ہماری ہمدردیاں اور ٹیپوسلطان

مکافات عمل پہ اتنا ہی یقین رکھیے جتنا کہ آپ اور ہم اپنی سانسوں پر یقین رکھتے ہیں۔


فرح ناز June 13, 2015
[email protected]

مکافات عمل پہ اتنا ہی یقین رکھیے جتنا کہ آپ اور ہم اپنی سانسوں پر یقین رکھتے ہیں۔ اس لیے کہ دنیا کے تمام قوانین انسان بدل سکتا ہے اور سزا و جزا اپنے حساب سے بنانے کی کوشش بھی کرسکتا ہے مگر اللہ کے قوانین طے شدہ ہیں اور انھیں سوائے اللہ کے کوئی تبدیل نہیں کرسکتا۔

وقت تیزی سے گزرتا جاتا ہے مگر اپنے پیچھے اپنے گزرنے کا احساس چھوڑکرگزرتا ہے، اب وہ اچھا ہو یا برا اس کا دارومدار ہمارے اعمال پر ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اللہ اپنی طرف سے آزمائشیں بھی دیتا ہے اور خود ہی ان آزمائشوں سے نکالتا بھی ہے مگر ضروری ہے کہ اللہ پر ایمان کامل ہو۔

زندگی، موت اور رزق اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے اور جو لوگ یہ چیزیں اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں وقتی طور پر ہی سہی مگر پھر ان کو عبرت بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ جنت اور دوزخ دونوں کا اندازہ اس دنیا میں ہی ہوجاتا ہے۔ بے شک اللہ غفور الرحیم ہے۔

سعد عزیز ایک پڑھا لکھا، کھاتے پیتے گھرانے کا فرد، ذرا ایک لمحے کے لیے سوچیے! سبین محمود کو مارنے کا، صفورا گوٹھ کی بس میں زندہ لوگوں کو شہید کرنے کا کتنا فائدہ اس کو ہوا؟ یہ تو سزا سے شاید نہ بچ سکے مگر تمام تر زندگی پھر اس کی بیوی، اس کا بیٹا ایک قاتل، دہشت گرد، غدار کا بیٹا اور بیوی کہلائیں گے، پل پل جئیں گے اور پل پل مریں گے۔ سعد عزیز کے والدین کا کیا قصور تھا کہ وہ ایک قاتل اور دہشت گرد کے والدین کہلائیں گے، کیا والدین کی زندگی بھر کی جدوجہد اور اولاد سے محبت کا یہی صلہ دیا سعد عزیز نے؟

ہماری ہمدردیاں پھر بھی سعد عزیزکی فیملی کے ساتھ ہیں۔عقل وشعور اسی لیے اللہ نے ہر ایک کو عطا کیا کہ وہ اپنے لیے اچھائی یا برائی کا فیصلہ خود کرسکے۔ جو نہیں کرسکتے وہ پاگل یا جنونی کہلاتے ہیں اور اس طرح کے لوگوں کے لیے معاشرے میں ایک الگ جگہ ہوتی ہے۔

O اور A لیول نے ہمارے ملک میں اپنی جگہ کافی بنا لی ہے، اس نظام تعلیم نے ایک دفعہ پھر انگریز کی سوچ کو مضبوط کیا، تعلیم ایک انڈسٹری کی شکل اختیار کرگئی، والدین ترقی یافتہ سوچ کے حامل ہوگئے اور اس O اور A لیول کے نظام تعلیم نے ہماری اپنی ہسٹری کو ہی نظام تعلیم سے نکال دیا، علامہ اقبال، نوجوانوں کے لیے علامہ اکبال ہوگئے، قائد اعظم، کائد اعظم ہوگئے ہمارے ادیب، شاعر، ہماری ہسٹری، گورنمنٹ اسکولوں کی کتابوں میں دفن ہوگئی، شیکسپیئر، ولیم ورڈزورتھ آگے آگے نظر آئے اور رومیؒ کہیں گم ہوگئے۔شخصیتیں مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئیں اور ریاست اور ریاست کی پالیسیز کمزور سے کمزور تر۔

کیا ہی اچھا ہوتا کہ، ٹیپو سلطان، محمد بن قاسم، میجر عزیز بھٹی، راشد منہاس اور بہت سے ایسے دوسرے اہم کردار جو ہمیشہ چمکتے ہوئے ستارے رہیں گے، ان چمکتے ہوئے ستاروں کو جلی حروف میں ہم اپنے نوجوان طبقے کو دکھا سکتے ان کے آئیڈیل بناسکتے۔

ٹیپو سلطان اپنے والد کی دوسری بیوی میں سے تھا۔ حیدر علی (ٹیپو سلطان کے والد) ایک نیک آدمی تھے۔ حیدر علی کی خواہش تھی کہ اللہ اس کو ایک بیٹے سے نوازے۔ اسی دعا کے لیے وہ ایک بزرگ کے مزار پر جایا کرتا تھا۔ حیدر علی کی دوسری بیوی فخر النسا نے ہی حیدر علی کو اس مزار پر جانے کا کہا تھا۔ بہرحال یہ کہانی پھر سہی۔ اللہ نے حیدر علی کو بیٹے سے نوازا اور ان بزرگ کے نام پر ٹیپو نام بھی رکھا گیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ٹیپو سلطان کی پیدائش سے پہلے ہی حیدر علی اور اس کی بیوی کو اس مزار کے متولی نے خوشخبری دی تھی کہ ان کا بیٹا ''سلطان'' ہوگا۔

سو پیدائش سے پہلے ہی''ٹیپو سلطان'' کا نام رکھا جاچکا تھا۔ اسی ٹیپو سلطان کا قول ہے کہ ''گیدڑ کی سو سال کی زندگی سے بہتر شیر کی ایک سال کی زندگی ہے۔''

بچپن ہی سے والدین نے جو تعلیم ٹیپو کے لیے شروع کی اس میں مذہب اور فلسفہ تھا۔ کیونکہ میسور میں اس وقت زیادہ تر آبادی ہندوؤں کی تھی لہٰذا حیدر علی نے دو اتالیق ٹیپو کے لیے مقرر کیے ایک مسلمان اور ایک ہندو۔ اور حیدر علی کی سوچ یہ تھی کہ چونکہ ہندوؤں کی آبادی زیادہ ہے اس لیے ٹیپو کو دونوں مذاہب کی دانشوری سے استفادہ حاصل کرنا چاہیے۔ حربی رموز سے آشنائی کے لیے الگ اتالیق مقرر کیا گیا۔

نشانہ بازی کی تربیت کے دوران ہی ٹیپو نے پرندوں کو نشانہ بنانے سے انکار کیا، اس کا کہنا تھا کہ کسی جاندار کو اپنی گولی کا نشانہ نہیں بنانا چاہتا۔اتنی سمجھ بوجھ کے ساتھ تعلیم و تربیت ہوتی ہے تو پھر ٹیپو سلطان جیسی اولاد ایک روشن باب بن جاتی ہے ہمیشہ کے لیے آنے والے ان کو پڑھیں، ان سے سیکھیں اور نئے نئے باب تخلیق کریں۔ مذہب سے پرے ہوکر ترقی کی امید رکھنا ایک بے وقوفی کے سوا کچھ نہیں، ہماری پاکستانی فیملیز کا یہ حال ہے کہ اگر پاکستان سے باہر رہنے چلے گئے یا لاٹری نکل آئی یا اپنے آپ کو امریکن کہلانے کا موقع مل گیا تو وہ خود اپنی ہی اولاد کو حمزہ سے ہیری بنانے میں ایک منٹ نہیں سوچتے۔ بیٹی سمایا ہے تو وہ "Sam" ہوجاتی ہے۔

ابا Dad اور اماںMomبن جاتی ہے۔ وہ ابا جو صبح منہ دھو کر ناشتہ کرتے تھے اب پہلے تمام گھر والوں کے لیے ناشتہ Table پر لگاتے ہیں وہ بھی ٹائم سے اور یقینا ہماری ہمدردیاں ان کے ساتھ ہیں۔مدرسوں کی تعلیم و تربیت نے بڑے بڑے لوگ پیدا کیے۔ گورنمنٹ کے ''پیلے اسکول'' نے بڑے بڑے لیڈر پیدا کیے لیکن ان تمام مدرسوں اور اسکول کی تعلیم کے ساتھ والدین اورگھر کی تربیت کسی بھی بچے کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ اگر آپ قدم بہ قدم اولاد کو صحیح اور غلط نہیں بتائیں گے تو مدرسہ، اسکول اور A لیول سب کے سب فیل ہوتے نظر آتے ہیں۔ کسی ایک کو مورد الزام ٹھہرانا بالکل بھی جائز نہیں ہوگا۔

زیادہ اولاد ہونا یا غربت و افلاس کی وجہ سے مدرسوں کو بھرنا، یا ان طالب علموں کی تعداد اور مدرسوں میں ان کی تعلیم و تربیت یقینا ہماری گورنمنٹ کے لیے ایک امتحان ہے کہ وہ والدین جو اپنی اولاد کو مدرسوں کے سپرد کرکے سوچتے ہیں کہ اب ان بچوں کو کھانا پینا، رہائش، فری ہوجائے گی اور وہ اپنے فرض سے سبکدوش ہوگئے تو یہ بالکل وہ اپنی جہالت کی بنا پر سوچ تو سکتے ہیں مگر ہماری ریاست تو جاہل نہیں، ریاست، ماں، باپ کی طرح ان مدرسوں کے طالب علموں کی مکمل تعلیم و تربیت اور چیک اور بیلنس کے رول مرتب کریں، کہ ان مدرسوں نے بڑے بڑے عالم ہمیں دیے ہیں اور اس بات کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔

ٹیپو سلطان اپنی رعایا کا ایک باپ کی طرح خیال رکھتا تھا وہ صبح فجر سے رات گئے تک امور سلطنت بذات خود دیکھتا تھا اپنی فیملی کے ساتھ صبح ناشتے کا آغاز کرتا اور اپنے آپ کی زیبائش کا بھی خیال رکھتا تھا۔ باقاعدہ نمازوں کا وقفہ ہوتا تھا۔ تمام موضوعات اور حالات حاضرہ پر اپنے وزیروں اور اپنے صاحبزادوں کے ساتھ بحث و مباحثہ بھی ہوتا، حالات اور واقعات پر کڑی نظر رکھی جاتی تھی۔تمام معاملات میں ٹیپو سلطان مداخلت کرسکتا تھا اور ہدایات جاری کرسکتا تھا۔ وہ تمام لوگوں کے ساتھ ایک ہی طرز کا مظاہرہ کرتا تھا۔ وہ کسی کو کتے کے کاٹنے پر مشورہ دے سکتا تھا تو کسی جرنیل کو حکمت عملی اختیار کرنے کا مشورہ بھی دے سکتا تھا۔

وہ جنگی پالیسیاں دوران جنگ بتاتا تھا اور دوران جنگ ہی اپنے گھر والوں سے خط و کتابت کے ذریعے رابطے میں رہتا اور بچوں کی کتابوں اور تعلیم کے لیے فکر مند بھی ہوتا۔

ہمارے اس زمانے میں جب مہنگی مہنگی یونیورسٹیاں، کالجز ہیں، والدین کو فرصت بھی ہے اور ان کی اپنی مصروفیات بھی، مگر سوچیں تو سہی ہم کیا پا رہے ہیں اور کیا کھو رہے ہیں، ہم اپنے آپ کے لیے اپنے بچوں کے لیے اپنے معاشرے کے لیے ہمدردیاں حاصل کریں یا ٹیپو سلطان بن جائیں؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں