برما…انسانی حقوق کے علمبردارکہاں ہیں
میانمار یعنی برما میں ہونے والی مسلم کش بربریت کی تازہ لہر میں جو گزشتہ سال ماہ جون میں شروع ہوئی
میانمار یعنی برما میں ہونے والی مسلم کش بربریت کی تازہ لہر میں جو گزشتہ سال ماہ جون میں شروع ہوئی، اب تک ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً 20000 ہزار مسلمان مارے جا چکے ہیں۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جو دنیا ہمارے یہاں صرف دو عیسائیوں کے ناگہانی قتل پر اقلیت کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کا الزام دے کر بہت واویلا مچانے لگتی ہے۔ میانمار میں ہونے والے اِس قتلِ عام پر مکمل چپ سادھے ہوئے ہے۔
نہ یو این او اور نہ یورپین یونین اِس ظلم و ستم پر اپنا ردِ عمل ظاہر کر رہی ہے اور نہ عرب لیگ اور او آئی سی کوئی آواز بلند کر رہی ہے۔ ہمارے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سے اِس معاملے میں جو توقع کی جا رہی تھی وہ اُسے پوری کرنے سے یقینا قاصر رہا ہے۔ پڑوسی ملک میں اگر بالی وڈ کے ایک ہیرو سلمان خان کو کسی شخص کے قتل کے الزام میں ایک روز کے لیے گرفتار کر لیا جاتا ہے تو فوراً بریکنگ نیوز جاری کرنا شروع کر دی جاتی ہیں اور کئی کئی گھنٹوں تک اُسے آن ائیر دکھایا جاتا ہے لیکن برما میں بیس ہزار مسلمانوں کا قتل کیا جانا اُن کی نظر میں شاید کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔
برما میں مسلمانوں پر یہ ظلم و ستم کوئی آج اچانک شروع نہیں ہوا۔ اِس سے قبل بھی 1942ء میں یہاں کی مسلم اقلیت پر قتل و غارت گری کا یہ بازار گرم ہو چکا ہے۔ پھر 1982ء اور 2012ء میں بھی وہاں کے بد ھ بھکشؤں کی جانب سے مسلمانوں کی نسل کشی ہوتی رہی ہے۔
برما میں مسلمانوں کی آبادی 10سے 13 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے اِس طرح یہ وہاں کی مجموعی آبادی کا تقریباً4 فیصد بنتی ہے۔ اپنے ملک کی 4 فیصد آبادی پر بدھ مذہب کے ماننے والوں کی طرف سے ایسی بربریت اور سفاکیت کہ انسانیت شرما جائے مگر کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ عالمی بے حسی اور خود غرضی کی ایسی مثالیں صرف مسلمانوں کے معاملے ہی میں دکھائی دیتی ہے۔ اپنے معاملات میں وہ فوراً متحرک اور فعال ہو جاتے ہیں۔ بدھ مت میں کسی کی جان لینا بہت بڑا گناہ تصور کیا جاتا ہے۔
وہاں کسی جانور یا چیونٹی کو مارنا بھی ممنوع ہے تو پھر مسلمانوں کی کثیر تعداد کا یوں خون بہانہ کیسے جائز ہو گیا۔ برما کی تاریخ اُٹھا کر دیکھیے تو معلوم ہو گا کہ یہ کبھی سلطنتِ برطانیہ کی ایک کالونی ہوا کرتا تھا۔ مغل دور کے آخری فرماں رواں بہادر شاہ ظفر اپنے آخری ایام میں رنگون ہی میں پناہ گزیں بن کر رہے اور یہیں رحلت فرما کر سپرد ِخاک ہوئے۔ پاکستان بننے سے پہلے جب انگریز برصغیر سے نکل کر جانے لگا تو اُس نے کشمیر کے طرح یہاں بھی کئی متنازعہ علاقے چھوڑ دیے۔ برما کے علاقے روہنگیا کے مسلمان اپنے علاقے کو سابقہ مشرقی پاکستان کے ساتھ ملانا چاہتے تھے مگر انگریز نے ایسا کرنے سے انکار کرتے ہوئے اُسے برما میں ہی شامل رکھا۔ یوں وہاں کے مسلمانوں کی مشکلات کا آغاز اُسی دن سے شروع ہو گیا۔
مسلمانوں کو 1942ء میں ہونے والے مسلم کش فسادات کا تجربہ ہو چکا تھا اِسی لیے وہ برما کے بدھ بھکشؤں کے ساتھ رہنا نہیں چاہتے تھے۔ مگر اُن کی ایک نہ سنی گئی اور وہ برما ہی میں مقیم رہنے پر مجبور کر دیے گئے۔ اِس کے بعد1971ء سابقہ مشرقی پاکستان ایک نئی ریاست کا روپ دھار چکا تھا اور بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کی حکومت برسرِ اقتدار آ چکی تھی۔ جس کے بعداِن مسلمانوں کے لیے ایک اچھے دوست اور ہمدرد ہمسائے کا سہارا بھی ختم ہو گیا اور وہ بدھ بھکشؤں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیے گئے۔
بظاہر2012ء میں صرف دو بدھ مت لڑکیوں کے اسلام قبول کرنے پر راخین کے علاقے کے رہنے والے بدھ بھکشو اشتعال میں آ گئے اور اُنہوں نے مسلمانوں کو اُس کا ذمے دار قرار دے کر اُن پر عرصہ حیات تنگ کر دیا۔ ہزاروں گھر جلا دیے گئے۔
لاکھوں افراد بے گھر ہوئے۔ مسلمانوں کی مساجد پر حملے ہوئے۔ وہاں کی حکومت نے مسلمانوں پر ایک اور ظلم یہ بھی کیا کہ پارلیمنٹ سے ایسا قانون پاس کروا دیا کہ برما میں بسنے والے مسلمان آیندہ سے شادی کرنے اور بچے پیدا کرنے سے پہلے حکومت سے اُس کی اجازت حاصل کریں گے۔ یہ سب کچھ اِس لیے کیا گیا کہ کہیں مسلمانوں کی تعداد وہاں کے بدھ بھکشؤں سے نہ بڑھ جائے۔ حکومتِ وقت کی مکمل سپورٹ اور حمایت سے مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جاتے رہے اور اُن کی نسل کشی کی جاتی رہی مگر یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی عالمی ضمیر سوتا رہا یا نظریں چراتا رہا۔ کسی نے اُس پابندی کے خلاف کوئی آواز بلند نہیں کی۔ انسانی حقوق کی کوئی تنظیم بھی مسلمانوں کے ساتھ اِس غیر انسانی سلوک پر آگے نہیں بڑھی۔
اب ایک بار پھر وہاں مسلمانوں کو بہیمانہ طور پر نہ صرف قتل کیا جا رہا ہے بلکہ اُن کی نسل کشی بھی کی جا رہی ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کو زندہ جلایا اور مارا جا رہا ہے۔ سرِعام کھلے بازار میں اُن کی سوختہ لاشیں ہر طرف دکھائی دے رہی ہیں۔
بچے کھچے مسلمان پناہ کی تلاش میں جب سمندر کے راستے ہمسایہ ملکوں تھائی لینڈ، ملائشیا اور بنگلہ دیش کی جانب روانہ ہوتے ہیں تو اُنہیں راستے ہی میں مار دیا جاتا ہے۔ ستم بالائے ستم قریبی ہمسایہ ممالک بھی اُنہیں قبول کرنے سے انکار کردیتے ہیں اور اُنہیں وہاں کے کوسٹ گارڈز واپس سمندر میں دھکیل دیتے ہیں۔ کئی کئی سو افراد تو کشتیاں اُلٹ جانے کے سبب سمندر ہی میں ڈوب کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔
ایسی بے بسی اور مجبوری کہ دنیا میں اُن کا کوئی پر سانِ حال نہیں۔ کوئی اُن کی حمایت میں آواز بلند کرنے والا نہیں۔ دنیا کی ایک تہائی مسلمان آبادی میں سے کوئی ملک صدائے احتجاج بلند کرنے سے نجانے کیوں اجتناب کر رہا ہے۔ جب کہ یہی عمل اگر کسی مسلمان ریاست میں غیر مسلم اقلیت کے ساتھ ہوا ہوتا تو آج ساری دنیا میں طوفان کھڑا کر دیا گیا ہوتا۔ امریکا، یورپین یونین، اقوامِ متحدہ سمیت نجانے کتنی این جی اوز سارا آسمان سر پر اُٹھا لیتیں۔ دنیا میں کسی بھی غیر مہذب کارروائی پر مسلمانو ں کو دہشت گردی کا طعنہ دینے والوں کو آج یہ ظلم و ستم دکھائی نہیں دے رہا کیونکہ یہ سب کچھ ایک غیر مسلم طبقے کی جانب سے مسلمانوں پر ڈھایا جا رہا ہے۔ خود مسلم ریاستیں اِس پر کوئی احتجاج نہیں کر رہی ہیں۔
بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ہمارے حکمران بھی مصلحت کوشی کاشکار ہوتے ہوئے اِس جانب توجہ کرنے قاصر ہیں۔ اُنہیں شاید اِس لیے برما کے مسلمانوں سے کوئی ہمدردی نہیں ہے کہ ذاتی مفادات کے اِس پر آشوب زمانے میں برما کے مسلمان سے اُنہیں کسی غرض اور کسی مفاد کی طلب اور حاجت نہیں ہے۔ کشمیر اور فلسطین کے لیے شور مچانے والے بھی آج خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
کوئی جلوس اور کوئی ریلی برما کے اِ ن بے آسرا اور بے گھر لوگوں کے لیے اب تک نہیں نکالی گئی۔ ایسی صورتحال میں برما کے یہ مجبور و بے بس مسلمان جائیں تو جائیں کہاں۔ سمندر میں ڈوب کر مر جائیں یا بدھ بھکشؤں کے ہاتھوں قتل ہو جائیں۔ اِس کے علاوہ اُن کے پاس کوئی راستہ باقی نہیں رہا۔ ہمیں ایک مسلمان قوم اور آزاد ریاست کے امین ہونے کے ناتے یہ سوچنا چاہیے کہ آج اگر ہمارا وطن عزیز پاکستان ایک آزاد مسلم ریاست کے طور پر حاصل نہ ہوا ہوتا تو پھر شاید خدا نخواستہ ہمارا بھی حال اور مقدر ایسا ہی ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہمیں اپنا سر چھپانے کے لیے ایک وطن میّسر ہے۔
جہاں ہم آزادی کے ساتھ گھومتے پھرتے ہیں، من مانیاں کرتے ہیں۔ جو چاہے کرتے ہیں۔ اِسی احساس کو لے کر ذرا برما کے بے کس و لاچار مسلمانوں کی حالتِ زار کا سوچیے اور اُن کے لیے اگر آگے بڑھ کر مدد نہیں کر سکتے ہیں توکم از کم سوئے ہوئے عالمی ضمیر کو تو جھنجوڑ سکتے ہیں۔ جس طرح ساری دنیا اپنے کسی مذہبی بھائی پر ہونے والے نام نہاد ظلم و ستم پر یک آواز اور یک زبان ہو سکتی ہے تو ہم اپنے مسلم بھائیوں کے ساتھ ہونے والے اِس ناروا سلوک پرکیوں نہیں۔ 20000 ہزار مسلمان قتل کیے جا چکے ہیں۔ ہم کس بات کا انتظار کر رہے ہیں۔
جب ساری مسلم آبادی ہلاک کر دی جائے گی تب جاگیں گے۔ یہ ہماری اخلاقی، مذہبی اور معاشرتی ذمے داری ہے کہ دنیامیں جب کہیں کسی کے ساتھ خاص کر اپنے مسلمان بھائی کے سا تھ بلاوجہ زیادتی اور ظلم ہو رہا ہو تو اُس کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں۔