ان کے رونے کے دن آگئے

رابندر ناتھ ٹیگور کہتا ہے ’’جب میں کام کرتا ہوں، خدا میری عزت کرتا ہے لیکن میں گاتا ہوں تو وہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔


Aftab Ahmed Khanzada June 10, 2015

رابندر ناتھ ٹیگور کہتا ہے ''جب میں کام کرتا ہوں، خدا میری عزت کرتا ہے لیکن میں گاتا ہوں تو وہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔'' نیل ڈونلڈ واش کہتا ہے خود کو ڈھیر ساری خوشیاں دیا کرو تب ہی تمہارے پاس اتنی خوشیاں ہوں گی کہ تم انھیں دوسروں کو دے سکو۔ سولن، سقراط سے لے کر آج تک کے تمام فلسفی، دانشور، شاعر اس بات پر متفق ہیں کہ انسان صرف اور صرف خو ش رہنے کے لیے پیدا کیا گیا ہے اگر آپ اپنے پیدا ہونے کے اس مقصد سے اتفاق نہیں کرتے تو پھر آپ کی مرضی کوئی کیا کر سکتا ہے اور ساتھ ہی آپ کو مبارک ہو کہ آپ ان لاکھوں لوگوں میں شامل ہیں جو ہر وقت شکوہ کرتے رہتے ہیں۔

آج ہر طرف رونا مچا ہوا ہے آپ اپنے کان کھولیے آپ کو ہر جگہ چیخ و پکار سنائی دے گی، ریستوران میں سپرمارکیٹ میں ٹی وی چینلز پر ریڈیو پر اخبارات میں آپ کے کام کرنے کی جگہ پر آپ کے گھر پر حتیٰ کہ آپ کے اپنے اندر بھی کئی طرح کے رونے مچے ہوئے ہیں جو آپ کے منہ سے ابلتے ہیں۔ ہم نے رونے دھونے کو دنیا کی سب سے بڑی تفریح بنا کر رکھ دیا ہے ہم اپنی ہر ناکامی کا ذمے دار دوسروں کو سمجھتے ہیں۔

اب رونا دھونا اتنا عام ہو گیا ہے کہ کوئی اس کا نوٹس ہی نہیں لیتا کہ آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے بس ہم بغیر کچھ سوچے سمجھے روئے ہی جا رہے ہیں۔ زندگی کو برا بھلا کہے ہی جا رہے ہیں، دہائی پر دہائیاں دیے جا رہے ہیں، ہائے ہم لٹ گئے، برباد ہو گئے زندگی نے ہمیں کچھ نہیں دیا۔ ہم اپنی زندگیوں کو ایک ڈراما ثابت کرنے کے لیے رونے میں اتنا مصروف ہیں کہ کسی دوسرے کو سننا گوارا ہی نہیں کرتے۔ شاید ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ رہا ہے کہ ہم ہمیشہ بولنے میں اتنے مصروف رہے کہ ہمیں کبھی سننے کی اہمیت کا احساس ہی نہیں ہوا اور ہم نے زندگی کے تمام اہم ا سباق سیکھنے کے مواقعے ضایع کر دیے ہم سب لوگ یہ سمجھتے رہے کہ گفتگو کا مطلب صرف بولنا ہے جب کہ بولنا گفتگو کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہوتا ہے، اس کے بر عکس گفتگو کا ایک بہت بڑا حصہ صرف سننا ہوتا ہے۔

عہد نامہ جدید میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق ایک کہانی ہے جس میں وہ اپنے حواریوں کے ساتھ مچھلیاں پکڑنے والی ایک کشتی میں سفر کر رہے ہیں اچانک تند موجوں کے ایک طوفان نے انھیں آ لیا اور حواریوں نے سوچا کہ اب ان کی موت یقینی ہے، انھوں نے حضرت عیسیٰ کو ان کی آرام گاہ میں جا کر جگایا اور رونے دھونے لگے، حضرت عیسیٰ نے انھیں خا موش کر واتے ہوئے کہا 'ہش' ۔ اور پھر وہ ان سے ان کے ایمان کی باتیں کرنے لگے ۔ یاد رہے پہلے انھیں بپھر ی موجوں تند ہواؤں اور اپنے خو فزدہ حواریوں کو خا موش کروانا پڑا۔

حضرت عیسیٰ کے بولے گئے لفظ ''ہش'' کا اگر آج کی زبان میں ترجمہ کیا جائے تو وہ کچھ یوں ہو گا خاموش ہو جاؤ! میں تمہیں کچھ سکھانے والا ہوں۔ جب آپ بول رہے ہوتے ہیں تو آپ کے لیے سننا ممکن نہیں ہوتا یہ کسی کے لیے بھی ممکن نہیں ہے کہ کوئی بیک وقت سن اور بول سکے جب آپ خاموش ہوتے ہیں تو پورے دھیان سے دوسروں کی باتیں سنتے ہیں، کوئی بھی ایک ہی وقت میں دو متضاد سمتوں میں سفر نہیں کر سکتا یا تو آپ رو دھو سکتے ہیں یا پھر مسائل کے حل کی منصو بہ بندی کر سکتے ہیں۔

یاد رہے رونا دھو نا مسائل کو گھمبیر تر بنا دیتا ہے جب تک تم شکایتیں کرتے رہو گے اور زندگی سے بیزاری کا اظہار کرتے رہو گے کچھ بھی بدلنے والا نہیں ہے۔ آئیں تھوڑی دیر کے لیے خا مو ش ہو جائیں اور ہم مل کر اپنا تجزیہ خود کرتے ہیں، پہلے تو ذرا کوئی یہ سمجھائے کہ زندگی نے ہمیں کیا کچھ نہیں دیا، یہ الگ بات ہے کہ ہم نے وہ سب کچھ ایک ایک کر کے خو د ہی کھو دیا۔

رہنے کے لیے، ترقی، خوشحال اور بااختیار ہونے کے لیے اتنا خو بصورت ملک ملا لیکن اگر اس پر ہم نے اپنی حکمرانی قائم نہیں کی اور دوسروں نے ناجائز قبضہ کر لیا اور ملک کے مالک بن گئے تو اس میں تو قصور ہمارا اپنا ہوا زندگی کا کیسے ہوا اور وہ چند ہزار لوگ جو اشرافیہ کہلاتے ہیں، ہماری تمام چیزوں کے مالک بن بیٹھے اور ہم خاموش تماشائی بنے رہے تو ان چند ہزار لوگوں کا قصور کیسے ہوا قصور تو سارا ہمارا اپنا ہوا اگر کوئی آپ کے حق پر آپ کے سامنے ڈاکا ڈال رہا ہو تو قصور تو دیکھنے والے کا ہو گا۔ ڈاکا ڈالنے والے کا کیسے ہو گا پھر رونا کس بات کا چیخنا چلانا آخر کس لیے۔

لیکن اگر اب آپ اپنے رونے دھونے اور موجودہ حالات سے تنگ آ چکے ہیں اور اگر آپ دوسرے خو شحال ممالک کے لوگوں کی طرح خوش رہنا چاہتے ہیں تو پھر آئیں سب سے پہلے تو ان لوگوں کو جو رونا دھونا، خود ترستی اور بلا وجہ کا سیاپا اب بھی جاری رکھنا چاہتے ہیں تو ان سے صاف صاف کہہ دیں کہ یہ ساری ڈراما بازی اور سیاپا صرف اپنی ذات تک محدود رکھیں ہم میں سے کوئی بھی اب اپنا وقت ان فضول چیزوں میں ضایع نہیں کرے گا، آپ کو وہ پرانی کہاوت تو یاد ہو گی۔

تیار، راضی اور قابل والی۔ بس ہم سب کو اسی کہاوت پر عمل کرنا ہے تیار۔ ہاں ہم سب تیار ہیں اپنا حق، ترقی، کامیابی، خوشحالی کو واپس چھیننے کے لیے۔ راضی۔ ہاں ہم سب راضی ہیں اپنے آپ کو تبدیل کرنے کے لیے۔ غا صبوں، لٹیروں سے لڑنے کے لیے۔ قابل۔ ہاں ہم میں اتنی قابلیت موجود ہے کہ ہم اپنے ملک کو اپنے مطابق اور اپنے لیے چلا سکیں۔ اور آج ہی سے آپ اپنے حق، اختیار، ترقی، کامیابی، خوشحالی پر شب خون مارنے والوں کے رونے دھونے کے انتظام کی تیاریاں شروع کر دیں اب ان کے رونے کے دن آ گئے ہیں دیکھیں گے کہ وہ روتے دھوتے کیسے لگتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں