قوم کے نونہال ۔۔۔ غصے کا بھونچال

طلبہ یونین کی عدم موجودگی کے باعث علاقائی، اور لسانی گروہ وجود میں آئے جو تشدد کو اپنے قیام کے لیے ناگزیر سمجھتے ہیں۔


دو طلباء تنظیمیں آمنے سامنے آئیں تو اور تلخی اس قدر بڑھی کہ بات ہتھیاروں کے استعمال تک جاپہنچی۔فوٹو:فائل

خبر تھی کہ ہزارہ یونیورسٹی میں چوکیدار کی جانب سے طالب علم کو روکنے پر تصادم کے نتیجے میں دستی بموں اور فائرنگ کا تبادلہ ہوا، جس سے 10 طلباء زخمی ہوگئے، یہ خبر سارا دن چینلز کی زینت بنی رہی، دوسری جانب صوبائی حکومت کی جانب سے بیانات کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ اگرچہ اِس طرح کی خبریں کوئی نئی نہیں مگر پھر بھی میں حیرت میں مبتلا رہا کیوںکہ مجھے کسی بڑی سیاسی شخصیت، دانشور، کالم نگار اور عظیم اینکر پرسن کے منہ سے اس تصادم کے حوالے سے گفتگو سننے کو نہیں ملی۔ کوئی گفتگو کیوں کرتا؟

ہاں بھائی یہ جامعہ پنجاب یا جامعہ کراچی تھوڑی ہیں جناب، جہاں سے سیاستدانوں، دانشوروں، صحافیوں اور اینکر پرسنز کے مفادات وابستہ ہیں۔ جامعہ پنجاب یا جامعہ کراچی میں ایک گملہ ٹوٹنے پر شور پربا کر دینے والے اسلحہ اور بارود کی بو نہیں سونگھ پائے، شاید وہ خوشبو تبدیلی کے نعروں کی ساتھ فضاء میں تحلیل ہوگئی اور کسی غریب کے رزق کی مانند آسمان اچک کر لے گیا، یقیناً ایسا عمل یا فعل ناقابل معافی ہے اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانا صوبائی حکومت اور خیبر کی پولیس کے لئے ایک آزمائش ہے۔ اگر وہ اِس آزمائش میں پورا اُتر گئے تو پھر کامیابی ان کی دہلیز پر قدم رکھے گی وگرنہ عاشق نامراد کی طرح ناکامی ان کا منہ چڑائے گی۔

ایک ہفتے کے اندر یہ تعلیمی اداروں میں طلبہ کے درمیان ہونے والا یہ دوسرا تصادم ہے۔ وفاقی اردو یونیورسٹی اسلام آباد میں لسانی بنیادوں پر بننے والی دو طلباء تنظیمیں آمنے سامنے آئیں اور تلخی اس قدر بڑھی کہ بات ہتھیاروں کے استعمال تک جاپہنچی۔ واقعہ 14 طلباء زخمی ہیں اور ایک بے چارہ زندگی کی بازی ہار چکا ہے جبکہ گرفتار شدگان کی تعداد بھی 30 سے زیادہ ہے۔ یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم طلبہ سے گفتگو کے بعد معلوم ہوا کہ دو طالبعلموں میں آپسی تنازعہ جو ہوا اسکی بنیادی وجہ ایک طالبہ سے تعلقات تھے۔



ہر ملک کے مستقبل کی صورت گری، اُس ملک کی درسگاہوں میں ہوتی ہے۔ اُن درسگاہوں میں پڑھنے والے طلبہ نے ہی مستقبل کی باگ ڈور سنبھالنا ہوتی ہے۔ معیشت ہو یا معاشرت، قانون ہو یا سیاست، ہر میدان کا شہسوار مستقبل میں طلبہ نے ہی بننا ہوتا ہے۔ تعلیم کے بنیادی مقاصد میں سے ایک اہم مقصد یہ بھی ہے کہ ہر طالبعلم قدرت الٰہی کی طرف سے عطاء کردہ صلاحیتوں سے پوری طرح آگاہ ہوجائے اور ان کو مکمل طور پر بروئے کار لانے کے قابل بن جائے۔ وہ تقلید کے بجائے دوسروں کے لیے نقوش پا چھوڑنے کا خوگر بن جائے۔ یہ مقصد تب ہی حاصل ہوسکتا ہے جب طلبہ کو دور طالبعلمی ہی میں اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنے، پُراعتماد طریقے سے فیصلہ کرنے، انتظامی اور قائدانہ ذمہ داریوں کو نبھانے کے قابل بنایا جائے۔

