ہیلمٹ پہننے کی پابندی
کراچی شہر میں ایک مرتبہ پھر موٹر سائیکل سواروں کے لیے ہیلمٹ پہننے کی پابندی عائد کردی گئی ہے
کراچی شہر میں ایک مرتبہ پھر موٹر سائیکل سواروں کے لیے ہیلمٹ پہننے کی پابندی عائد کردی گئی ہے جس سے لاکھوں شہری متاثر ہوںگے۔ اس مرتبہ یہ پابندی اس لحاظ سے منفرد اور انوکھی ہے کہ پولیس اہلکاروں کے خلاف بھی قانونی چارہ جوئی کا اعلان کیا گیا ہے۔
ٹریفک پولیس حکام کا کہناہے کہ ٹریفک حادثات میں 60 فی صد اموات موٹر سائیکل سواروں کی ہوتی ہیں جس کی بنیادی وجہ ہیلمٹ کا استعمال نہ کرنا ہے۔ ہیلمٹ زائد قیمتوں پر فروخت کرنے والے ڈیلرز کے خلاف کارروائی کا اعلان بھی کیا گیا ہے،اس سلسلے میں شہریوں کا کہنا ہے کہ پابندی سے پولیس کی کمائی اور تاجروں کے منافعے میں اضافے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا،عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔
کراچی شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کے خاتمے اور کرایوں میں ہوشربا اضافہ اور ٹریفک جام کے سبب موٹر سائیکلوں کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے جن کی تعداد 40 لاکھ سے زائد بتائی جاتی ہے۔کاروں والے بھی ٹریفک جام اور وقت کے ضیاع سے بچنے کے لیے موٹر سائیکلیں استعمال کرتے ہیں، موٹر سائیکلوں پر ایک دو نہیں تین تین اور چار چار مرد و خواتین سفر کرتے نظر آتے ہیں۔ اسکولوں کے اوقات میں ایک ایک موٹر سائیکل پر 4سے5 بچے سوار ہوتے ہیں۔
یوٹرن، پلوں اور سڑکوں پر مخالف سمت سفر کرتے ہیں موٹر سائیکلوں پر بڑا بڑا سامان مثلاً سنیٹری پائپ، پلائی بورڈ اور دروازے تک لے کر سفر کرنے کا رواج بنتا جارہاہے لیکن ٹریفک پولیس اس سب پر آنکھیں بند کیے رکھتی ہے۔ ٹینکر اور ڈمپر وغیرہ روزانہ کئی زندگیوں کے ساتھ گاڑیوں کو بھی نگل جاتے ہیں بھوسے کے لدے ٹرک ممنوع اوقات میں ہیوی ٹریفک کا داخلہ، فٹنس سے مبرا دھواں چھوڑتی کھٹارا اورخطرناک گاڑیاں، غیر معیاری سی این جی سلنڈر، غیر تربیت یافتہ ڈرائیورز، چنگ چی زدہ شہر سے متعلق حکومت، محکمہ ٹرانسپورٹ اور ٹریفک پولیس کی کارکردگی کو ظاہر کرتے ہیں۔
ہیلمٹ استعمال کرنے کا پابندی کا حکم نامہ ڈی آئی جی ٹریفک پولیس کی جانب سے جاری کیا گیا تھا، پابندی کے پہلے ہی دن وزیر داخلہ نے صنعت کاروں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ پابندی سے کوئی مستثنیٰ نہیں ہوگا، سختی سے اطلاق کیا جائے گا، اسی دن آئی جی پولیس نے خواتین کے لیے ہیلمٹ پہننے کی پابندی کو ناممکن قرار دیتے ہوئے انھیں اس پابندی سے استثنیٰ دے دیا کہ یہ فیصلہ عوام کے مطالبہ اور خواہش پر کیا گیا ہے۔
اس فیصلے کو پولیس کے سربراہ کا انتظامی فیصلہ کہا جائے یا عوامی یا سیاسی فیصلے کا نام دیا جائے؟ ہمارے ارباب اختیار ماہرین کی خدمات، تمام تر وسائل وذرایع رکھنے کے باوجود بلا سوچے سمجھے مضحکہ خیز اور شخصی قسم کے اقدامات اور احکامات جاری کرنے کے عادی ہوچکے ہیں جس کی وجہ سے قانون اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بے وقتی ہوتی ہے اس مرتبہ ہیلمٹ پہننے کی پابندی کے حکم نامے میں جو دعوے کیے گئے ہیں کیا ٹریفک پولیس کے لیے اس پر عمل درآمد کرنا ممکن ہوگا۔
مثلاً پولیس والوں سے بھی خلاف ورزی کی صورت میں کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی، جس پولیس کا سربراہ بار بارکی تنبیہوں کے باوجود سادہ لباس پولیس اہلکاروں کو وردی نہ پہناسکے ان کی گاڑیوں سے سیاہ شیشے نہ اتروا سکے وہاں پولیس والوں سے ہیلمٹ کی پابندی کون کروائے گا، ان کا چالان کون کاٹے گا؟ ہیلمٹ زائد قیمتوں پر فروخت کرنے والے ڈیلروں کے خلاف کارروائی کیونکر ہوسکے گی اور ماضی میں اس سلسلے میں کیا کارروائی کی گئی؟ ہماری سڑکوں پر بھارت، ایران، چین وغیرہ کے تیار کردہ اورغیر معیاری ہیلمٹ کھلے عام فروخت ہورہے ہیں اگر لاکھوں شہری حالیہ پابندی پر عمل کریں تو کتنے لاکھ نئے ہیلمٹ درکار ہوں گے، کہاں سے آئیں گے، اسمگل ہوں گے یا غیر معیاری تیار ہوں گے، جب کبھی وقتی طور پر ہیلمٹ کے استعمال پر سختی برتی جاتی ہے تو لوگ سیفٹی ہیلمٹ پہننا شروع کردیتے ہیں اکثر کے ہیلمٹ موٹر سائیکلوں کی ٹنکیوں یا ساتھ سفر کرنے والی خواتین کی گود میں رکھے ہوتے ہیں جس سے یہ پابندی حفاظتی کے بجائے علامتی قسم کی ہوجاتی ہے۔
خواتین کو ہیلمٹ کے استعمال کے لیے راغب کرنے کے لیے مفت ہیلمٹ تقسیم کرنے کی جو تجویز دی گئی ہے اس کے لیے کتنے رقم اور کتنے ہیلمٹ درکار ہوں گے، ان کی تقسیم کس طرح ہوگی کیا ان کے ڈیزائن یا رنگ مخصوص قسم کے ہوں گے تاکہ یہ مرد حضرات استعمال نہ کرسکیں اور انھیں مارکیٹ میں فروخت کرکے نوٹ نہ کمائے جاسکیں؟ ہر بار ہیلمٹ کے استعمال کی پابندی کے اطلاق کے ساتھ ہی اس قسم کی سرگوشیاں اور الزامات سامنے آتے ہیں کہ یہ پابندی منظور نظر افراد یا فلاں شخصیت، ادارے، تاجر یا در آمد کنندہ کو فائدہ پہنچانے کے لیے لگائی گئی ہے۔
ڈبل سواری پر بار بار اور بلا جواز پابندیوں کے بارے میں بھی یہ شکایت عام ہے کہ یہ سب کچھ محکمہ ٹرانسپورٹ، پولیس اور ٹرانسپورٹ مافیا کی ملی بھگت سے عائد کی جاتی ہے جس سے ٹرانسپورٹ مافیا کی یومیہ آمدنی میں لاکھوں روپوں کا اضافہ اور پولیس حکام کو لاکھوں کا بھتہ وصول ہوتا ہے اور پابندی کے باوجود جرائم اور ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ بدستور جاری رہتا ہے کسی بھی قسم انتظامی فیصلہ یا قانون سازی کرتے وقت ہمارے ارباب اقتدار و اختیار عوام کے مزاج و نفسیات ان کے معاشی و سماجی پس منظر اور تکنیکی پیچیدگیوں کو نظر انداز کر بیٹھتے ہیں مثلاً یہ کہ :
(1) کیا ہیلمٹ کے استعمال کی پابندی لگاتے وقت یہ سوچا گیا کہ یہاں گاڑیوں کی فٹنس کا کیا معیار ہے؟ 90 فی صد سے زائد موٹر سائیکلوں میں نہ تو سائڈ میرر ہوتے ہیں نہ انڈیکٹر کام کررہے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے موٹر سائیکل سواروں کو بار بار دائیں بائیں مڑ کر پیچھے کی طرف دیکھنا پڑتا ہے، ہاتھ سے اشارہ دینا پڑتا ہے اکثر تو اس کی بھی زحمت نہیں کرتے ہیں۔
(2) ہیلمٹ کی بناوٹ کچھ اس طرح کی ہوتی ہے کہ اگر سائڈ میرر نہ ہو تو اس کو مزید گردن موڑ کر اور جھک کر پیچھے کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ سفر کے دوران یہ عمل ہر ہر منٹ میں کئی کئی مرتبہ کرنا پڑتا ہے اگر کوئی موٹر سائیکل سوار ٹاور سے گلشن حدید یا سرجانی ٹاؤن جارہا ہے تو اس دوران کتنی مرتبہ گردن کو خم دے گا شاید اسی وجہ سے بہت سے لوگ ہیلمٹ کو موٹر سائیکل کی ٹنکیوں یا خواتین کے ہاتھوں میں تھماکر سفر کرتے ہیں۔
(3) یہ پہلو بھی توجہ طلب ہے کہ خواتین، بچے، بزرگ، معذور اور بیمار افراد ہیلمٹ کا استعمال کیسے کریں گے؟ جب کہ یہاں ٹرانسپورٹ کا مسئلہ اتنا سنگین ہے کہ گاڑیوں کی چھتوں حتیٰ کہ چنگ چی کی چھتوں پر بھی بیٹھے اور لٹکے نظر آتے ہیں، موٹر سائیکلوں پر تین تین افراد کا بیٹھنا اور کئی کئی بچوں اور سامان کے ساتھ سفر کرنا تقریباً مجبوری بن چکی ہے پھر یہ تمام سوار ہیلمٹ کیسے استعمال کرسکتے ہیں اور اگر استعمال کریں تو اس سے ان کی حفاظت ہوگی یا مزید حادثات بڑھیں گے؟
(4) ہمارے ہاں موٹر سائیکل تو ایک طرف بڑی گاڑیوں کی فٹنس نہیں ہے جنھیں فٹنس سرٹیفکیٹ جاری کردیا جاتا ہے یا یہ بغیر فٹنس سرٹیفکیٹ کے دوڑتی بھاگتی نظر آتی ہیں جن کی وجہ سے ماحول خراب اور حادثات میں اضافہ ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ہیلمٹ پہننے کی پابندی ہے، اٹلی میں تو موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر بھی پابندی ہے، سائیکل استعمال کرنے والوں کے لیے بھی مخصوص قسم کی ٹوپیاں پہننا ضروری ہیں، دوران سفر بیلٹ باندھنا، بچوں کو صرف بیک سیٹ پر مخصوص نشست میں باندھ کر بٹھانا لازمی ہے ان ممالک کے شہریوں کو تمام انسانی سہولیات میسر ہیں، ٹریفک قانون کا اطلاق و احترام ہے ہمیں اپنے اور ان ممالک کے درمیان پائے جانے والے فرق کا موازنہ کرنا چاہیے۔
سیمینارز، لیکچرز، بیرونی دنیا کے دورے، ٹریننگ اور بیرونی ماہرین کے لیکچر صورتحال میں بہتری نہیں لاسکتے جب تک کہ اپنے زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے ٹرانسپورٹ و ٹریفک کے نظام کی بہتری کے لیے حکومتی وسائل کو اخلاص نیت سے استعمال میں لاکر عوام میں شعور اور خواص میں قانون کا احترام پیدا نہیں کردیاجاتا جس کے لیے وسائل کے ساتھ ساتھ اخلاص اور احتساب دونوں ضروری ہیں۔