آرزو لکھنوی سے آرزو اکبر آبادی تک
آرزو لکھنوی کو فلمی دنیا سے بھی بڑی دلچسپی تھی، وہ فلموں میں گیت لکھنے کے خواہش مند تھے
جب برصغیر ہندوستان میں فلم نے ایک انڈسٹری کی حیثیت اختیار کی تو جہاں نئے نئے کہانی کار منظر عام پر آئے تو ان کے ساتھ ساتھ فلموں کے لیے نغمہ نگار بھی فلموں کی ضرورت بنتے چلے گئے، فلموں کے ابتدائی دور میں فلم کے موسیقاروں کے ساتھ جن چند گیت نگاروں کو شہرت حاصل ہوئی انھیں پنڈت بھوشن، ڈی این مدھوک اور خاص طور پر آرزو لکھنوی کا نام بڑی توجہ کا حامل رہا ہے اور آرزو لکھنوی کے لکھے ہوئے گیتوں سے اس دورکے کئی نامورگلوکاروں اورگلوکاراؤں کو بھی بڑی شہرت حاصل ہوئی۔
یہ 1935ء کا دور تھا جب ہندوستان کے نامور ناول نگار سرت چندرا کے بین الاقوامی شہرت یافتہ اور کلاسیک ناول ''دیوداس'' کو پہلی بار فلم کے اسکرپٹ میں ڈھالاگیا تھا، فلم کے ہدایت کار کیدار شرما تھے، فلم کے موسیقار تمربرن تھے اور فلم کے ہیرو اور گلوکار کندن لال سہگل تھے، بعد میں ان کی ایک فلم ''شاہجہان'' کے گائے ہوئے گیتوں نے بھی سہگل کی دھوم مچا دی تھی، دیوداس کے گیت نگار آرزو لکھنوی تھے اور فلم میں سہگل کا گایا ہوا ایک گیت جس کے بول تھے:
بالم آئے بسو مورے من میں
یہ گیت ہندوستان کی گلی گلی میں گایا جاتا تھا۔ فلم ''دیوداس'' کی کامیابی میں سہگل کی گائیکی کو بھی بڑا دخل تھا، دوسری بار ''دیوداس'' دلیپ کمار کی اداکاری سے ہٹ ہوئی اور پھر جب ''دیوداس'' تیسری بار بنائی گئی تو اس میں بالی ووڈ کے نامور اداکار شاہ رخ نے ہیرو کا کردار ادا کیا اور خوب نبھایا، فلم بھی خوب چلی تھی۔ فلم ''دیوداس'' جتنی بار بھی بنائی گئی اسے شہرت کے ساتھ بے انتہا کامیابی نصیب ہوئی، پھر سہگل کی ایک فلم ''دشمن'' کو بھی دیوداس کے بعد بڑی مقبولیت حاصل ہوئی تھی، جس کے گیت آرزو لکھنوی ہی نے لکھے تھے، یہ فلم 1939ء میں بنائی گئی تھی، سہگل کی آواز میں ان دنوں مذکورہ فلم کا ایک گیت بہت ہی پاپولر ہوا تھا جس کی موسیقی نتن بوس نے دی تھی اور گیت کے بول تھے:
کیا کروں آس نراش بھئی
جیا بجھے پھر سے جل جائے
رات اندھیری جائے دن آئے
وہ دورکندن لال سہگل کا دور تھا، سہگل کے علاوہ اور جن آوازوں میں آرزولکھنوی کے گیتوں کو شہرت حاصل ہوئی ان آوازوں میں پنکج ملک، کانن بالا، بیگم اختر، سریندر شانتی کماری، روپ کمار، رادھا رانی اور حسن بانوکی بڑی دھوم تھی اور ہر فلم میں ان ہی کی آوازیں استعمال کی جاتی تھیں، اس زمانے کی چند مشہور فلموں میں اسٹریٹ سنگر ابھاگن، آندھی، نرتکی، درشن، جوانی کی ریت اورہار جیت نے فلم بینوں کے دل جیت لیے تھے۔
اب میں آتا ہوں آرزو لکھنوی کی گھریلو زندگی کی طرف۔ ان کا گھریلو نام سید انور حسین تھا اور یہ لکھنؤ کے ایک جانے پہچانے شاعر ذاکر حسین یاس لکھنوی کے صاحبزادے تھے، انھیں شعر و ادب کا ماحول اپنے گھر ہی سے ملا تھا، پھر جیسے جیسے شعور آتا گیا ان کا شعری ذوق بھی پروان چڑھتا رہا، لکھنوی شعر و ادب کا شہر تھا جہاں مشاعروں کی محفلوں کی حسین روایت قائم تھی جب انور حسین آرزو لکھنوی بنے تو یہ بھی مشاعروں میں شرکت کرنے لگے اور ان کی بھی ایک پہچان بنتی چلی گئی۔
آرزو لکھنوی کو فلمی دنیا سے بھی بڑی دلچسپی تھی، وہ فلموں میں گیت لکھنے کے خواہش مند تھے، ان کی یہی خواہش انھیں ایک دن لکھنؤ سے کلکتہ لے گئی جہاں مشہور فلم کمپنی نیو تھیٹرز قائم تھی کسی طرح کوشش کرکے آرزو لکھنوی نیو تھیٹرز کمپنی میں پہنچ گئے، وہاں اردو داں ہونے کی وجہ سے آرٹسٹوں کو اردو سکھانے کی نوکری مل گئی اور پھر جب ان کی شاعری کے جوہر منظر عام پر آئے تو یہ نیو تھیٹرزکی فلموں کے معروف ترین گیت نکار بن چکے تھے۔ آرزو لکھنوی کے کریڈٹ پر اتنے سپرہٹ گیت کہ کئی کالم درکار ہوں۔
ہندوستان سے ہجرت کرنے سے پہلے آرزو لکھنوی کی آخری فلم ''بے قصور'' تھی جو تقسیم ہندوستان سے ایک سال پہلے ریلیز ہوئی تھی اور ہندوستان میں جو انھوں نے اپنا آخری فلمی گیت لکھا تھا وہ فلم ''رات کی رانی'' سے تھا جسے اس وقت کے نئے گلوکار محمد رفیع نے گایا تھا اور جس کے بول تھے:
جن راتوں کی نیند اڑ جاتی ہے
کیا قہرکی راتیں ہوتی ہیں
اس گیت کے بعد محمد رفیع بتدریج ترقی کی طرف گامزن ہوتے چلے گئے تھے، فلم ''رات کی رانی'' کے بعد آرزو لکھنوی ایک مشاعرے میں شرکت کی غرض سے پاکستان آئے تو پھر پاکستان کی مٹی نے انھیں دوبارہ ہندوستان کی سرزمین پر واپس نہیں جانے دیا اور یہ کراچی میں ہی سکونت پذیر ہوگئے اور پھر کچھ عرصہ بیمار رہنے کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
اب میں آتا ہوں ہندوستان ہی سے ہجرت کر کے پاکستان آنے والے شاعر آرزو اکبر آبادی کی طرف۔ آرزو اکبر آبادی کا تعلق بھی آگرہ کے ایک ادبی گھرانے سے تھا، انھوں نے بھی شاعری کا آغاز نو عمری سے کیا تھا مگر فلمی دنیا سے وہاں وہ اپنا کوئی تعلق پیدا نہ کرسکے تھے جب یہ پاکستان آئے تو لیاقت آباد کراچی میں رہائش اختیار کرلی، ان دنوں کراچی ریڈیو سے ان کا لکھا ہوا ایک گیت:
سروتا کہاں بھول آئے...پیارے نندویا
بار بار نشر ہوتا تھا۔ دراصل اس گیت کا مکھڑا یوپی کے ایک مشہور لوک گیت کا حصہ تھا اور آرزو اکبر آبادی نے اس مکھڑے کو مزید سنوار کرکئی نئے انترے لکھے تھے اور یہ گیت پھر سے نئے دور میں بھی پہلے ہی کی طرح پاپولر ہوگیا تھا اور شادی بیاہ کے مواقعے پر یہاں بھی گھروں میں خوب گایا جاتا تھا۔ آرزو اکبر آبادی سے میری پہلی ملاقات نگار ویکلی کے دفتر میں ہوئی تھی جہاں میں پارٹ ٹائم کام کرتا تھا۔ یہ ہر ہفتے اخبار کے دفتر میں آتے تھے اور فلمی فنکاروں پر نظمیں وغیرہ لکھا کرتے تھے۔
انھی دنوں ان کی ملاقات مشہور ہدایت کار نذیر اجمیری سے ہوئی، انھوں نے کہاکہ وہ جلد ہی لاہور میں ایک فلم ''شب بخیر'' شروع کررہے ہیں۔ اگر آپ لاہور آجائیں تو میری فلم میں گیت لکھیںگے۔ آرزو اکبر آبادی یہ آفر قبول کرتے ہوئے کراچی سے لاہور چلے گئے۔ وہاں انھوں نے فلم ''شب بخیر'' کے لیے دو تین گیت لکھے ان کی لکھی ہوئی ایک غزل کافی مشہور ہوئی تھی جس کے بول تھے: ''جب تصور میں کبھی آپ کو پاتا ہے دل'' یہ گیت مالا نے گایا تھا اور جس کی موسیقی تصدق حسین نے دی تھی۔
آرزو اکبر آبادی چند ماہ لاہور میں رہے مگر انھیں وہاں کوئی اور فلم نہ مل سکی اور لاہور کی فلمی دنیا کا ماحول انھیں راس بھی نہ آیا وہ مایوس ہوکر واپس کراچی آگئے۔ کراچی میں انھوں نے ایک فلم ''چاند سورج'' کے لیے ایک قوالی لکھی جو غلام فرید صابری قوال کی آواز میں ریکارڈ ہوئی تھی۔ ناکام فلم ''چاند سورج'' بھی آرزو اکبر آبادی کو شہرت نہ دے سکی پھر کئی ایسی فلموں میں آرزو اکبر آبادی نے گیت لکھے جو ایسٹرن اسٹوڈیو میں شروع ہوئیں۔ چند گیت صدا بند ہوئے اور پھر وہ فلمیں ڈبوں میں بند ہوگئیں۔ اسی دوران کراچی کے ایک بلڈر اختر عزیز (اختر پلازہ والے) نے فلم ''کردار'' کا آغاز کیا۔ جس کی کہانی ان کی اپنی تھی اور مکالمے وگانے آرزو اکبر آبادی نے تحریر کیے تھے۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ فلمساز اختر عزیز خود ہی فلم کے ہیرو، فلم کے سنگر اور فلم کے ہدایت کار بھی تھے۔
فلمساز کے پاس پیسے کی کمی نہ تھی، چند ماہ میں فلم ''کردار'' مکمل تو ہوگئی مگر کوئی بھی تقسیم کار اس فلم کو ریلیز کرنے کے لیے تیار نہ تھا، آخر کار اختر عزیز نے ایک جوا اور کھیلا اور اپنی فلم کو کراچی کے چند سینما کرائے پر لے کر خود ہی ریلیز کیا اور توقع کے مطابق فلم کردار پہلے ہی شو میں بیٹھ گئی مگر اختر عزیز کو اس بات پر کوئی افسوس نہ ہوا۔ ہاں البتہ آرزو اکبر آبادی ایک صدمے سے دو چار ہوگئے تھے۔
پھر وہ بیمار رہنے لگے تھے، ایک دن جب وہ نگار کے آفس میں مجھ سے ملے تھے تو ان کے ہونٹوں پہ ناقدریٔ زمانے کے شکوے ہی شکوے تھے۔ آرزو اکبر آبادی بہت ہی سیدھے سادے انسان اور نرے شاعر تھے وہ اپنی ساری زندگی بے قدری کے ساتھ کسمپرسی کا شکار رہے اور پھر ایک دن بہت سی حسرتیں دل میں لیے خاموشی کے ساتھ اس دنیا سے چلے گئے۔