ترجیحات حضورِ والا پہلے ترجیحات کا تعین کریں

جس شخص کو یہ علم ہی نہ ہو کہ اس کی ترجیحات کیا ہیں، وہ کس طرح اپنی ضرورتیں پوری کرے گا؟


اویس حفیظ June 17, 2015
ہماری حکومت کی ترجیحات بھی ان ماہرین آثارِ قدیمہ کی مانند ہیں جن کی جان مزدوروں کے بند چولہوں سے زیادہ مٹی و پیتل کے برتنوں میں اٹکی ہوئی ہوتی ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

ISLAMABAD: سرِ راہ میری ایک شخص سے بحث ہوگئی کہ آئے دن حکومت فن و ثقافت اور لایعنی منصوبوں پر جو اربوں روپے خرچ کر رہی ہے، اُن کا مقصد کیا ہے؟

میرا یہ موقف تھا کہ حکومت ابھی تک اپنی ترجیحات کا تعین ہی نہیں کرسکی۔ اُس نے میری دکھتی رگ پر ہاتھ رکھتے ہوئے اپنی بات لاہور شہر سے شروع کی اور بولا کہ ''اگر تاریخِ لاہور کا مطالعہ کریں تو تاریخ کے ہر پچھلے باب کے ساتھ لاہور کی تاریخ کا ایک نیا باب شروع ہوجاتا ہے۔ ابھی کچھ مہینے پہلے اندرونِ لاہور میں کچھ کام ہو رہا تھا تو تقریباً 12 فٹ نیچے کھدائی کے دوران ایک پرانا شہر لاہور ملنا شروع ہوگیا۔ جس کے بارے میں اندازہ کیا جا رہا ہے کہ یہ کم از کم 7، 6 ہزار سال پرانا شہر بھی ہوسکتا ہے۔ اپنی خوبصورتی اور تاریخ کے اعتبار سے ہی لاہور کو بے مثل و بے مثال کہا جاتا ہے۔ یونہی نہیں کہا جاتا کہ ''جنیں لاہور نہیں ویکھیا او جمیا ای نہیں''۔

یہ میرے سوال کا جواب نہیں، میں نے پوچھا تو بولا کہ میں اسی طرف آ رہا ہوں، پھر اُس نے لاہور کی تعریفیں گنوائیں اورمیرا موڈ بدلتا دیکھ کر گفتگو کا رخ ذرا تبدیل کیا کہ ''اگر تم نے لاہور اندرون شہر دیکھا ہے تو یقیناً آپ نے دہلی دروازہ بھی دیکھا ہوگا۔ یہ دلی دروازہ قدیم لاہور کے 12 دروازوں میں سے ایک ہے۔ جسے مغل بادشاہ اکبر نے تعمیر کروایا۔ اس کا رخ چونکہ مغل سلطنت کے دارالحکومت دلی کی جانب تھا، لہٰذا اس کا نام دلی دروازہ رکھ دیا گیا۔

دہلی دروازے سے شروع ہونے والی سڑک شاہی گزر گاہ کہلاتی ہے۔ یہ سڑک ڈیڑھ کلومیٹر طویل ہے اور کوتوالی پہنچ کر ختم ہوتی ہے۔ شاہی گزر گاہ پر مسجد وزیر خان، شاہی حمام اور سنہری مسجد سمیت کئی اہم تاریخی عمارتیں قائم ہیں۔ روایت ہے کہ مغل بادشاہ قلعے سے نکل کر اُسی راستے حمام اور جمعے کو سنہری مسجد نماز ادا کرنے کے لیے آتے تھے۔ اسی مناسبت سے اس سڑک کو شاہی گزرگاہ کا نام دیا گیا ہے۔

مسجد وزیر خان اور شاہی حمام سترھویں صدی کے شروع میں مغلیہ حکومت کے صوبیدار حکیم علم الدین انصاری نے بنوائے۔ انہیں چونکہ وزیر خان کا خطاب ملا تھا، اسی وجہ سے ان کے تعمیر کردہ شاہی حمام کو حمام وزیر خان بھی کہا جاتا تھا۔ وسطی ایشیا اور ایرانی حماموں کی طرز پر بنا یہ حمام عوام اور خواص مسافروں اور شہر کے باسیوں کے استعمال میں رہا۔ کہتے ہیں اس کے قریب ہی ایک سرائے بھی بنایا گیا جس کے آثار اب نہیں ملتے۔

مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد لاہور شہر کی بگڑتی بدلتی تاریخ میں شاہی حمام بھی تاریخ میں گم ہوگیا۔ برطانوی دورِ حکومت میں اس پر چونا پھیر دیا گیا۔ بعد میں اسے میونسپل کارپوریشن نے اپنی تحویل میں لے لیا اور اسے بچوں کیلئے پرائمری اسکول، بچیوں کیلئے دستکاری اسکول، ڈسپنسری اور دیگر دفاتر کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔ حمام کی عمارت کے شمال، جنوب اور مغرب میں دکانیں بن گئیں۔ یہ شادی ہال کے طور پر بھی استعمال ہوتا رہا اور کمیونٹی ہال کے طور پر بھی۔

مگر پھر حکومت نے اس تاریخی ورثے کی بحالی کا کام شروع کیا جو اب تقریباً دو سال بعد اپنی تکمیل کو پہنچا ہے۔ پتہ ہے، والڈ سٹی اتھارٹی، آغا خان ٹرسٹ، حکومتِ ناروے اور سری لنکن ماہرین سمیت نجانے کس کس کی خدمات حاصل کی گئیں۔ ورلڈ بینک نے بھی اس منصوبے میں تعاون کیا۔ ابتدائی تخمینہ تو 70 کروڑ روپے لگایا گیا تھا لیکن میرا خیال ہے کہ اس پر زیادہ پیسے خرچ ہوئے ہوں گے۔



اتنی ساری تفصیل گنوانے کے بعد وہ خاموش ہوا تو میں نے پوچھا کہ کیا حکومت نے پرائمری اسکول، دستکاری اسکول، ڈسپنسری، سرکاری دفاتر اور دکانیں محض اس وجہ سے ختم کروادیں کہ اسے اس جگہ کو پرانے انداز میں بحال کرنا تھا تو اس نے ذرا تلخ لہجے میں کہا کہ ''جو قومیں اپنے تاریخی ورثے کو فراموش کر دیتی ہیں، تاریخ بھی انہیں فراموش کر دیتی ہے''۔ میں نے پھر وہی سوال پوچھا کہ حکومت نے محض کروڑوں روپے اس ایک حمام کی بحالی کیلئے خرچ کر دئیے؟ تُو وہاں جا کر تو دیکھ، دیکھتا رہ جائے گا، کیا شاندار جگہ ہے، پتہ ہے اِس سے ٹورازم کو کتنا فروغ ملے گا؟ کتنا ریونیو ملے گا؟ وہ وہی پرانی و گھسی پٹی دلیلیں دہرانے لگا لیکن میرا سوال اب بھی اپنی جگہ موجود تھا کہ ''حکومت فن و ثقافت کے نام پر جو کروڑوں، اربوں روپے خرچ کر رہی ہے، ان کا حاصل وصول کیا ہے''؟

جب لوگوں کے پاس سوالوں کا مناسب جواب نہ ہو تو وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگتے ہیں اور یہی طرزِ عمل اس نے اپنایا۔ میں حکومت اور ثقافت کے دالدادہ لوگوں سے صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا جشن شاہی گزرگاہ، یوتھ فیسٹیول، سندھ ثقافت شو، جشن بہاراں جیسے فضول و فضول خرچ تہواروں سے عوام کو کیا کھانے کو روٹی مل رہی ہے؟ کیا اُنہیں صحت کی اچھی سہولیات میسر آجائیں گی، کیا اُنہیں باعزت روزگار حاصل ہوجائے گا؟

یہ جو خامہ بردار آج میڑو بس کی قصیدہ نویسی میں قرطاس میں سیاہ رنگ بھر رہے ہیں انہیں کم از کم ایک بار روم کے مشہور دانشور سینیکا (Lucius Annaeus Seneca) کے حالاتِ زندگی ضرور پڑھنے چائیے۔ اُنہیں ضرور پڑھنا چاہئے کہ کیا وجہ بنی کہ اسے اپنے ہی شاگرد بادشاہ کے دربار میں حاضر کیا گیا، کیوں اسے خود کشی پر مجبور کیا گیا؟ انہیں ان کے تمام سوالوں کا جواب مل جائے گا۔ آج جو میڑو کے قصیدے گا رہے ہیں ان کیلئے مبشر کی یہ کہانی ہی کافی ہے کہ ''گزشتہ ماہ میں نے بچوں کے اسکول کی فیس ادا نہیں کی، فیس کے پیسوں سے موبائل فون خریدلیا۔ بابا کی شوگر اور بلڈ پریشر کی دوائیں نہیں لایا، دواؤں کے پیسوں سے دوستوں کی دعوت کرلی، بیوی تقاضا کرتی رہی لیکن جنریٹر نہیں لیا، چوکی دار تقاضا کرتا رہا لیکن نیا پستول نہیں خریدا، ان پیسوں سے نئی موٹرسائیکل خریدلی۔''

