عقیدت کی خوشبو
فرمائشیں جمع ہوتی جا رہی تھیں اور میں انھیں نظر انداز کیے جا رہا تھا۔
فرمائشیں جمع ہوتی جا رہی تھیں اور میں انھیں نظر انداز کیے جا رہا تھا۔ وجہ یہ کہ مختلف اوقات میں ''عقیدت کی خوشبو'' کی تین قسطیں چھپ چکی تھیں لیکن یہ آخری فرمائش اتنی زوردار تھی کہ میرے لیے ٹال مٹول کی کوئی گنجائش نہ رہ گئی تھی اور پھر یہ کام بھی تو ثواب اور نیکی کا ملا جلا تھا۔ اگر کئی غیر مسلموں نے حضرت محمدؐ کی ذات بابرکات میں اتنی خوبیاں تلاش کر کے انھیں نظموں میں بیان کیا تو ان کا ذکر تو لازم ہو گیا۔
سادھو رام سہارنپوری کا شعر ہے؎
بدل جائے نظام بزم گیتی آن واحد میں
کوئی ضد پر اگر آ جائے دیوانہ محمدؐ کا
بخشی کشوری لال اخترؔ امرتسری کہتے ہیں؎
کیوں کر نہ جہاں میں ہو مرا مرتبہ عالی
میں اختر ناچیز ہوں شیدائے محمدؐ
پنڈت ہری چند اختر کا کلام پڑھیے؎
زندہ ہو جاتے ہیں جو مرتے ہیں ان کے نام پر
اللہ اللہ! موت کو کس نے مسیحا کر دیا
آدمیت کا غرض ساماں مہیا کر دیا
اک عرب نے آدمی کا بول بالا کر دیا
تارا چند تارا لاہوری کے دو شعر سنئے؎
کوئی اس روضۂ اقدس کا بتلا دے اگر رستہ
بھلا ہو گا، بھلا ہو گا، بھلا ہو گا، بھلا ہو گا
لو ائے حمد کا پنجہ جو چمکے گا قیامت میں
اسی کے نور سے تارا کا بھی تارا چڑھا ہو گا
چندر پرکاش جوہرؔ بجنوری کا کلام ہے؎
یہ ارض مقدس ہے، یہ طیبہ کی زمیں ہے
جنت بھی یہیں ساکن جنت بھی یہیں ہے
منشی پیارے لال رونق دہلوی کا کلام پڑھیے؎
دل لے رہا ہے شوق زیارت میں چٹکیاں
کوسوں بڑھا ہوا مرا پائے خیال ہے
ہر وقت ہے طلب تو اسی کی ہے اک طلب
کوئی سوال ہے تو اسی کا سوال ہے
سالک رام گرداری کا شعر ہے؎
کونین کی چیزوں میں مجھے کچھ نہیں بھاتا
جس دن سے مرے سر میں ہے سودائے مدینہ
چندی پرشاد شیداؔؔ دہلوی کا کلام ہے؎
وہ لطف رنگ سحاب بھی ہے
نسیم رحمت مآب بھی ہے
رسولوں میں انتخاب بھی ہے
زمیں پہ گردوں رکاب بھی ہے
ہے روح فردوس کا خزانہ
کہ نعت گوئی کا ہے ترانہ
امر سنگھ عارجؔ روپڑی کے شعر پڑھیے؎
قدم قدم پہ جلے تیری رہبری کے چراغ
نفس نفس تری تطہیر سے معطر ہے
نہیں ہے غم ہمیں خورشید حشر کا ہرگز
ہمارے سر پہ تری رحمتوں کی چادر ہے
پنڈت بالمکند عرشؔ ملسیانی کی نظم کے اشعار ہیں؎
شان بشر کا منتہا، خالق دہر کا حبیبؐ
مرد خدا پرست کا آئینۂ حیات تو
مدح سرائے مصطفیؐ ہے تو عمل بھی چاہیے
عرش جو ہو سکے تو ہو عزم میں پُر ثبات تُو
امر چند قیسؔ جالندھری کے نعتیہ اشعار ہیں؎
ہم نے جس دن سے تیرا جلوۂ رعنا دیکھا
گوشۂ چشم میں بستا ہوا کعبہ دیکھا
تیرے در سے نہ پھرا کوئی سوالی خالی
آج تک ہم نے نہ تجھ سا کوئی داتا دیکھا
روپ کشور نامیؔ سہارنپوری کا کلام ہے؎
گزارے سات دن جو آستانے پر محمدؐ کے
گدا وہ ایک ہی ہفتہ میں شاہ ہفت کشور ہو
دلوں میں روشنی پھیلے چراغ عشق احمد کی
محمدؐ مصطفیٰ کے نور سے معمور گھر گھر ہو
رانا بھگوان داس بھگوان کے نعتیہ شعر پڑھیے؎
حسن اور عشق ہیں آج پردہ کشا
فرش پر مصطفےؐ عرش پر کبریا
شان معراج سے بس یہ عقدہ کھلا
مرکز عشق ہیں خاتم الانبیاؐ
سردار بشن سنگھ بیکل کی نعت کے شعر؎
اے رسول پاک،ؐ اے پیغمبر عالی وقار
چشم باطن بیں نے دیکھی تجھ میں شان کردگار
تیرے دم سے گل نظر آئے ہیں وہ عرفاں کے خار
خوبیوں کا ہو تیری کیوں کر بھلا ہم سے شمار
تیرے دم سے ہوگئیں تاریکیاں سب منشتر
پا گئی راحت ترے آنے سے چشم منتظر
پنڈت جگن ناتھ آزادؔ نے بہت سا اور طویل نعتیہ کلام کہا ہے دو اشعار درج ذیل ہیں؎
بھٹکتی خلق کو رستہ دکھانے رہنما آیا
سفینے کو تباہی سے بچانے ناخدا آیا
بشر بن کر زمانے کا جمال اولیں آیا
متاع صدق لے کر صادق الوعد و امیں آیا
گوبند پرشاد فضاؔ کے اشعار ہیں؎
محمدؐ رہنمائے انس و جاں ہے
رسولؐ کبریائے دو جہاں ہے
وہ ہے مہر سپہر رہنمائی
حبیب بارگاہ کبریائی
نبی ایسا کوئی دنیا میں پیدا
نہ تھا آگے، نہ اب ہے، اور نہ ہو گا