالر تنخواہوں میں اضافے کے لیے دو بار ہڑتالیں کرنی پڑیں۔ مزدوروں کا مطالبہ تھا کہ ان کی ماہانہ تنخواہ 200 ڈالر کے بجائے 300 ڈالر کی جائے۔ سعودی عرب کی حکومت مکہ میں دنیا کا سب سے بڑا ہوٹل بنانے جارہی ہے جس کا نام ہوگا ''ابراج قدائی''۔ اس میں 10 ہزار کمرے ہوں گے اور چھت پر ہیلی پیڈ جب کہ اسی سعودی عرب کی حکومت کے وزیر کے اعلان کے مطابق 25 فیصد لوگ بے روزگار ہیں۔
یہی صورتحال چین کی ہے، جہاں ایک جانب 27 کروڑ انسان بے روزگار ہیں تو دوسری جانب کمیونسٹ پارٹی کی نیشنل پیپلز کانگریس میں 83 ارب پتی ہیں۔ چین پاکستان میں 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کررہا ہے تو دوسری جانب چینی میڈیا کے مطابق جنان کی ایک مارکیٹ میں فین پنگ نامی لڑکی ایک بورڈ لے کر روز کھڑی ہوجاتی ہے جس پر لکھا ہے کہ جو شخص اس کے بھائی کے علاج پر اٹھنے والا خرچ دے گا میں اس کے ساتھ شادی کروں گی۔ فین کا کہنا ہے کہ اس کا بھائی ٹی بی کا مریض ہے اور اس کے علاج پر اب تک ایک لاکھ 50 ہزار یوآن خرچ ہوچکے ہیں۔
پاکستان سے چین نے 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا معاہدہ کیا، اس سے عوام کو کیا فائدہ ہو گا اس کا پتہ بعد میں چلے گا۔ چینی صدر شی کے دورے سے پہلے پاکستان نے یقین دلایا تھا کہ وہ اپنی بحریہ کے لیے آٹھ چینی آبدوزیں خریدے گا، جن کی مالیت 4 سے 5 ارب ڈالر ہوسکتی ہے اور یہ دونوں ممالک کے درمیان سب سے بڑا دفاعی معاہدہ ہوگا۔ اس کے علاوہ چین پاکستان کو تیس سے چالیس ایف سی 13 جنگی طیارے بھی فروخت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ساتھ ساتھ ایک ارب ڈالر کے ہیلی کاپٹر اور میزائل امریکا سے خریدنے کا معاہدہ کرلیا۔
اس غریب ملک میں اگر گزشتہ چند ہفتوں میں اسلحے پر خرچ کی جانے والی رقم سے اسپتال اور تعلیمی ادارے بنائے جاتے تو پورے ملک سے بیماری اور ناخواندگی کا خاتمہ کیا جاسکتا تھا، یا پھر اتنی ہی رقم اگر صنعتوں میں لگتی تو لاکھوں افراد کو روزگار مہیا کیا جاسکتا تھا۔ لیکن اس سرمایہ داری کی معیشت میں انسانی ضروریات کی نسبت منافع زیادہ مقدس ہے اور اسی ہوس کی تکمیل کے لیے کروڑوں افراد کو غربت اور بیماری میں دھکیلنا اس نظام میں ضروری ہوجاتا ہے۔ خلیج اومان اور بحیرہ عرب پر چین کا اثر و رسوخ بڑھایا جائے گا۔ بحیرہ عرب میں ہی اپنے سامراجی تسلط میں اضافے کے لیے چین نے سری لنکا میں ایک جدید بندرگاہ تعمیر کی ہے، جب کہ بنگلہ دیش سے مذاکرات جاری ہیں۔ اس کے ساتھ میانمار میں بھی معدنی وسائل کے حصول کے لیے بندرگاہ تعمیر کی جا رہی ہے۔
دوسری جانب ایران سے قریبی تعلقات ہونے کے باعث گوادر پر کنٹرول کی وجہ سے چین خطے میں ایک سامراجی قوت کے طور پر ابھر سکتا ہے اور بحرین میں موجود امریکی بحری بیڑے کی مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ چین نے حال ہی میں اپنا پہلا طیارہ بردار بحری جہاز سمندر میں اتارا ہے جب کہ دوسرے پر کام ہو رہا ہے۔ جب کہ امریکا اب تک 68 اپنے جہاز تعمیر کرچکا ہے جو اس وقت سمندر میں موجود ہیں اور 3 نئے تعمیر ہو رہے ہیں۔ امریکی دفاعی بجٹ 585 ارب ڈالر سالانہ کے مقابلے میں چینی دفاعی بجٹ 130 ارب ڈالر سالانہ ہے۔ افغانستان میں چین کی مداخلت فی الوقت تانبے اور لوہے وغیرہ کے ذخائر تک رسائی کے لیے ہے جو دنیا کے چار بڑے تانبے کے ذخائر میں سے ایک ہے۔ اس وقت افغان طالبان کے کئی دھڑے چین کے پے رول پر ہیں۔ چینی حکمران سنکیانگ میں موجود انتشار کو ختم کرنا چاہتے بھی ہیں یا نہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام میں انتشار اور خونریزی کو اقتدار کو طول دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ قومی لسانی اور دیگر تعصبات کو وقتاً فوقتاً حکمران طبقات خود ابھارتے رہتے ہیں اور انھیں محنت کش طبقے کی ہڑتالوں اور تحریکوں کو کچلنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ سنکیانگ میں یوغور قبائل کے مسئلے کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا جا رہا ہے۔ ہندوستان پر دباؤ برقرار رکھنے کے لیے بھی چین کے لیے پاکستان کی دوستی بہت اہم ہے۔ بھارت اور چین کے حکمرانوں کا ٹکراؤ موجود ہے لیکن اس کے ساتھ دونوں کے باہمی مفادات بھی موجود ہیں۔ بھارت چین سے سالانہ 50 ارب ڈالر سے زائد کی درآمد کرتا ہے جب کہ 15 سے 18 ارب ڈالر کی برآمد کرتا ہے۔
حال ہی میں بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے چین کے دورے پر 26 ارب ڈالر کے دو طرفہ معاہدے کیے۔ آئی ایم ایف کے مطابق 2015 میں چین کی معاشی شرح نمو مزید گراوٹ کے ساتھ 7.1 فیصد سے گھٹ کر 6.8 فیصد پر آجائے گی۔ فنانشل ٹائمز کے مطابق چین کے 31 میں سے 30 صوبے 2014 میں معاشی شرح نمو کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ چین کی جی ڈی پی کا تو بہت چرچا ہوتا ہے لیکن فی کس جی ڈی پی کا اعشاریہ لیا جائے تو چین، عراق، کولمبیا، مالدیپ اور سربیا سے بھی نیچے ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق اس لحاظ سے کل 187 ممالک کی فہرست میں چین 89 ویں نمبر پر ہے۔ چینی سامراج اس وقت ورلڈ بینک یا ایشین ڈیولپمنٹ بینک جہاں جاپان کا اثر و رسوخ ہے، کے مقابلے میں سامراجی مالیاتی ادارے تعمیر کر رہا ہے۔
چین کی ریاستی پالیسیوں نے چین کے اندر محنت اور سرمائے کا تضاد بھی شدید تر کردیا ہے۔ حقیقی اجرتوں میں کمی ہو رہی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے برعکس بے روزگاری کی حقیقی شرح 20 فیصد ہے۔ اپنے ہی وطن میں تارکین وطن تقریباً27 کروڑ محنت کش روزگار کے اعداد و شمار میں شامل ہی نہیں۔ فوربس میگزین کے مطابق چینی کمیونسٹ پارٹی کی نیشنل پیپلز کانگریس میں 83 ارب پتی افراد شامل ہیں جب کہ امریکی ایوان نمایندگان میں ایک بھی ارب پتی نہیں ہے۔ 2014 میں چین میں محنت کشوں کی 1380 بڑی ہڑتالیں ہوئیں جن میں سے زیادہ تر کامیاب رہیں۔ چین دنیا کا واحد ملک ہے جس کی داخلی سیکیورٹی کا بجٹ بیرونی دفاعی بجٹ سے زیادہ ہے۔ چین کا مجموعی ریاستی قرضہ 2008 میں مجموعی داخلی پیداوار کے 147 فیصد سے تجاوز کرکے 2015 میں 287 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔
امریکی سامراج بھی اپنی سازشوں میں اضافہ کردے گا، خاص کر بلوچستان میں سامراجی اور علاقائی پراکسی جنگ مزید شدت اختیار کرے گی اور یہ آگ پورے ملک میں پھیلے گی۔ علاوہ ازیں اس سرمایہ کاری سے فیض یاب میں حصہ داری کے لیے پاکستان میں نئی لڑائیاں جنم لیں گی۔ سیاسی انتشار اور ریاست کا خلفشار بڑھے گا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ سرمایہ کاری کی شرائط اور سود وغیرہ کو پوشیدہ رکھا جا رہا ہے۔ خود سرمایہ دارانہ معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ شرح سود کم ازکم 27 فیصد ہے۔ یہ پیسہ پاکستان کے عوام نے ادا کرنا ہے۔ یہ سود آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے اداروں سے کم نہیں ہوں گے۔
چین اور دنیا بھر سے فوجی اڈے، بحری بیڑے، اسلحے کی پیداوار، دفاع کے نام پر کھربوں ڈالر خرچ کیے جاتے ہیں۔ اگر انھیں ختم کردیا جائے اور یہ تب ہی ختم ہوں گے جب ملکوں کی سرحدیں ختم کردی جائیں۔ اس لیے بھی کہ ہر ملک قوم کے نام پر اپنے اپنے خطے میں صاحب جائیداد طبقات کی دولت کے تحفظ کی خاطر فوج اور اسلحے کی بھرمار کر رہا ہے۔ ملکوں کی پیداوار کا بیشتر حصہ اسلحے کی پیداوار امریکی حفاظت، منتقلی اور استعمال پر خرچ ہوتا ہے۔ ہر ملک کا ایک دشمن ملک موجود ہے۔ دشمنی سے نجات اور حفاظت کے لیے سرحدوں پر پہرہ دار اور اسلحوں کے ڈپو قائم کیے جاتے ہیں۔ اگر سرحدیں اور ملکیتیں ختم کردی جائیں تو دشمنی کا تصور ختم ہوجائے گا۔ پھر جب دنیا کی ساری دولت کے مالک سارے لوگ ہوں گے تو ہر آدمی آسودہ زندگی گزارے گا اور جہاں چاہے جاسکتا ہے۔