یا پھر اس کے لئے اس شخص کی مثال بالکل ٹھیک ہے جس کے تین بیٹے ہوں، ایک بیروزگار ہو، ایک بیمار ہو اور ایک اپنی فیس ادا کرنے سے عاجز ہو اور وہ شخص نئی گاڑی خرید لے اور یہ مثالیں پیش کرتا پھرے کہ اس طرح سے بیمار بیٹے کو ہسپتال لیجانے میں آسانی ہو گی، بیروزگار اس پر بیٹھ کر جا کر روزگار تلاش کرسکتا ہے اور جو فیس ادا نہیں کر سکتا وہ کم از کم یونیورسٹی تو وقت پر پہنچ سکتا ہے۔

جس شخص کو یہ علم ہی نہ ہو کہ اس کی ترجیحات کیا ہیں، وہ کس طرح اپنی ضرورتیں پوری کرے گا؟ جسے اپنی چادر کا ہی علم نہ ہو اس کے پیر ہمیشہ باہر ہی رہیں گے، اس کا دست ہمیشہ سوال کناں ہی ملے گا، وہ ہمیشہ قرض کی زنجیروں میں ہی جکڑا رہے گا۔ یہی حال حکومت کا ہے جسے اپنی ترجیحات کا ہی علم نہیں ہے۔ حکومتی ترجیحات کا سب سے درست عکاس چند روز قبل پیش کیے جانے والا بجٹ ہے جس میں آئندہ مالی سال کیلئے ترقیاتی بجٹ کا ہدف 700 ارب روپے مقرر کیا ہے لیکن اندورنی اور بیرونی قرضوں پر شرح سود کی ادائیگی کے لیے 1279 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ یعنی سود کی ادائیگی کیلئے کُل ترقیاتی بجٹ سے تقریباً 80 فیصد زیادہ رقم مختص کی گئی ہے۔



اس ضمن میں دوسری بڑی مثال پنجاب حکومت کا تازہ جاری کردہ سرکاری حکم نامہ ہے جس کے تحت 1500 سو روپے ماہانہ یا اِس سے زائد بل اور دو میگا بائٹ فی سیکنڈ یا اِس سے زائد رفتار کے انٹرنیٹ کنکشن پر 19.5 فیصد ٹیکس لگا دیا ہے۔ یعنی ایک طرف حکومت طالبعلموں کو مفت لیپ ٹاپ بانٹ رہی ہے کہ اس سے فروغِ تعلیم میں مدد ملے گی اور دوسری جانب انٹرنیٹ پر ٹیکس لگایا جا رہا ہے مطلب کہ لیپ ٹاپ صرف فیس بک پر چیٹنگ کیلئے استعمال کیا جائے۔ ابھی تھوڑے دن پہلے تو حکومت 3G اور 4G پر دادِ تحسین وصول کر رہی تھی اور اسے آئی ٹی کیلئے ایک سنگِ میل قرار دے رہی تھی اور اب انٹرنیٹ پر مزید ٹیکس چہ معنی دارد؟ اور تصویر کا یہ رخ بھی دیکھتے چلئے کہ خود حکومت کا یہ حال ہے کہ میڑو بس کے روٹ، میٹرو بس اور میٹرو بس اسٹیشنز کو ''فری وائی فائی'' زون بنایا جا رہا ہے اور اس پر کروڑوں روپے خرچ کیے جا رہے ہیں اور جہاں تک میٹرو بس منصوبے کی بات ہے تو اس ضمن میں صرف ایک بات کہ میٹرو بس سے آمدن تقریباً دو ارب ہوگی جبکہ اس پر پانچ ارب کی سبسڈی دی جارہی ہے۔ یہ منصوبہ حقیقت میں کتنے ارب روپوں کا ہے، کون کون سی رقم اس پر خرچ کی جا رہی ہے اور اس رقم سے کیا کیا مزید کیا جاسکتا تھا، یہ توخیر قصہ ہی الگ ہے۔

مجھے یہاں پر عمان عزیز صاحب یاد آگئے کہ جب راولپنڈی میڑو منصوبہ شروع ہوا تو انہوں نے کہا کہ کوئی تو حکومت کو یہ مشورہ دے کہ یہ پیسہ ''ضائع'' ہونے سے بچا لے اور اسے کسی بہتر منصوبے پر خرچ کرے۔ لاہور میں حکومتی اعداد و شمار کے مطابق میٹرو بس منصوبہ تیس ارب روپوں میں تکمیل کو پہنچا (غیر سرکاری اعداد تو 72 ارب تک جاتے ہیں) اگر حکومت انہی 30 ارب سے پنجاب کے کسی ایک پسماندہ ضلع مثلاً بہاولپور، بہاولنگر یا کسی اور ضلع کو ڈویلپ کر دیتی تو کیا بُرا تھا، اگر اسی پیسے سے وہاں سرکاری ہسپتال اور لڑکے، لڑکیوں کا کالج بن جاتا، یونیورسٹی کا ایک کیمپس بن جاتا تو جو لوگ محض اس وجہ سے لاہور ہجرت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، انہیں وہیں پر روکا جاسکتا تھا، اسی طرح حکومت باری باری تمام اضلاع کو ترقی یافتہ اور سہولیات سے مزین کردیتی مگر حکومت اور اس کے مشیروں میں اتنا ویژن ہی کہاں۔

یہاں سوشل میڈیا پر چلنے والی ایک بات یاد آگئی، اگرچہ میرا یہ مزاج نہیں مگر کیا کروں کہ یار لوگوں کی حکومت کے بارے میں رائے یہی ہے کہ
''اگر تعلیم اور صحت کے منصوبوں میں بھی سریا استعمال ہوتا تو حکومت کی تمام تر توجہ ان منصوبوں کی طرف ہوتی''

میں اب بس اردو ادب کا یہ شاہکار افسانہ مختصراً حکومت کی ترجیحات کی نذر کرنا چاہوں گا اگرچہ پہلے بھی کئی دانشور حکومت کو یہ قصہ سنا چکے ہیں مگر
شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات

'ایک گاوں کے باسی بارش کے پانی سے اپنی محدود زمینیں آباد کرتے ہیں۔ بارشیں رک جائیں تو قحط سالی آجاتی ہے، جمع شدہ اناج سے گزربسر کی جاتی ہے، یا پھر کچھ عرصے کے لیے شہر کی جانب ہجرت کرکے محنت مزدوری سے پیٹ پالا جاتا ہے۔ بارانی علاقے کی اس زمین پر مٹی کے بہت سے بڑے بڑے ڈھیر ہیں، جنھیں ٹبے کہا جاتا ہے۔ ان ٹبوں کے بارے میں لوگوں کا یہ گمان ہے کہ یہاں کبھی انسان رہا کرتے تھے، شہر آباد تھے، لیکن وقت نے انھیں کھنڈر کردیا۔ قحط سالی کے زمانے میں آثارِ قدیمہ کے ماہرین کی ایک ٹیم یہاں کے ایک ٹبے کے گرد پڑاؤ ڈالتی ہے اور گاؤں میں سے چند لوگوں کو کھدائی کے لیے مزدور رکھ لیتی ہے۔ ایک فاقہ زدہ غریب شخص بھی ان مزدوروں میں شامل ہوجاتا ہے۔ دن بھر کھدائی کے بعد وہ رات کو مزدوری لے کر گھر آتا ہے تو اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں رہتا۔ اسے لگتا ہے کہ اب غربت کے دن رخصت ہوگئے۔ بیوی اکثر اس سے سوال کرتی ہے کہ تم وہاں کھدائی کرتے ہو، آخر وہ لوگ کیا ڈھونڈ رہے ہیں؟ پہلے پہل تو اسے صرف اتنا پتا چلتا ہے کہ مٹی کے اندر سے ٹوٹے برتنوں کے ٹکڑے، سکّے یا کوئی اور استعمال کی چیز مل جائے تو فوراً اسے ماہرین آثارِ قدیمہ کے سامنے لاکر پیش کردیا جاتا۔ وہ اسے صاف کرتا، 'ڈسٹلڈ واٹر' سے دھوتا اور اپنے سامنے رکھی ہوئی چیزوں پر ترتیب سے رکھ دیتا۔ مزدور اپنی کھدائی میں مصروف رہتے، جب کہ وہ بڑے بڑے محدب عدسوں کے ذریعے ان ٹھیکریوں کا بغور مطالعہ کرتا رہتا۔ کھدائی کا عرصہ طویل ہوتا گیا، ان چند مزدوروں کے گھر میں خوش حالی آگئی، لیکن اس مزدور کی بیوی کے سوال ختم نہ ہوئے۔ وہ پوچھتی: یہ لوگ پاگل ہیں، آخر کیا ڈھونڈ رہے ہیں؟ ان ٹوٹے ہوئے برتنوں سے انھیں کیا ملے گا؟ خود اس کی سمجھ میں بھی کچھ نہ آتا تھا تو بھلا وہ بیوی کو کیا بتاتا!