حالیہ تشدد میں لسانیت اور صوبائیت کا پہلو تشویشناک ہے کیونکہ اب قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکومت کا کڑا امتحان ہے کہ وہ یہاں تشدد کی سیاست کو فروغ دینے والے عناصر کے خلاف کیا کارrوائی کرتے ہیں کیونکہ اگر تشدد کے چلن کو روکا نہ گیا اور اکثریت اقلیت کو یونہی دباتی رہی تو پاکستان کی یونیورسٹیاں متنازعہ ہوکر دنیا میں اپنا مقام کھو بیٹھیں گی جبکہ دوسری جانب والدین کو بھی فکر لاحق ہو چکی ہے اور وہ اپنے بچوں کے مستقبل اور زندگی سے خوفزدہ دکھائی دیتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں جاری حالیہ کشیدگی پر اگر جلد قابو نہ پایا گیا تو یہ ایک ایسی چنگاری ثابت ہوسکتی ہے جو ملک کے امن کو ہی خطرے میں نہیں ڈالے گی بلکہ نفرت کا ایک اور ایسا بیج بو دے گی جس کی قیمت کچھ عرصہ بعد شاید پوری قوم کو ادا کرنا پڑے۔



اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ علم اور انسان دوست دانشوروں حکومت اور انتظامیہ کو اس مسئلے کو سنجیدگی کی نظر سے دیکھتے ہوئے اس کے پائیدار حل کے لیے راہ تلاش کرنی چاہیے۔ یہ بھی ضروری خیال کیا جارہا ہے کہ ایک غیر جانبدار کمیٹی کا قیام عمل میں لایا جائے جو تعلیمی اداروں میں دھونس دھاندلی اور طاقت کے استعمال کو روکنے کے لیے سدباب کرائے۔

یہاں ایک سوال یہ بھی جنم لیتا ہے کہ ہماری ہمہ وقت تیار پولیس کے نوجوان، وزارت داخلہ اور یونیورسٹیز میں موجود سیکورٹی اہلکاروں کی افواج کی کارکردگی کیا ہے؟ تعلیمی اداروں میں اسلحہ کیسے پہنچا؟ وفاقی اردو یونیورسٹی دارلخلافہ میں موجود ہے اس میں اسلحہ کس نے پہنچایا؟ لسانی افکار کو تعلیمی اداروں میں کون فروغ دے رہا ہے؟ سیاسی جماعتوں کی آشیر باد کے سوا کچھ طلبہ اتنا بڑا اقدام نہیں اُٹھاتے۔ میری رائے کے مطابق ان تمام معاملات کی اصل وجہ طلبہ یونین پر پابندی ہے کیوںکہ اپنی بات کہنا اور دوسرے کی بات کھلے دل سے سننا پُرامن بقائے باہمی کی نشانیاں ہیں۔ طلبہ یونین کی مختلف سرگرمیوں کے دوران مختلف الخیال طلبہ کو ایک دوسرے سے مل بیٹھنے کے مواقع فراہم ہوتے ہیں۔ مختلف مقابلوں، مذاکروں اور مباحثوں وغیرہ کے دوران مختلف سوچ رکھنے والے طلبہ جب ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوجاتے ہیں تو ان میں صبر، برداشت اور امداد باہمی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے جو آگے چل کر تعلیمی ادارے میں پُرامن اور پُرسکون تعلیمی ماحول کا ضامن بنتا ہے۔ طلبہ یونین کی عدم موجودگی میں بہت سے علاقائی، لسانی اور نسلی گروہ وجود میں آتے ہیں جو اپنے وجود کو قائم رکھنے کے لیے اکثر ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہوجاتے ہیں جن سے طلبہ کے درمیان رقابت پیدا ہوتی ہے اور آئے روز کی لڑائی جھگڑوں سے تعلیمی ماحول پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

اس صورتحال کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ تعلیمی دنیا میں مکالمے کا آغاز ہو اور مکالمے کا بہترین پلیٹ فارم طلبہ کی منتخب کردہ اسٹوڈنٹس یونین ہے۔ جن ممالک میں تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین موجود ہے وہاں بہترین اور پُرامن تعلیمی ماحول قائم ہے۔ لہٰذا پُرامن، تعمیری اور پُرسکون تعلیمی ماحول کے لیے طلبہ یونینز کی بحالی ناگزیر ہے۔ لیکن فی الوقت ان عوامل اور افراد کا سراغ لگایا جائے جو علاقائی، نسلی اور لسانی اختلافات کو فروغ دے کر ملک کے تعلیمی اداروں کا امن خراب کر رہے ہیں، درسگاہوں میں اسلحے کے کلچر کو فروغ دے رہے ہیں۔

[poll id="476"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں