اقلیتوں کی داخلی صورتحال پر عالمی بدگمانی
توہین رسالتؐ کے واقعات صدیوں پر محیط ہے جن بد بختوں نے اس کی جسارت کی ہے وہ اپنے انجام کو پہنچتے رہے ہیں
DERA GHAZI KHAN:
توہین رسالتؐ کے واقعات صدیوں پر محیط ہے جن بد بختوں نے اس کی جسارت کی ہے وہ اپنے انجام کو پہنچتے رہے ہیں۔ عصر حاضر میں بھی یہ گستاخانہ فعل وقتاً فوقتاً کیے جاتے رہے ہیں، جس کی روک تھام کے لیے پاکستان میں قانون موجود ہے جس کے تحت شان رسول میں گستاخی کا جرم ثابت ہونے پر موت کی سزا سنائی جاتی ہے، واضح رہے کہ پاکستان میں توہین رسالتؐ پر سزا کا قانون کسی ایک مذہب کے ماننے والوں کے خلاف نہیں ہے بلکہ یہ قانون تمام مذاہب کے پیروکاروں پر مساویانہ اور غیر امتیازی انداز میں لاگو ہوتا ہے۔
پاکستان کی عدالتیں تمام شہادتوں کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے فیصلے کرتی ہیں۔ پاکستان میں قانون سازی کا اختیار پارلیمنٹ کو حاصل ہے۔ پارلیمنٹ آزاد اور خود مختار ادارہ ہے، اس لیے قانون سازی کے عمل میں حکومتی مداخلت ممکن نہیں اس کے باوجود امریکا اور مغرب کی جانب سے پاکستان پر یہ دباؤ رہا ہے کہ وہ توہین رسالتؐ قانون کو ختم کرے۔
جواز یہ بیان کیا جاتا رہا ہے کہ ''پاکستان میں عیسائی اقلیتوں کی حالت تشویش ناک ہے اور آئین پاکستان میں موجود ''ناموس رسالتؐ کا قانون'' انسانی حقوق کے منافی ہے۔ صرف اپنے پر امن عقائد کے خیالات کا اظہارکیا جانا اور کسی عیسائی کو خیالات کے اظہار پر موت کی سزا دینا انسانی حقوق کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ حکومت پاکستان کو ناموس رسالتؐ کے قانون میں فوری تبدیلی کرنی چاہیے تاکہ شخصی آزادی اور تقریرکی آزادی پر اتنی سخت سزائیں ختم کی جاسکیں۔''
مذکورہ بالا جواز کی روشنی میں یہ امر نہ صرف تکلیف دہ ہے بلکہ حد درجہ تشویش ناک بھی رہا ہے کہ انسانی حقوق کے نام پر پاکستان اور اسلام دشمن قوتیں مسیحی برادری کو چارہ بناتی رہی ہیں اور انھیں سڑکوں پر نکال کر یہ تاثر دیا جاتا رہا ہے کہ پاکستان اور اسلام عیسائیت کے لیے امتیازی سلوک و قوانین رکھتے ہیں۔ علمائے کرام کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ اگر ناموس رسالتؐ کا قانون منسوخ کردیا جائے تو پھر ہر مسلمان آزاد ہوگا کہ وہ توہین رسالتؐ کے مجرم کو خود سزا دے امریکا اس قانون کو منسوخ کرواکر مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان فسادات کی بنیاد ڈالنا چاہتا ہے۔
1996 میں امریکی محکمہ خارجہ نے حقوق انسانی سے متعلق اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا تھا کہ پاکستان اشتعال انگیزی پر قائم کیے گئے مذہبی قوانین کو کالعدم قرار دے دے، ان قوانین کا اطلاق عیسائیوں، ہندوؤں اور قادیانی فرقے کی اقلیت پر ہوتا ہے۔ اس وقت کی امریکی نائب وزیر خارجہ رابن رافیل نے امریکی سینیٹ کے اجلاس کے دوران کہا تھا کہ توہین رسالتؐ سے متعلق بیشتر مقدمات یا تو ذاتی عناد پر قائم کیے گئے تھے یا پھر اقلیتوں کو ڈرا دھمکا کر سیاسی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پنجاب میں سیشن عدالت نے ناموس رسالتؐ کے قانون کے تحت جو پہلی سزا دی تھی وہ مجرم کوئی عیسائی یا دیگر مذہب کا نہیں تھا بلکہ مذہب اسلام سے تعلق رکھنے والا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان میں موجود تمام مذاہب کے پیروکاروں کو پاکستانی مسلمانوں کی طرح مساوی حقوق اور مذہبی، سیاسی، معاشرتی اور اقتصادی آزادی حاصل ہے۔ یہ کہنا انتہاء درجے کی دروغ گوئی ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق غصب کیے جارہے ہیں یا انھیں تحفظ حاصل نہیں۔ ہاں البتہ عمومی مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے جس طرح دیگر لوگوں کو سامنا ہے۔
1996 میں عالم اسلام کو اس وقت شدید ذہنی و روحانی تکلیف کا سامنا کرنا پڑا تھا جب اس وقت کی حکومت نے ناموس رسالتؐ سے متعلق قوانین میں ترمیم کرنے کا عندیہ دیا تھا اور امریکی محکمہ خارجہ کی سالانہ حقوق انسانی رپورٹ 1996 اور نائب امریکی وزیر خارجہ رابن رافیل کی باتوں کا جواب دیتے ہوئے واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے نے ایک دستاویز جاری کی تھی جس میں تسلیم کیا گیا تھا کہ غلط، بے بنیاد اور جھوٹے مقدمات درج کرکے اس قانون ''ناموس رسالتؐ'' کو سیاسی و مالی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ اس وقت لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق توہین رسالتؐ کے دو مجرموں رحمت مسیح اور سلامت مسیح کو سزائے موت دینی تھی لیکن اس وقت کی حکومت میں لاہور ہائی کورٹ کے اس تاریخی فیصلے کے فوری بعد رحمت مسیح اور سلامت مسیح کو حکومتی مشینری اور غیر ملکی نمایندوں کے تحفظ میں انھیں پاکستان سے باہر نکال دیا گیا۔
ناموس رسالتؐ کے قوانین کا خاتمہ ان قوتوں کا ہدف رہا ہے، ناموس رسالتؐ کے قانون کو غیر موثر بنانے اور انسانی حقوق کے نام پر نام نہاد مہم کے لیے عالمی سطح کی پشت پناہی سے پاکستان میں کام کرنے والی یعنی ان کی فنڈز سے چلنے والی بعض مغرب زدہ این جی اوز کو استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ ان مقاصد کے لیے فنڈز فراہم کیے جاتے رہے ہیں۔ عیسائی اور یہودی لابی ایک عرصے سے پاکستان کے مختلف علاقوں میں پیش آنے والے واقعات کے حوالے سے سر گرم عمل ہیں اور حکومت پاکستان پر انسانی حقوق پامال ہونے کا بہانہ بناکر دباؤ ڈالا جاتا رہا ہے۔
اس بین الاقوامی سازش کے تحت انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی این جی اوز سب سے زیادہ متحرک ہوتی رہی ہیں اور حکومت پاکستان پر خاص طور پر دباؤ ڈالا جاتا رہا ہے۔ اس سلسلے میں خواتین سے زیادتی کے معاملے سے متعلق اسلامی قوانین کا بھی حوالہ دیا جاتا ہے اور انھیں ختم کرنے کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے، ایک محتاط جائزے کے مطابق غیر سرکاری تنظیموں کو الگ الگ ٹارگٹ دے کر انسانی حقوق کے نام پر حکومت پاکستان کو دباؤ میں رکھنے کے لیے منظم تحریک چلانے کی پالیسی بنائی گئی ہے لیکن حکومت پاکستان بیرونی حکومتوں اور اندرونی دباؤ کو مسترد کرتی رہی ہے۔
چوں کہ پاکستان اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا ہے یعنی پاکستان میں اسلامی قوانین کا نفاذ کا وعدہ کیا گیا ہے، ایسے میں پاکستان میں نافذ نیم اسلامی قوانین (نہ ہونے کے برابر) کا خاتمہ بھی چاہتے ہیں۔ ان قوتوں کی سازش کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور انھیں اپنی مذہبی رواداری کو بروئے کار لاکر ناکام بنانا ہوگا۔ پاکستانی قوم کو اقبال مسیح قتل سازش یاد ہوگا ، جس میں ضلع شیخوپورہ کے علاقے فیروز والا میں قتل ہونے والے ایک جعلی ادارے کے سربراہ احسان اﷲ کو اپنے بیٹے کے قتل کا ذمے دار قرار دیا تھا۔
انھوں نے اس قتل کی وجہ امریکا سے ملنے والے 10 ہزار ڈالر جو اس وقت (پاکستانی سات لاکھ روپے سے زائد رقم کے برابر تھے) ٹھہرایا تھا جس کو حاصل کرنے کے لیے قتل کروایاگیا تھا۔ قتل کے بعد امریکا اور اس کی بنائی ہوئی انسانی حقوق کی تنظیموں نے پاکستان پر دباؤ ڈالا تھا اور چائلڈ لیبر کی آڑ میں پاکستان کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچایا گیاتھا۔ اس تناظر میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ عالمی قوتیں پاکستان کے تشخص (اسلامی) سے خائف ہیں اور وہ ہر محاذ پر اسلامی تشخص کے خلاف صف آرا ہیں تاکہ پاکستان اور اسلام کو ایک دوسرے سے جدا کرکے یہاں سیکولر ازم کو پروان چڑھایا جاسکے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