آخر اسے وہاں موجود ماہرین کی باتوں سے پتا چلنے لگا کہ یہ لوگ تین چار ہزار سال پرانے اس شہر میں بسنے والے لوگوں کے زیراستعمال اشیاء کی تلاش میں ہیں۔ ان میں سب سے اہم ایک بہت بڑا مٹکا ہے، جس کے گیارہ ٹکڑے دریافت ہوچکے ہیں اور بارھویں کی تلاش جاری ہے تاکہ مٹکا مکمل ہو جائے۔ تلاش طویل ہوجاتی ہے، وہ ٹکڑا نہیں ملتا، اورمزدوروں کا رزق چلتا رہتا ہے۔ اچانک شور اٹھتا ہے کہ وہ ٹکڑا مل گیا۔ ٹکڑا لاکر اس بڑی سی میز پر رکھ دیا جاتا ہے۔ ایک دم خوشی و مسرت کی کیفیت میں ماہرین رقص کرنے لگتے ہیں۔ ان سب کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔ معمول کے مطابق اگلے دن صبح مزدور کام پر آتے ہیں تو ماہرین کا سامان باندھا جا رہا ہوتا ہے، گاڑیاں تیار کھڑی ہوتی ہیں، وہ ان سب مقامی مزدوروں کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور کچی سڑک پر دھول اڑاتے غائب ہوجاتے ہیں۔

یہ شخص مایوس گھر واپس لوٹتا ہے۔ قحط سالی اب بھی قائم ہے۔ چند دن بچی کھچی آمدن سے گھر کا گزارا چلتا ہے، پھر فاقے شروع ہوجاتے ہیں۔ پریشان حال وہ شخص گھر کے صحن میں بیٹھا سوچوں میں گم ہے، بیوی اسے مزدوری ڈھونڈنے کے لیے کہتی ہے۔ کتنے دن اس لڑائی، ناکامی اور نامرادی میں گزر جاتے ہیں۔ نہ بارش برستی ہے، نہ مزدوری ملتی ہے اور نہ ہی فاقے ختم ہوتے ہیں۔ ایک دن وہ سخت پیاس کے عالم میں گھڑونچی پر رکھے ہوئے گھڑے کے پاس پانی پینے کے لیے آتا ہے۔ پانی پی کر گھڑا اٹھاتا ہے اور اسے گھر کے باہر زور سے پٹخ دیتا ہے۔ بیوی غصے سے پاگل ہوجاتی ہے۔ کہتی ہے: 'ایک تو گھر میں پیسے نہیں، اوپر سے تم نے پانی بھر کے لانے والا گھڑا بھی توڑ دیا'۔ ''اس مزدور کا جواب ثقافت کے ٹھیکے داروں کے منہ پر ایک زناٹے دار تھپڑہے''۔ وہ اپنی بیوی سے کہتا ہے؛
''آج سے تین ہزار سال بعد جب یہ گاؤں ایک ٹبہ بن چکا ہوگا تو ایسے ہی ماہرین آثارِ قدیمہ آئیں گے اور مزدوروں کو اس گھڑے کے ٹکڑوں کی تلاش میں لگائیں گے۔ یوں کتنے لوگوں کو مزدوری مل جائے گی''۔

ہماری حکومت کی ترجیحات بھی ان ماہرین آثارِ قدیمہ کی مانند ہیں جن کی جان مزدوروں کے بند چولہوں سے زیادہ مٹی و پیتل کے برتنوں میں اٹکی ہوئی ہوتی ہے۔ پورا بلوچستان بھوکا مر رہا ہے مگر مہرگڑھ کا ثقافتی ورثہ زندہ ہے، تھر میں افلاس و غربت کے ڈیرے ہیں لوگ بھوکوں مر رہے ہیں مگر موہنجوداڑو کے کھنڈرات زندہ ہیں۔ پنجاب کی کروڑوں کی آبادی کیلئے دل کا صرف ایک ہسپتال ہے جہاں کی ایمرجنسی کی حالت ایسی ہے کہ دیکھ کرجی متلانے لگتا ہے مگر ہم اگلے ہی لمحے میٹرو اسٹیشنز کو دیکھ کر دل دوبارہ بہلالیتے ہیں آخر حکومت نے کروڑوں روپے صرف تزین و آرائش کیلئے صرف کیے ہیں اور ویسے بھی''سیلفی'' کیلئے تو یہ بہت اچھے پوائنٹ ہیں۔

[poll id="486"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں