آسان سوالمشکل جواب
پاکستان کے ایسے بہت سے علاقے جو اسے دنیا بھر میں معاشی لحاظ سے نمایاں مقام دلاسکتے ہیں
لاہور:
پاکستان کے ایسے بہت سے علاقے جو اسے دنیا بھر میں معاشی لحاظ سے نمایاں مقام دلاسکتے ہیں اور ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں لیکن بدقسمتی سے وہ علاقے زبوں حالی کا شکار ہیں اور جس توجہ اور اہمیت کے وہ مستحق ہیں اس سے دور پرے لاپرواہی کی نذر ہو رہے ہیں۔
تھرپارکر کا علاقہ کسی بھی اہمیت کا حامل ہو نہ ہو لیکن بچوں کی اموات کے حوالے سے اس کا نام سرفہرست ہے ،جہاں ایک رپورٹ کے حوالے سے 2011 میں 353، 2012 میں 372، 2013 میں 475، 2014 میں 500 جب کہ 2015 کی صورتحال آئے دن کے اخبارات میں نظر آتی ہی رہتی ہے۔ یہ علاقہ توجہ طلب ہے کہ یہاں معدنی ذخائر کے علاقہ مور کی اعلیٰ نسل بھی دستیاب ہے جو قحط کے چنگل میں پھڑپھڑا رہی ہے۔
یہ مور تھر کے گلی محلوں میں عام پالتو جانوروں کی طرح گھومتے پھرتے ہیں لیکن پانی کے قحط کی صورت میں حالات اتنے برے ہوگئے ہیں کہ یہ خوبصورت پرندے بھی اس سے محفوظ نہ رہ سکے۔ اس علاقے میں کوئلے کے اتنے بڑے ذخائر موجود ہیں کہ جس سے فائدہ اٹھاکر ہم توانائی کی کمی کے شکنجے سے نکل سکتے ہیں۔
جس سے پاکستان کی صنعتی و حرفی زندگی متاثر ہو رہی ہے صرف یہی نہیں رن آف کچھ کے قریب نمک کے ذخائر اتنی بڑی تعداد میں موجود ہیں کہ پاکستان اگر باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ بیرون ممالک نمک کی ایکسپورٹ کرے تو اس علاقے کی ترقی کے چانسز میں اضافہ ممکن ہے لیکن بہت سے نامکمل، غیر اہم اور بے پرواہی کے شکار پروجیکٹس کی طرح یہ علاقہ بھی فی الحال مرا ہوا ہاتھی ہے لیکن اس کی قیمت طے کرنے والا کوئی نہیں۔
پاکستانی حدود سے منسلک بھارت کے وہ علاقے جو صحرائی علاقوں میں شامل ہیں، بھارتی حکومت نے خاص توجہ سے ان علاقوں کی ترقی پر کام کیا اور بہترین نتائج حاصل کیے۔ ایسے علاقے جن کا تعلق دوسرے ممالک سے خاص کر بھارت جیسے کبھی دوست کبھی دشمن والی پالیسی رکھنے والے ملک سے ہو ان پر حکومت کو خاص توجہ دینی چاہیے۔ یہ بظاہر بے ضرر ریتیلے، دھول اڑاتے علاقے ہر اعتبار سے کسی بھی کمزوری کی وجہ بہت آسانی سے شکار بن جاتے ہیں چاہے وہ معاملہ اسمگلنگ جیسے دھندے کا ہو جس میں منشیات اور اسلحے کے علاوہ دہشت گردی جیسے خطرناک قسم کے منصوبے شامل ہوسکتے ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ حکومتوں نے ہمیشہ اپنے ملک کی حفاظت کے لیے اپنے بارڈر کی خالی حفاظت پر توجہ دی اور چین جیسی مشکل اور پیچیدہ حفاظتی باڑ ایسی ہی ایک علامت ہے اگر یہ باڑ کمزور ہو تو کسی بھی ناپسندیدہ عنصر کے لیے اسے عبور کرنا اور اپنے ناپاک مقاصد کو حاصل کرنا کچھ مشکل نہیں۔ گو خار دار تاروں سے راستوں کو بند کردیا گیا ہے لیکن کسی بھی غریب آبادی والے ایسے علاقے میں جہاں لوگوں کو ضروریات زندگی کی چیزیں میسر نہ ہوں، اپنے ملک کا نام تک نہ معلوم ہو ایسے معصوم کسی دوست نما دشمن کی پہچان کیسے کرسکتے ہیں جنھیں اپنی پہچان بھی نہ ہو۔ بھارت نے تھر کے علاقے میں پانی، بجلی اور ٹرانسپورٹ کی سہولت کے لیے سڑکوں کی تعمیر کا کام کیا اور اپنے علاقوں میں تعلیم و ترقی پر بھی توجہ دی صرف ایک باڑ کے فاصلے سے دو واضح مختلف معیار زندگی کا نمونہ اگر ملاحظہ فرمانا ہو تو باآسانی میسر آسکے گا۔
پنجاب میں چولستان کا علاقہ جو قیام پاکستان سے قبل سرسبزوشاداب تھا اب بنجر ہوتا جا رہا ہے یہ بہاولپور کا ایک بڑا صحرا ہے جو چونسٹھ لاکھ ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے، یہ صحرا بھی بھارت کی سرحد سے ملتا ہے یہاں بھی آپ کو ترقی کا واضح فرق نظر آئے گا، بھارت نے چولستان میں نہروں کا جال بچھا کر اسے زرخیز کر رکھا ہے، اندرا گاندھی کینال کی تعمیر سے وہاں اضافی خوراک کی فراہمی پیدا کرنے کا منصوبہ ہے اس نہر کی تعمیر ایک ایسے علاقے میں کی گئی ہے جن کی آبادی سب سے کم ہے، صرف چالیس لاکھ کی آبادی کی ریاست کے لیے چار سو پچاس کلومیٹر لمبی نہر تعمیر کی گئی۔
جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت اپنے سرحدی علاقوں کی ترقی پر کس قدر توجہ دے رہا ہے وہ جانتا ہے کہ ان علاقوں کی ترقی کا مطلب بھارت کی ترقی ، بارڈر مضبوط تو اندرون ملک کے حالات پر بھی کنٹرول حاصل کرنا آسان رہے گا۔ غربت، افلاس، تعلیم کی کمی، آگاہی و شعور کی کمی کے باعث عوام میں اپنے پرائے، ملکی غیر ملکی اور محب وطن جیسے جذبات اور خیالات کی پہچان مشکل ہوتی ہے جب کہ ذہنی اعتبار سے شعور و آگاہی کے ساتھ تعلیم اور خوشحالی عوام کو ملک کے ساتھ مضبوطی سے جوڑے رکھتی ہے جب کہ اس کا تعلق سرحدی علاقوں سے بھی ہو۔
ہماری گزشتہ حکومتوں کی غلط حکمت عملی اور ناقص پالیسیوں کے باعث پاکستان کو پانی کے حوالے سے کافی نقصان اٹھانا پڑا ہے، یہ درست ہے کہ صحرائی علاقے پانی کے حوالے سے ترسے ہی ہوتے ہیں لیکن اس کی کمی کو کس طرح پورا کیا جائے تاکہ صورتحال پر گرفت مضبوط رہے۔ ایسا اب تک ہوا نہیں یہاں حالات اب یہ آچکے ہیں کہ نہریں ریت سے بھر رہی ہیں تھر اور چولستان میں لوگ پانی کو ترس رہے ہیں تو اب یہ حالت کراچی تک آ پہنچی ہے چولستان میں اب بھی جانور اور انسان ایک ہی جگہ سے پانی پی رہے ہیں تو تھر میں پانی کی کمی کے باعث قحط نے ایسی صورتحال پیدا کردی کہ جس سے چھوٹے بچے اس کا تر نوالہ بن رہے ہیں لیکن اس کا سدباب کیسے ہو کہ اسے ناممکن منصوبوں کی فہرست میں ڈالا جا رہا ہے، حالانکہ یہ علاقے ملک کے لیے منافع بخش فوائد پیدا کرسکتے ہیں۔
شدید گرمی پڑ رہی ہے ایسے میں تپتے صحراؤں میں زمین پر پیر دھرنا مشکل ہی نہیں ناممکن لگتا ہے لیکن ہمارے پیارے ہم وطن ایسے ہی صحراؤں میں بوند بوند پانی کو ترستے، غذائی قلت کا شکار، قحط کی صورت میں ہم سے اور ہمارے حکمرانوں سے سوال کرتے ہیں کہ کیا ہم اس حکومت کی عمل داری سے باہر ہیں، کیا ہم انسان نہیں؟ اور اگر ہیں تو ایک باڑ کے فاصلے سے بھارتی حکومت اپنے باسیوں کے ساتھ کیوں ایسا سلوک کر رہی ہے جسے دیکھ کر کوئی بھی کہہ اٹھے ۔۔۔۔ایسا پاکستان میں کیوں نہیں ہوسکتا؟ سوال اتنا مشکل تو نہیں۔